كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟
كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟ نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟ الحمد للہ: اول: نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں. ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے. اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں: " اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى" اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى. اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے" اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے. ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 511 ). مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 8907 ) كے جواب كا مطالعہ كريں. دوم: اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو. اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے. علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں. ديكھيں: الباعث الحثيث ( 1 / 278 ). مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ " القول المنيف فى حكم العمل بالحديث الضعيف " كا مطالعہ كريں. اور اس كے ساتھ ساتھ سوال نمبر ( 44877 ) كے جواب كا مطالعہ كريں. واللہ اعلم . الاسلام سوال وجواب كيا نصف شعبان كى رات اللہ تعالى آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے ؟ كيا اللہ سبحانہ وتعالى نصف شعبان كى رات آسمان دنيا پر نازل ہو كر كافر اور كينہ اور بغض ركھنے والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے ؟ الحمد للہ: يہ ايك حديث ميں ہے، ليكن اس حديث كى صحت ميں اہل علم نے كلام كى ہے، اور نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى. اور موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " اللہ تعالى نصف شعبان كى رات جھانك كر مشرك اور كينہ و بغض والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے " سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1390 ). مشاحن: اس شخص كو كہتے ہيں جو اپنے سے دشمنى ركھے. " الزوائد" ميں ہے: عبد اللہ بن لھيعۃ كے ضعف اور وليد بن مسلم كى تدليس كى بنا پر يہ حديث ضعيف ہے. اور اس حديث ميں اضطراب بھى جسے دار قطنى رحمہ اللہ نے " العلل ( 6 / 50 - 51 ) ميں بيان كيا ہے، اور اس كے متعلق كہا ہے: يہ حديث ثابت نہيں. اور معاذ بن جبل، عائشہ اور ابو ھريرہ اور ابو ثعلبہ خشنى وغيرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى حديث بيان كى گئى ہے، ليكن يہ طرق بھى ضعف سے خالى نہيں، بلكہ بعض تو شديد ضعف والے ہيں. ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " نصف شعبان كى رات كے فضائل ميں متعدد احاديث ہيں، جن ميں اختلاف كيا گيا ہے، اكثر علماء نےتو انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور بعض احاديث كو ابن حبان نے صحيح قرار ديا ہے" ديكھيں: لطائف المعارف ( 261 ). اور پھر اللہ تعالى كا نزول نصف شعبان كى رات كے ساتھ خاص نہيں بلكہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ثابت ہے كہ اللہ تعالى ہر رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے، اور نصف شعبان كى رات اس عموم ميں داخل ہے. اسى ليے جب عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى سے نصف شعبان كى رات ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے سائل كو كہا: اے ضعيف صرف نصف شعبان كى رات! ؟ بلكہ اللہ تعالى كو ہر رات نزول فرماتا ہے " اسے ابو عثمان الصابونى نے " اعتقاد اھل السنۃ ( 92 ) ميں روايت كيا ہے. اور عقيلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: نصف شعبان ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق احاديث ميں لين ہے، اور ہر رات ميں اللہ تعالى كے نزول والى احاديث صحيح اور ثابت ہيں، اور ان شاء اللہ نصف شعبان كى رات بھى اس ميں داخل ہے. ديكھيں: الضعفاء ( 3 / 29 ). مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 8907 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں واللہ اعلم . الاسلام سوال وجواب ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب الحمدللہ مجھے ہرمہينہ ايام بيض ( چاند كي تيرہ چودہ پندرہ تاريخ ) كے روزے ركھنے كي عادت ہے، ليكن اس ماہ ميں نے روزے نہيں ركھے اورجب ميں نے روزے ركھنے چاہے تو مجھے يہ كہا گيا كہ يہ جائزنہيں بلكہ يہ بدعت ہے ، ( ميں نے ماہ كےپہلے سوموار كا روزہ ركھا اور پھر انيس شعبان بروز بدھ كا بھي روزہ ركھا ہے اور اللہ كےحكم سے كل جمعرات كا بھي روزہ ركھنا ہے تو اس طرح ميرے تين روزے ہوجائيں گے ) لھذا اس كا حكم كيا ہے ؟ اور شعبان كےمہينہ ميں كثرت سے روزے ركھنے كا حكم كيا ہے ؟ الحمد للہ: اول: اللہ سبحانہ وتعالي نے بغير علم كے كوئي بات كہني حرام قرار دي ہے اور اسے شرك اور كبيرہ گناہوں كےساتھ ملا كر ذكر كيا ہے . فرمان باري تعالي ہے: {كہہ ديجيے كہ ميرے رب نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں اور ہرگناہ كي بات كو اور ناحق كسي پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كےساتھ كسي كو شريك ٹھراؤ جس كي اللہ تعالي نے كوئي سند نہيں اتاري اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كے ذمہ ايسي بات لگادو جس كو تم نہيں جانتے} الاعراف ( 33 ) اور سوال ميں جو يہ ذكر ہوا ہے كہ بعض لوگوں نےمذكورہ صورت ميں شعبان كےروزے ركھنے كوبدعت قرار ديا ہے يہ بھي اللہ تعالي پر بغير علم كے بات كہي گئي ہے . دوم : ہر ماہ ميں تين روزے ركھنا مستحب ہيں، اور افضل يہ ہے كہ يہ روزے ايام بيض جو كہ تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كےبنتےہيں ركھےجائيں . ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: ميرے دلي دوست نے مجھے تين چيزوں كي وصيت فرمائي كہ موت تك ميں انہيں ترك نہ كروں، ہر ماہ كےتين روزے اور چاشت كي نماز اور سونے سے قبل وتر ادا كرنے. صحيح بخاري حديث نمبر ( 1124 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 721 ) اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ نے مجھے فرمايا: " تيرے ليے ہر ماہ كےتين روزے ركھنا كافي ہے، كيونكہ تجھے ہر نيكي كا دس گنا اجرملےگا تو اس طرح يہ سارے سال كےروزے ہونگے" صحيح بخاري حديث نمبر ( 1874 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1159 ) اور ابوذر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا: " اگر تم مہينہ ميں كوئي روزہ ركھنا چاہتےہو تو تيرہ چودہ پندرہ كا روزہ ركھو" سنن ترمذي حديث نمبر ( 761 ) سنن نسائي حديث نمبر ( 2424 ) امام ترمذي نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 947 ) ميں اس كي موفقت كي ہے. شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ سوال كيا گيا: حديث ميں ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ كو ہر ماہ ميں تين روزے ركھنے كي وصيت فرمائي، لھذا يہ روزے كب ركھےجائيں؟ اور كيا يہ مسلسل ركھنےہونگے؟ شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا: يہ تين روزے مسلسل ركھنےبھي جائز ہيں اور عليحدہ عليحدہ بھي، اور يہ بھي جائز ہے كہ مہينہ كي ابتدا ميں ركھ ليے جائيں يا درميان ميں اور مہينہ كے آخر ميں بھي ركھے جاسكتے ہيں، اس ميں وسعت ہے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس كي تعيين نہيں فرمائي . عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے پوچھا گيا كہ كيا رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم ہر ماہ تين ايام كےروزے ركھتےتھے؟ توعائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كہنےلگيں جي ہاں، ان سے كہا گيا كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھتےتھے؟ وہ كہنےلگيں انہيں اس كي پرواہ نہيں تھي كہ مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھيں. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1160 ) ليكن تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كےروزے ركھنا افضل ہيں كيونكہ يہ ايام بيض ہيں ( يعني ان ايام ميں چاندمكمل ہوتاہے ) . ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ ابن عثيمين ( 20 / سوال نمبر 376 ) جس نےبھي آپ كواس مہينہ ( شعبان ) ميں روزے ركھنےسے منع كيا ہے ہو سكتا ہے ہوسكتا ہے اس نےاس ليے كہا ہو كہ اسے يہ علم ہوا ہو كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے نصف شعبان ہونے پر روزے ركھنے سے منع فرمايا ہے . اس ممانعت كےمتعلق سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب ميں تفصيل سے بيان ہوچكا ہے كہ يہ ممانعت اس شخص كےمتعلق ہے جو نصف شعبان كےبعد روزے ركھنےكي ابتدا كرتا ہے اور روزہ ركھنا اس كي عادت نہيں . ليكن جو شخص شعبان كي ابتدا ميں روزے ركھنے شروع كرے اور پھر نصف شعبان كےبعد بھي روزے ركھتا رہے يا پھر روزہ ركھنے كي عادت ہو تو نصف شعبان كےبعد اس كےروزہ ركھنے ميں كوئي ممانعت نہيں، مثلا اگر كسي شخص كي ہر ماہ تين روزے ركھنےكي عادت ہے يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنے كي عادت ہو . تواس بنا پر شعبان ميں آپ كاتين روزے ركھنے ميں كوئي حرج نہيں، حتي كہ اگر كچھ روزے شعبان كےنصف كےبعد بھي ہوں توصحيح ہے. چہارم : شعبان كےمہينہ ميں كثرت سے روزے ركھنےميں كوئي حرج نہيں بلكہ يہ سنت ہے، نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم اس ماہ ميں كثرت سے روزے ركھا كرتے تھے. عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے ركھتے تو ہم كہنا شروع كرديتےكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اب روزے نہيں چھوڑيں گے، اور روزے نہ ركھتے حتي كہ ہم يہ كہنےلگتيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے نہيں ركھيں گے، ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم كو رمضان المبارك كےعلاوہ كسي اور ماہ كےمكمل روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، اور ميں نےشعبان كےعلاوہ كسي اور ماہ ميں انہيں كثرت سے روزے ركھتےہوئے نہيں ديكھا. صحيح بخاري حديث نمبر ( 1868 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1156 ) ابو سلمہ بيان كرتےہيں كہ عائشہ رضي اللہ تعالي نے انہيں بيان كيا كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم شعبان سے زيادہ كسي اور ماہ ميں روزے نہيں ركھتےتھے نبي كريم صلي اللہ پورے شعبان كےہي روزے ركھتےاور كہا كرتےتھے جتني تم طاقت ركھتےہو اتنا كام كرو، اس ليے كہ اللہ تعالي اس وقت تك اجرو ثواب ختم نہيں كرتا جب تك تم اكتا نہ جاؤ، اور نبي صلي اللہ عليہ وسلم كا سب سے پسند وہ نماز تھي جس پر ہميشگي كي جائے اگرچہ وہ كم ہي ہو، اور جب نبي صلي اللہ عليہ وسلم نماز پڑھتےتواس پر ہميشگي كرتے تھے. صحيح بخاري حديث نمبر ( 1869 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 782 ) آپ سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب كا بھي مطالعہ كريں جس كي طرف ابھي كچھ دير قبل اشارہ بھي كيا گيا تھا. واللہ اعلم . الاسلام سوال وجواب نصف شعبان کے بعد قضائے رمضان کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں حمل اورولادت کی وجہ سے میرے ذمہ گزشتہ رمضان کے بہت سارے روزے تھے ، الحمدللہ میں نے اس کی قضاء میں روزے رکھے اورصرف سات باقی بچے جن میں سے تین تو نصف شعبان کے بعد رکھے ، اوررمضان سے قبل باقی بھی مکمل کرنا چاہتی ہوں ۔ میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے جائزنہيں صرف عادتا روزے رکھنے والے کے جائز ہیں مجھے آپ معلومات فراہم کریں اللہ تعالی آپ کو مستفید فرمائے میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ کیا میں اپنے باقیماندہ روزے بھی کرلوں کہ نہیں ؟ اوراگرجواب نفی میں ہو تو ان تین ایام کے روزوں کا حکم کیا ہے آیا مجھے اس کی دوبارہ قضاء کرنا ہوگي کہ نہيں؟ الحمدللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا : ( نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھو ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3237 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 738 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1651 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔ اس نہی سے مندرجہ ذيل مستثنی ہیں : 1 - جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا ، اس کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان ہے : ( رمضان سے ایک یا دو یوم قبل روزہ نہ رکھو لیکن جوشخص روزہ رکھتا ہو وہ رکھ لے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1914 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1082 ) ۔ 2 - جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردیے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا تویہ نہی میں نہيں آئے گا اس کی دلیل عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ : ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا سارا شعبان ہی روزے رکھتے تھے صرف تھوڑے سے ایام کے علاوہ باقی پورا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1970 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1156 ) ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : قولھا : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے صرف تھوڑے ايام کے علاوہ باقی سارا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے ) دوسرا جملہ پہلے کی تفسیر ہے اوران کے قول کلہ کا معنی مہینہ کا اکثر ہے ۔ اھـ تویہ حديث نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے لیکن اس کےلیے جوپہلے نصف کو دوسرے نصف سے ملائے ۔ 3 - اس سے رمضان کی قضاء میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں : ہمارے اصحاب کا کہنا ہے : بلااختلاف رمضان کےیوم الشک کا روزہ رکھنا جائز نہيں ۔۔۔ لیکن اگر اس میں قضاء یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھا جائے توجائز ہوگا، اس لیے کہ جب اس میں نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے تو فرضی روزہ رکھنا بالاولی جائز ہوگا ۔۔۔ اوراس لیے بھی کہ جب اس پرگزشتہ رمضان کے روزہ کی قضاء باقی ہو تواس پریہ روزہ رکھنا تومتعین ہوچکا ہے ، کیونکہ اس کی قضاء کے لیے وقت تنگ ہے ۔ اھـ دیکھیں : المجموع للنووی ( 6 / 399 ) ۔ یوم الشک وہ ہے جب انتیس شعبان کو مطلع ابرآلود ہونے کی بنا پر چاند نہ دیکھا جاسکتا ہو توتیس شعبان کو یوم الشک قراردیا جائے گا ، اس لیے کہ یہ مشکوک ہے کہ آیا یہ شعبان کا آخری دن ہے یا کہ رمضان کا پہلا دن۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : شعبان کے نصف ثانی میں قضاء کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں ، اورایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے والی نہی میں شامل نہیں ہوتا ۔ اس لیے ہم یہ کہیں گے کہ آپ کےتین روزے صحیح ہیں اورآپ باقی روزے بھی رمضان سے قبل ہی مکمل کرلیں ۔ واللہ اعلم . بشکریہ : الاسلام سوال وجواب |
|