روزہ غیر مسلم اقوام میں
قرآن مجید میں روزے کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰنے اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ تم پر روزوں کا یہ فرض کیاجانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے تم سے پہلی امتوں پر بھی روزے اسی طرح فرض کیےتھے جیسے تم پر کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ روزے کی یہ عبادت تقریباًدنیا کے تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی تردید ممکن نہیں۔ روزے کے بارے میں اسی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے'Encyclopedia of Religion' میںلفظ روزہ(Fasting)کے تحت مضمون نگار لکھتا ہے: ”روزہ یعنی غذا سے مکمل یا جزویپرہیز ایک ایسا آفاقی عمل ہے جو مشرق و مغرب کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں پایا جاتاہے۔“ 'Encyclopedia Brittanica' میں روزہ کے تحت اسی پہلو کو بیان کرتے ہوئےمضمون نگار لکھتا ہے: ”خاص مقاصد کے لیے یا اہم مقدس اوقات کے دوران میں یا انسے قبل روزہ رکھنا دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا خاصہ ہے۔“ 'Jewish Encyclopedia' میں ”روزہ اور روزہ کے ایام“ (Fasting and Fast Days)کے تحت مضمون نگار نے اس حقیقتکو یوں واضح کیا ہے: ”روزے کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے کہ مذہبی اور اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے خوش دلی سے جسم کو ایک مقررہ مدت کے لیے تمام قدرتی غذاﺅں سےمحروم رکھنا۔ روزے کے اس دستور کو دنیا کے تمام مذاہب میں بہت مقبولیت حاصل رہی ہے۔اگرچہ یہ حقیقت بھی ہے کہ مختلف مذاہب اور قوموں میں اس کے محرکات اور اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔“ مذہبی معلومات کی لغت"Theological Dictionary by Rev. Charlas Buck" میں روزہ کے تحت یہی بات ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ”کوئی آدمی مذہبیروزوں کو کتنی ہی کم اہمیت کیوں نہ دے۔ یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اکثر قدیماقوام نے بھی اس مذہبی دستور کو اپنایا ہے۔ مصریوں، فونیشیوں اور آشوریوں کے ہاں بھی ایسے ہی روزے پائے جاتے ہیں،جیسے یہودیوں کے ہاں پائے جاتےہیں۔“ ہندو مت : ہندومت وہ مذہب ہے جو آریاﺅںنے آجسے تقریباً پونے چار ہزار برس پہلے ہندوستان میں آ کر اختیار کیا۔ہندومتکی تعریف ہی یوں کی گئی ہے کہ یہ درحقیت روزوں، دعوتوں اورتہواروںکا مذہب ہے۔ اسمذہب کے ایک نمائندے ٹی ایم پی مہادیون، صدر شعبۂ فلسفہ مدراس یونیورسٹی ہندو مذہباور ہندو سماج میں روزہ کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ان تہواروںمیں جن کو سالانہ منایا جاتا ہے بعض تہوار روزہ (برت) کے لیے مخصوص ہیں، جو تزکیۂنفس کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہر ہندو فرقے نے دعا و عبادت کے لیے کچھ دن مقرر کر لیےہیں۔ جن میں اکثر افراد روزہ رکھتے ہیں، کھانے پینے سے باز رہتے ہیں۔ رات رات بھرجاگ کر اپنی مذہبی کتابوں کی تلاوت اور مراقبہ کرتے ہیں، ان میں سب سے اہم اورمشہور تہوار جو مختلف فرقوں میں رائج ہے، ”ویکنتاایکاوشی“ کا تہوار ہے، جو ”وشنو“ کی طرف منسوب ہے، لیکن اس میں صرف وشنو ہی کے ماننے والے نہیں، بلکہ دوسرے بہت سےلوگ بھی روزہ رکھتے ہیں ،اس تہوار میں وہ دن میں روزہ رکھتے ہیں،اور رات کو پوجاکرتے ہیں۔بعض دن ایسے ہیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (ان دنوں میں) وہ اندیبیوں (دیویوں) سے دعائیں کرتی ہیں، جو ایشور کی ان نسوانی صفات کا مظہر ہیں، جومختلف اشکال میں ظاہر ہوئی ہیں۔ ان دنوں کو ان کی مخصوص اہمیت کے پیش نظر ”برت“ یاعہدو معاہدہ کہا جاتا ہے اور یہ روح کے تزکیے کے لیے مخصوص ہیں۔ ان کا مقصد روح کومعنوی غذا پہنچانا ہے۔(ارکان اربعہ“ ،ابوالحسن علی ندوی۔ (Outline of Hinduism Chapter 4,Section 6). ہندووں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہرکھنے کا رواج ہے۔ "Sacred Books of the East" میں ویدوں کے حوالے سے ان روزوں کیترغیب یوں دی گئی ہے کہ: ”صاحب خانہ اور اس کی بیوی کو نئے اور پورے چاند کےدنوں میں روزہ رکھنا چاہیے۔“ (100/2) ”پورے چاند کے دن جبکہ رات اور دن کے ملاپکے وقت چاند طلوع ہوتا ہے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ روزہ رکھے۔“ (/30 25) اس کےعلاوہ ان کے ہاں قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پر بھی روزے رکھنے کا رواج ہے۔ "Sacred Books of the East" میں ویدوں کے حوالے سے اس کے بارے میں اس طرح بیان کیا گیاہے: ”اگر آدمی کی بیوی، بڑا گرو یا باپ انتقال کر جائے تو موت کے دن سے لے کراگلے دن اسی وقت تک روزہ رکھنا چاہیے۔“(137/2) گناہوں کے کفارے کے طور پر بھیروزہ رکھا جاتا ہے۔ "Sacred Books of the East" میں کفارے کے روزے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ”اگر کوئی شودر کسی دودھیل گائے یا جوان بیل کو بغیر کسی وجہ کے مارڈالے یا کسی کو بے وجہ گالی دے تو اس پر کفارے کے طور پر لازم ہے کہ سات دن کے روزےرکھے۔“ (84/2) ”کھانے کے دوران میں اگر میزبان کو یاد آجائے کہ اس نے مہمان کوخوش آمدید نہیں کہا تو اسے فوراً کھانا چھوڑ کر روزہ رکھنا چاہیے۔“ (/2 121) ہندووں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ کسی کی وفات یا پیدایش کی بعض صورتیںانسان کے لیے ناپاکی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ناپاکی برہمن کو لاحق ہو تو دس دن میںخودبخود ختم ہو جاتی ہے۔ کھتری کو لاحق ہو تو پندرہ دنوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ ویشکو لاحق ہو تو بیس دنوں میں ختم ہوتی ہے اور شودر کو یہ ناپاکی لاحق ہو تو ایکمہینے کے بعد ختم ہوتی ہے۔ شودر کی ناپاکی کے اس عرصے میں اگر کوئی آدمی جو پہلے ہیدو بار جنم لے چکا ہو، اس کے ہاں کھانا کھائے تو سخت گناہ گار ہو جاتا ہے۔ اس گناہکے کفارے کی صورت"Sacred Books of the East"کے مصنف نے یہ بیان کی ہے: ”ایساگناہ گار بارہ ماہ تک وید کی سمتھا کی تلاوت کرنے سے یا پھر بارہ نصف مہینوں کےروزے رکھنے سے اپنے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔“ (30/14) گرو (استاد) کے ساتھ آدابکو ملحوظ نہ رکھنے کے جرم کا کفارہ بیان کرتے ہوئے "Sacred Books of the East" کامصنف لکھتا ہے: ”اگر کسی نے اپنے اساتذہ کو بے ادبی کرتے ہوئے ناراض کر دیا تواسے روزہ رکھنا ہو گا اور اس وقت تک کھانے سے پرہیز کرنا ہو گا جب تک اسے معافی نہمل جائے۔“ (130/7) ہندووں میں بعض عمومی واقعات سے برا شگون لینے کا بہت رواجہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں ایسی بدشگونیوں کے اثرات سے بچنے کا طریقہ بتایا گیاہے۔ "Sacred Books of the East"کا مصنف بیان کرتا ہے: ”اگر استاد اور شاگرد کےدرمیان سے کتا، نیولا، سانپ، مینڈک یا بلی گزر جائے تو ان کے لیے تین دن کا روزہاور سفر ضروری ہے۔“ (184/2) جین متاس کے بعدہم ہندوستان کے ایک دوسرے مذہب ”جین مت“ کا روزوں ہی کے حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں۔جین مت کا مختصر تعارف یہ ہے کہ اس کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستانکے علاقے اترپردیش میں ہوئی۔ مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔جین مت میں یہ عقیدہپایا جاتا ہے کہ راہبانہ ریاضتیں انسان کے باطن کی اصلاح کرتی ہیں۔ وہ انھی ریاضتوںمیں روزے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ اصلاح اس طرح ہوتی ہے کہ یہ ریاضتیں کرمن کے وہانبار نہیں لگنے دیتیں جو زندگی کے جوہر کو بوجھل کر دیتے ہیں۔ان کے نزدیک روزہانسانوں کو کرمن سے آزاد ہونے کی راہ پر لے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سنیاسیمرد اور عورتیں اپنی روزمرہ زندگی میں تعلیم، مراقبوں اور ان جسمانی ریاضتوں میںمصروف رہتے ہیں، جن میں سے ایک روزہ بھی ہے۔ یہ ریاضتیں اسی لیے بنائی گئی ہیں کہیہ روح (Jiva) کے کرمن سے آزاد ہونے کے عمل کو بڑھاتی چلی جائیں اور اسے آگے آنےوالی روحانی منازل کی طرف لے چلیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بہت سے راہبانہ ضابطےزندگی بھر کے لیے اپنانے ضروری ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ان مراحل سے گزرا نہیں جاسکتا۔ ان ریاضتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سنیاسی جب ریاضتیں کرتے کرتے بوڑھا ہوجاتا ہے تو وہ اپنی روحانی ترقی کے لیے چاہے تو رضاکارانہ طور پر اپنے لیے تامرگروزے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی وہ سنیاسی روزہ رکھ لے گا اور افطار نہیں کرے گا،حتی کہ وہ مر جائے۔ (Encyclopedia of Religion Under Fasting.)۔ (A Hand Book of Living Religions by John R Hinnells, Under Jainism Pg 266.) مولانا سید سلیمانندوی رحمہ اللہ ”سیرت النبی“ میں جین دھرم کے ہاں روزوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتےہیں: ”ہندوستان کے تمام مذاہب میں جینی دھرم میں روزہ کی سخت شرائط ہیں، چالیسچالیس دن تک کا ان کے یہاں ایک روزہ ہوتا ہے۔ گجرات و دکن میں ہر سال جینی کئی کئیہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں۔“ (242/5) پارسی مذہبقدیم پارسی مذہب میں اگرچہ کبھی کبھار روزہ رکھا جاتا ہے، لیکن عام طورپر روزہ رکھنا پسند نہیں کیا جاتا۔ اس مذہب کے پیرووں کا خیال ہے کہ روح کی ترقی کےلیے جسم کو روزے کی مشقتوں میں ڈالنا درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا روزہ یہ ہےکہ ہم اپنی زبان، آنکھوں، کانوں اور ہاتھوں سے کوئی گناہ نہ سرزد ہونے دیں۔ دوسرےمذاہب میں جو روزہ نہ کھانے پینے سے ہوتا ہے، ہمارے ہاں وہ روزہ گناہ نہ کرنے سےہوتا ہے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics Under Fasting.) مولانا سیدسلیمان ندوی ”سیرت النبی“ میں پارسیوں کے ہاں روزے کے بارے میں لکھتےہیں: ”پارسی مذہب میں گو عام پیرووں پر روزہ فرض نہیں، لیکن ان کی الہامی کتابکی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کا حکم ان کے ہاں موجود تھا۔ خصوصاً مذہبیپیشواوں کے لیے تو پنج سالہ روزہ ضروری تھا۔“ (242/5) بدھ متبدھ مت کے بانی مہاتما بدھتھے۔ اس مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میںہوئی۔بدھ مت کے بھکشو (تارک الدنیا) بھی ہندووں اور جینیوں کی طرح کچھ خاصدنوں میں روزے رکھتے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ (Encyclopedia Brittanica Under Fasting) بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کےنزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایکذریعہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بدھ مت میں جن دس چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے انمیں سے ایک ممنوع اوقات میں کھانا ہے۔ ان کی تعلیم یہ ہے کہ بھکشووں کو ضرور کھاناچاہیے، لیکن دن میں صرف ایک دفعہ، اس کے بعد وہ دن بھر کچھ نہ کھائیں۔ ان روزوں کےعلاوہ ان کے ہاں بھی ہندومت کی طرح نئے چاند اور پورے چاند کے دنوں میں روزہ رکھنالازم ہے۔ مزید یہ کہ وہ ہر مہینے میں بھی چار روزے رکھتے ہیں اور روزے کی حالت میںگناہوں کا اعتراف کرتے اور توبہ کرتے ہیں۔ بدھ مت میں مذہبی پیشواوں کو یہ ترغیب دیجاتی ہے کہ وہ ہر مہینے کی چودہ پندرہ اور انتیس تیس کو جزوی روزہ رکھیں، لیکنمخلصین ان دنوں میں جزوی نہیں ،بلکہ مکمل روزہ رکھتے ہیں۔تبت کے علاقے میں بدھاکے پیرووں کے ہاں چار دن کا مسلسل روزہ رکھنے کی ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ پہلےدو دنوں میں روزے کی شرائط قدرے نرم ہوتی ہیں۔ یہ دن تیاری کے ہوتے ہیں، ان میںروزہ دار بڑے اخلاص سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے اور توبہ کرتے ہیں۔ ان دنوں میںعبادت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور مذہبی کتابوں کا درس بھی ہوتا ہے۔ یہ اعمالرات گئے تک جاری رہتے ہیں۔ تیسرے دن روزہ سخت ہو جاتا ہے اور کسی کو تھوک نگلنے کیاجازت بھی نہیں ہوتی۔ عبادت اور گناہوں کا اعتراف اس روز مکمل خاموشی کی حالت میںکیا جاتا ہے۔ چوتھے دن صبح سورج طلوع ہونے تک یہ روزہ جاری رہتا ہے۔اس کے علاوہبدھا کے یوم وفات سے متصل پہلے پانچ روزے رکھے جاتے ہیں۔ یہ روزے بدھ مت کے بھکشورکھتے ہیں، لیکن عوام بھی ان روزوں میں گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یعنی وہ ایکنوعیت کے جزوی روزے رکھتے ہیں۔ ماہایانہ فرقے کے بدھوں کے ہاں یہ رواج بھی پایاجاتا ہے کہ وہ اگلے جنم میں بہتر مقام پانے کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ بدھ مت میں روزےکی ترغیب کے ساتھ اس کے بارے میں یہ تعلیم بھی دی جاتی ہے کہ روزہ اس شخص کو پاکنہیں کر سکتا جس نے اپنے نفس پر قابو نہ پایا ہو۔چینکے مذاہبہندوستان سے باہرنکل کر ہمالیہ کے اس پار چین کی طرف آئیے۔چین کے کلاسیکی مذہب (کنفیوشزم سے پہلے چین کا مذہب۔ اس میں ارواح کی عبادت کی جاتیتھی)میں ہمیں روزوں کا واضح تصور ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کنفیوشزم (چھٹی صدی قبل مسیحمیں کنفوشس سے چین میں اس مذہب کی ابتدا ہوئی) اور تاوازم (پانچویں صدی قبل مسیحمیں Lao Tzu سے اس مذہب کی ابتدا ہوئی۔ اس کا علاقہ بھی چین ہی تھا) جنھیں ہم مذہبواخلاق کے حوالے سے اصلاحی تحریکوں کا نام دے سکتے ہیں، ان میںبھی روزوں کو ایکگونہ اہمیت دی گئی ہے۔چینی کلاسیکی مذہبی رسوم میں ایک رسم چائی کہلاتی ہے۔ اسرسم میں قربانی سے پہلے روزے رکھے جاتے ہیں۔ (Encyclopedia of Religion, Under Fasting) ان کے ہاں آباو اجداد کی روحوں کو قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اس قربانی سےپہلے بھی روزے رکھنے کا رواج ہے۔ ان روزوں سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان ارواحسے بذریعہ کشف رابطہ کریں۔ اس کشف کے حصول کے لیے وہ اپنے ذہنوں کو ان ارواح کےبارے میں مختلف خیالات سے معمور کیے رکھتے ہیں۔ یہ عمل روزے کی حالت میں کیا جاتاہے۔ ان کے ہاں آباواجداد کی ارواح کی عبادت بھی کی جاتی ہے۔ چنانچہ عبادت سے پہلےتیاری کے طور پر سات دن روزے رکھے جاتے اور شب بیداری کی جاتی ہے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) اس کے علاوہ چینیوں کے ہاں ماتمی روزوں کاتصور بھی ملتا ہے۔ یہ روزے مرنے والے آدمی کے رشتے دار رکھتے ہیں۔ جتنا ان کا مرنےوالے شخص سے قریبی رشتہ ہوتا ہے، اتنا ہی روزے میں سختی کرتے ہیں۔ اس روزے میںعموماً ان کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے جو روح کو نذرانے کے طور پر پیش کیے جاتےہیں۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) جاپانی تہذیب قدیم جاپانی تہذیبمیں بھی ہمیں روزے کا تصور ملتا ہے۔ جاپان میں وفات کے موقع پر یہ رواج تھا کہ عاملوگ جزوی روزہ رکھیں گے اور سبزیوں پرمشتمل ایک بہت ہی سستی غذا کھائی جائے گی۔والدین اپنی اولاد کی وفات پر مسلسل پچاس دن یہی خوراک استعمال کرتے تھے۔ یعنیکھانے پینے کی عام چیزوں کے حوالے سے یہ پچاس دن پر پھیلے ہوئے جزوی روزے ہوتےتھے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) کوریاجاپان کے قریبی ملک کوریامیں بھی یہ رواج ہے کہ مرنے والے کے رشتہ دار ایک دن کا روزہ رکھتے ہیں، لیکن اس کےبیٹے اور پوتے تین دن کے روزے رکھتے ہیں۔ ( Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) قدیم ایرانقدیمایران میں اگرچہ روزہ عام نہیں تھا، لیکن موت کے بعد تین راتوں تک روزہ رکھا جاتاتھا۔ اس دوران میں تازہ گوشت پکایا اور کھایا نہیں جاتا تھا۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.) روسروس کے انتہائی شمالی علاقے سائیبریا میں اسکیموز کے ہاں بھی روزہ ایکخاص عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو اسکیمو نوجوان Angekok (ارواح سے تعلق قائم کرنےوالا) بننا چاہتا ہے، وہ دنیوی کاموں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور اس وقت تک روزےرکھتا ہے جب تک اسے ارواح اپنے پاس آتی ہوئی دکھائی نہ دیں۔ ( Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) آسٹریلیا کے قبائلبراعظم آسڑیلیا میں جو قبائل آباد ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک عظیمقوتوں یعنی دیوتاﺅں سے اجر حاصل کرنے کے لیے روزہ پسندیدہ عمل ہے۔ وسطی آسڑیلویقبائل میں دیوتاوں سے مدد اور پیداوار میں برکت کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting.) نیوساوتھ ویلز کے قبائلنیوساوتھویلز کے قبائل میں ”بورا“ نامی ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں نوعمر لڑکوں کوروزہ رکھوایا جاتا ہے۔ یہ روزہ دو دن پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں خوراک تو ممنوع ہوتیہے، لیکن تھوڑا بہت پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے، ان کے ہاں اس روزے کا مقصد لڑکوںکی اخلاقی اور معاشرتی تربیت ہے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) افریقی قبائلمتعدد افریقی قبائلکے ہاں بھی روزہ موجود ہے۔ یہ قبائل عموماً اموات پر روزہ رکھتے ہیں۔ یوروبا قبیلےمیں بیوہ اور اس کی بیٹی کو ایک دن رات کے لیے کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے اور انکا کھانا پینا روک دیا جاتا ہے۔ گویا انھیں جبراً روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ گولڈ کوسٹکے قبائل میں موت کے طویل عرصہ تک سخت روزے رکھے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے زولوقبیلے کے لوگ خدائی الہام پانے کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ روزے کئی کئیدنوں پر محیط ہوتے ہیں۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) رومی تہذیبرومی تہذیب کے بعضمذاہب کو Mystery Religionsمیں شمار کیا جاتا ہے، انھیں ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہےکہ دیوی دیوتاﺅں کی قربت حاصل کرنے یا ان سے دانائی پانے کے لیے روزے کا عمل بہتمعاون ثابت ہوتا ہے۔ ان مذاہب میں داخل ہونے والا جب ان کے اسرارورموز سے واقفیتحاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے۔ سیرس کی رومی مذہبی رسوممیں بھی روزے کا وجود پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں ۲۴ مارچ کو ایک روزہ رکھا جاتا اوراس سے اگلے دن ایک عظیم تہوار منایا جاتا ہے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) قدیم رومیوں میں بادشاہ اورسلاطین خود بھی روزے رکھتےتھے۔ ویسپاسین (Vespasian)، آگسٹس(Augustus)، جیولیس قیصر(Julius Casear)، نیوماپانپیپلیس (Numa Pounpiplius) ، ان سب شاہان روم کے روزوں کے دن مقرر تھے۔ Julius the apostate تو روزے کا اتنا پابند تھا کہ اس نے مذہبی پیشواوں کو بھی مات دے دیتھی۔ (Theological Dictionary By Rev. Charlus Buck, Under Fasting.) قدیم یونانقدیم یونان علم وفلسفہ کا گھر تھا۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ ایک مذہبی عمل کے طور پر پایاجاتا ہے۔ رومیوں کی طرح یونانیوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مذہب Mystry Religions میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دیوی دیوتاوں کی قربتحاصل کرنے اور ان سے بصیرت پانے کے لیے روزہ ایک اچھا معاون ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہمذہب کے اسرارورموز جاننے کے لیے تمام غذاوں یا کچھ غذاﺅں اور مشروبات سے پرہیزکرنا پڑتا ہے۔قدیم یونانیوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ قربانی سے قبل روزہرکھا کرتے۔ اسی طرح وفات پر روزے رکھنے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہعبادت اور توبہ کے لیے بھی روزے رکھتے تھے۔ اکارا کا غار جس کے اندر پائے جانے والےبخارات میں طبی فوائد پائے جاتے ہیں، اسے انھوں نے دارالاستخارہ کا نام دے رکھاتھا۔ اس کے اندر بیمار اپنے علاج کے لیے کئی دنوں تک بغیرکھائے پیے قیام کرتا۔ انکا یہ عقیدہ تھا کہ القا پانے کی اس جگہ پر روزے رکھنے سے آدمی کو الہامی مشاہداتہوتے ہیں۔ ( Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) قدیم مصری تہذیبمصر میں گناہوںسے توبہ کرنے اور خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ توبہ کے ان روزوںکے لیے باقاعدہ دن مقرر کیے گئے تھے۔ ان روزوں کے دوران میں ہر طرح کی آسایش ممنوعتھی اور خواہشات کو پورا کرنے والی چیزوں کا استعمال بھی ناجائز تھا۔مصریوں کے ہاںوفات پر روزے رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہوں کی وفات پر عوامروزہ رکھا کرتے تھے۔قربانی سے قبل روزہ رکھنے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتاتھا۔ وہ اپنی قربانی سے قبل بعض اوقات چھ چھ ہفتوں تک کے روزے رکھتے تھے۔ ( Theological Dictionary By Rev. Charlus Buck, Under Fasting) برٹش کولمبیا (شمالی امریکہ) برٹشکولمبیا (شمالی امریکہ) میں یہ رواج ہے کہ لوگ جنازے کے موقع پر ہونے والے کھانے کےبعد چار دن کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) میکسیکومیکسیکو کے باشندوں میںبھی توبہ کرنے اور قلب (باطن) کوپاک کرنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ہاں ایکدن کا روزہ بھی ہوتا اور کئی کئی دنوں کے روزے بھی ہوتے تھے۔ یہ روزے قبیلے کا کبھیکوئی ایک فرد رکھتا اور کبھی پورا قبیلہ روزہ رکھتا تھا۔ قوم پر نازل ہونے والیآفات سے بچنے کے لیے بڑا مذہبی پیشوا روزہ رکھ کر تنہائی میں لیٹ جاتا، کئی دیگرسختیاں جھیلتا اور خدا سے دعائیں کرتا رہتا۔(Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) بحرالکاہل کے جزیرےبحرالکاہل کے جنوب مغربی حصے میں کئی جزیرے پائے جاتے ہیں، جن میںنیوگنی،فیجی اور سالمن شامل ہیں۔ نیوگنی کے قبائل میں جزوی روزے رکھنے کے لیے کھانےکی متعدد اشیا سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں روزے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمیاپنی پسند کی چیزیں کچھ عرصہ کے لیے ترک کر دیتا ہے۔رورو (Roro)زبان بولنےوالے قبائل میں Seclusion Periodکے اختتام پر ایک دن کا روزہ رکھنے کا طریقہ عامرائج ہے۔فیجی (Fiji)میں دس سے بیس دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں عقابایک مقدس پرندہ مانا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کا شکار کرنے سے قبل شکاری ایک طویل عرصےتک روزے رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔ Teligintis قبیلے کے لوگ دوسرے جنم پر یقینرکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں یہ رواج ہے کہ بعض اموات پر لڑکیاں اس لیے روزے رکھتیہیں کہ یہ روح دوبارہ ان کے ذریعے سے جنم لے۔(Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) بابل اور نینوا کی تہذیببابل اور نینوا کی تہذیب قدیم تہذیبوں میں سے تھی۔ یہاں آشوری قوم آبادتھی۔ ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی۔ آشوریوں کے ہاں بھی ہمیںروزے کا رواج ملتا ہے۔ توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر افسوس و ندامت کے اظہار کے ساتھروزے کی حالت میں اپنے کھانا نہ کھانے اور پانی نہ پینے کا ذکر بھی کیا کرتا تھا۔یہ لوگ آلام و آفات کے دنوں میں بھی روزے رکھا کرتے تھے۔ (Encyclopedia of Religion and Ethics, Under Fasting) نینوا کے باشندےحضرت یونس علیہ السلام نینوا میںآشوریوں کی طرف مبعوث ہوئے۔ ان لوگوں نے پہلے ان کی تکذیب کی، لیکن بعد میں ایمانلے آئے تو اس موقع پر انھوں نے جو توبہ کی تھی، تورات میں اسے ان الفاظ میں بیانکیا گیا ہے: ”نینوا کے باشندے خدا پر ایمان لائے اور روزے کا اعلان کر کے سب کےسب، کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ ٹاٹ سے ملبوس ہوئے اور یہ بات شاہ نینوا کو بھی پہنچ گئیتو اس نے تخت سے اٹھ کر شاہی لباس اتار ڈالا، اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اورفرمان صادر کیا کہ ”بادشاہ اور ارکان دولت کے حکم سے نینوا میں یہ اعلان ہوا کہکوئی انسان یا حیوان یا گائے بیل یا بھیڑ بکری نہ کچھ چکھے نہ کھائے اور نہ پانیپیے۔ علاوہ اس کے انسان و حیوان ٹاٹ اوڑھیں اور خداوند کے حضور گریہ و زاری کریںاور ہر ایک اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے توبہ کرے۔“(کتاب یونس3: 5-9) یہودیتابراہیم علیہ السلام کی جو نسل انکے پوتے یعقوب علیہ السلام سے آگے چلی وہ بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ بنی اسرائیل میںآج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔موسیٰ علیہالسلام خدا سے ملاقات کے لیے کوہ طور پر گئے تو وہاں انھوں نے روزے رکھے۔ تورات میںموسیٰ علیہ السلام کے اس روزے کا ذکر اس طرح سے آیا ہے: ”اور موسیٰ خداوند کےپاس چالیس دن اور چالیس رات رہا۔ نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔ اور اس نے عہد کاکلام، دس احکام دو لوحوں پر لکھے۔“ (خروج 34: 2تورات میںیہودیوں پر عاشورے کے روزے کا ذکر ان الفاظ میں ہے: ”یہ تمھارے لیے ابدی فرض ہوگا کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم میں سے ہر ایک، کیا دیسی کیا پردیسی، نفسکشی کرے (روزہ رکھے) اور کوئی کام نہ کرو۔ کیونکہ اس روز تمھاری پاکیزگی کے لیےتمھارے واسطے کفارہ دیا جائے گا۔ تب تم اپنے سارے گناہوں سے خداوند کے آگے پاک ہوجاﺅ گے۔ یہ تمھارے لیے تعطیل کا سبت ہو گا۔ اس دن تم نفس کشی کرو (روزہ رکھنا) یہابدی فرض ہوگا۔“ (الاحبار 16: 29-31) یہودیوں کے ہاں یوم کفارہ کے روزے کے علاوہبہت سے دوسرے روزے بھی تھے۔ مثلاً زکریا علیہ السلام یوں فرماتے ہیں: ”اور میںنے رب الافواج کا کلمہ پایا۔ اس نے کہا کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے۔ چوتھے مہینےکا روزہ اور پانچویں کا روزہ اور ساتویں کا روزہ اور دسویں کا روزہ یہودہ کے گھرانےکے لیے خوشی اور خرمی کا موقع اور شادمانی کی عید ہو گا۔ تم فقط سچائی اور سلامتیکو عزیز جانو۔“(زکریا 8:18-19) بائیبل میں روزہ کی ترغیب ان الفاظ میں دی گئیہے۔ یوایل نبی فرماتے ہیں: ”یقینا خداوند کا دن عظیم نہایت ہول ناک ہے۔ کون اسکی برداشت کر سکے گا۔ لیکن اب بھی خداوند کا فرمان ہے روزہ رکھ کر گریہ و زاری کرتےہوئے اپنے سارے دل سے میری طرف رجوع لا اپنے کپڑوں کو نہیں،بلکہ دلوں کو چاک کر کےخداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ وہ رحیم اور مہربان ہے۔ وہ طویل الصبر اورنہایت شفیق ہے۔“ (یو ایل2: 11-13) عربوں کا دور جاہلیترسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل عرب کے ہاں بھی روزےکا واضح تصور ہمیں ملتا ہے۔ ”عربوں سے متعلق روایات میں یہ ہے کہ قریش یومعاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس دن وہ جمع ہوتے، عید مناتے اور کعبہ کو غلافپہناتے تھے۔ اس روزے کی توجیہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ قریش اپنے دور جاہلیت میںکوئی بڑا گناہ کر بیٹھے تھے۔ اس گناہ کا انھوں نے بڑا بوجھ محسوس کیا تو انھوں نےاس گناہ کا کفارہ دینے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے لیے یوم عاشورہ کا روزہمقرر کیا۔ وہ اس دن یہ روزہ اس بات پر شکرانے کے طور پر رکھتے تھے کہ خدا نے ان کواس گناہ کے نتائج بد سے بچا لیا۔ یہ بات بھی روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہوسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔عربوں میں روزے کے رواج ہی سےمتعلق ایک واقعہ یہ روایت کیا گیا ہے کہ دور اسلام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ احمسقبیلہ کی ایک عورت زینب کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات چیت نہیں کر رہیتو آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے، یہ بات کیوں نہیں کرتی ؟ لوگوں نےبتایا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے اس سے کہا کہ گفتگو کر،کیونکہ یہ جائز نہیں،یہ تو دور جاہلیت کا عمل ہے ۔ تب اس نے بات چیت شروع کر دی۔“(”المفصل فی تاریخالعرب قبل الاسلام“،”صوم“ص 338-339) عیسائیتنصاریٰ کے ہاں بھی روزے کا وجود پوری شان سے ملتا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہالسلام نے کوہ طور پر روزے رکھے۔ متیٰ کی انجیل بتاتی ہے کہ اسی طرح عیسیٰ علیہالسلام نے بھی روزہ رکھا تھا۔متیٰ میں لکھا ہے: ”اور جب وہ چالیس دن اورچالیس رات روزہ رکھ چکا، آخر کار بھوکا ہوا۔“(متیٰ4:2) عیسیٰ علیہ السلام نےروزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو یہ ہدایت دی ہے: ”اور جب تم روزہ رکھو توریاکاروں کی مانند اپنا چہرہ اداس نہ بناﺅ، کیونکہ وہ منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگانھیں روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ لیکن جب توروزہ رکھے، سر پر تیل لگا اور منہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں، بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگیمیں ہے، تجھے روزہ دارجانے اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ،تجھے بدلہ دےگا۔(متیٰ 6:16-1ایک موقع پر جب حواریایک بد روح نہ نکال سکے تو انھوں نے پوچھا: ”اس کے شاگردوں نے پوشیدگی میں اسسے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے۔ اس نے ان سے کہا کہ یہ جنس سوائے دعا اورروزہ کے کسی طرح سے نہیں نکل سکتی۔“ (مرقس9:27-2عیسیٰ علیہالسلام پر اعتراض کیا گیا کہ تمھارے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے تو اس کے جواب میںانھوں نے فرمایا: ”اور یوحنا کے شاگرد اور فریسی روزہ سے تھے۔ انھوں نے آ کر اسسے کہا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ یوحنا کے شاگرد اور فریسیوں کے شاگرد تو روزہ رکھتےہیں، لیکن تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے۔ یسوع نے ان سے کہا کہ کیا براتی جب تک کہدولہا ان کے ساتھ ہے، روزہ رکھ سکتے ہیں؟ جب تک کہ وہ دولہا کے ساتھ ہیں، وہ روزہنہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ دن آئیں گے جب دولہا ان سے جدا کیا جائے گا۔ اس وقت وہ روزہرکھیں گے۔“ (مرقس 2: 18-20) |
|