بسم الله الرحمن الرحيم
كيا رجب ميں روزہ ركھنے كى كوئى خاص فضيلت آئى ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
ماہ رجب ان حرمت والے مہينوں ميں سے ايك ہے جن كے متعلق فرمان بارى تعالى ہے:
"يقينا اللہ تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں اسى دن سے جس دن سے اس نے آسمان و زمين كو پيدا كيا ہے مہينوں كى تعداد بارہ ہيں، اور ان ميں سے چار حرمت والے ہيں، يہى درست اور صحيح دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنے جانوں پر ظلم نہ كرو "(التوبۃ: 36 ).
اور حرمت والے مہينے يہ ہيں:
رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم.
اور بخارى و مسلم رحمہم اللہ نے ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سال ميں بارہ مہينے ہيں، ان ميں سے چار حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ہيں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم، اور مضر كا رجب جو جمادى اور شعبان كے درميان ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4662 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1679)
ان مہينوں كو دو وجہوں كى بنا پر حرمت والے مہينوں كا نام ديا گيا ہے:
1 - ان مہينوں ميں دشمن سے جنگ كرنا حرام ہے، ليكن اگر دشمن خود ابتدا كرے تو جائز ہے.
2 - كيونكہ ان مہينوں ميں حرمت پامال كرنى دوسرے مہينہ كے بنسبت زيادہ شديد ہے.
اور اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں ان چار مہينوں ميں معاصى كے ارتكاب سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
"تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پر ظلم نہ كرو"(التوبۃ:36 )
حالانكہ ان مہينوں كے علاوہ باقى مہينوں ميں بھى معاصى كا ارتكاب كرنا حرام ہے، ليكن ان مہينوں ميں اس كى حرمت اور بھى زيادہ شديد ہے.
سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
"تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پر ظلم نہ كرو".
يہ احتمال ہے كہ اس كى ضمير بارہ مہينوں كى طرف جاتى ہو، اور اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ اس نے ہى بندوں كى تقدير بنائى ہے، اور يہ كہ وہ اپنى عمر اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كے انعامات كا شكر كرتے ہوئے زندگى بسر كريں، اور اسے بندوں كى مصلحتوں ميں بسر كريں، لہذا اس ميں تم اپنى جانوں پر ظلم كرنے سے اجتناب كرو.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ ضمير ان چار حرمت والے مہينوں كى طرف جاتى ہو، اور يہ ان كے ليے ان چار مہينوں ميں خصوصى طور پر ظلم كے ارتكاب كى نہى ہے، حالانكہ ہر وقت ظلم كرنے كى ممانعت ہے، اور ان چار مہينوں ميں ظلم و ستم باقى مہينوں كى بنبست زيادہ شديد ہے. انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 373 ).
دوم:
اور ماہ رجب ميں روزہ ركھنے كے متعلق گزارش يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے رجب كے مہينہ ميں خصوصيت كے ساتھ روزہ رکھنا كسى بھى صحيح حديث سے ثابت نہيں ہے.
اور بعض لوگ جو يہ اعتقاد ركھتے ہوئے ماہ رجب ميں خاص كر روزہ ركھتے ہيں كہ ان ايام ميں روزہ ركھنا افضل ہے، شريعت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى.
صرف اتنا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حرمت والے مہينوں ميں ( اور رجب بھى حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے ) روزہ ركھنے كے استحباب كى دليل ملتى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" حرمت والے مہينوں ميں روزہ ركھو بھى اور نہ بھى ركھو"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2428 )، ليكن يہ حديث ضعيف ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
لہذا اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو پھر بھى يہ حرمت والے مہينوں ميں روزہ ركھنے كے استحباب پر دلالت كرتى ہے، اور جو شخص اس بنا پر رجب ميں روزہ ركھے، اور وہ باقى حرمت والے مہينوں ميں بھى روزہ ركھتا ہو تو اس پر كوئى حرج نہيں، ليكن صرف رجب كو روزے كے ساتھ خاص كرنا صحيح نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور خاص كر رجب كے روزے ركھنے ميں سارى احاديث ضعيف ہيں
بلكہ موضوع ہيں، اہل علم ان ميں سے كسى پر بھى اعتماد نہيں كرتے يہ وہ ضعيف نہيں جو فضائل ميں بيان كى جاتى ہيں، بلكہ ان ميں سے عام احاديث موضوع كذب پر مشتمل ہيں.....
اور مسند وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرمت والے مہينوں كے روزے ركھنے كا حكم ديا ہے: اور حرمت والے مہينے يہ ہيں: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم.
تو يہ سب حرمت والے مہينوں ميں ہيں نہ كہ خاص كر رجب ميں. انتہى مختصرا
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 25 / 290 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" رجب كے روزے اور اس كى كچھ راتوں ميں قيام كے متعلق جتنى بھى احاديث بيان كى جاتى ہيں وہ سارى كى سارى كذب اور بہتان ہيں" انتہى
ماخوذ از: المنار المنيف صفحہ نمبر ( 96 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " تبيين العجب " ميں لكھتے ہيں:
" ماہ رجب اور اس ميں روزے ركھنے اور نہ ہى اس كے كسى معين دن ميں روزہ ركھنے، اور نہ ہى اس ميں كسى مخصوص رات كا قيام كرنے كى فضيلت كے متعلق كوئى صحيح حديث وارد نہيں جو قابل حجت ہو" انتہى
ديكھيں: تبيين العجب ( 11 ).
اور سيد سابق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" رجب كے روزے ركھنے ميں باقى مہينوں سے كوئى افضل نہيں، صرف اتنا ہے كہ ماہ رجب بھى حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے، اور خاص كر رجب كے مہينہ ميں روزے كى فضيلت ميں كوئى صحيح حديث نہيں ہے، اور اس سلسلے ميں جو كچھ بيان كيا جاتا ہے وہ قابل حجت نہيں ہے" انتہى
ديكھيں: فقہ السنۃ ( 1 / 383 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ستائيس رجب كے روزے اور اس رات قيام كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ستائيس رجب كا روزہ ركھنا اور ستائيس رجب كى رات قيام كرنا اور اس كى تخصيص كرنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے"
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 20 / 440 ).
واللہ اعلم . بشكريه الاسلام سوال وجواب