ماہِ رواں ماہِ رجب ہے ، اللہ تعالیٰکے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( اِنَّ الزَّمَانَ قَد استدَارَ کَھیئتِہِ یَومَخَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَ الارضَ السَّنَۃُ اثنا عَشَرَ شَھراً مِنھَااربعَۃَ حُرُمٌ ، ثَلاثٌ مُتَوالیاتٌ ، ذو القعدہ ذوالحجۃِ و المُحرَّم و رجبُ مُضرالَّذِی بین جُمادی و شَعبان ) ( سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُسدِن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سےچار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضروالا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے )صحیح البُخاری حدیث ٧٩١٣، ٢٦٦٤۔دو جہانوں کے سردار مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس حدیث میں اِسمہنیے کی فضیلت یہ بیان فرمائی کہ یہ حرمت والا میہنہ ہے یعنی اِس میں لڑائی اورقتال نہیں کرنا چاہئیے اِس کے عِلاوہ اِس ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہاللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ، بلکہ اِسمہینے میں لڑائی اور قتال سے ممانعت بھی بعد میں اللہ کر طرف سے منسوخ کر دی گئی ،سورت البقرہ / آیت ٢١٧ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے !!!! حیرانگیکی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کےباوجود اِس مہینے کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کےلیئے خاصکیا جاتا ہے !!!! جِنکو کرنے کا اِسلام میں کوئی جواز نہیں بلکہ ممعانتہے ، اِن رسموں اور عبادات کو مسلمانوں میں داخل کرنے کےلیے جھوٹی حدیثیںبنائی گئیں، تا کہ مُسلمان ان کو اپنے دِین اِسلام کا حصہ سمجھ کر اپنا لیں ، یہ تو اللہتعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر خاص کرم ہے کہ ہمیشہ اُس نے ایسےعالِم رکھے جو اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر پھیلائے جانے والے جھوٹکواُمت پر ظاہر کرتے ہیں تا کہ اُمت دھوکے کا شکار نہ ہو یہ الگ بات ہے اپنینالائقی، ضد ، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید کی وجہ سے اُمت کی اکثریت اللہ کی اِس خاصمہربانی کا فائدہ نہیں اُٹھا پاتی یہاں ہم ماہِ رجب کے بارے میں گھڑی ہوئی جھوٹیاحادیث کا مختصراً ذِکر کر رہے ہیں ،:: رجب کے بارے میں جھوٹی او کمزور حدیثیں ::::( ١) اِن فی الجنۃ نھراً یقال لہُ رجب ، ماؤہ اشد بیاضاً مِناللبنِ و احلیٰ مِن العَسلِ مَن صام یوماً مَن رجب سقاہُ اللہ مَن ذَلکَ النھر ::: جنت میں ایک دریا ہے جِس کا نام رجب ہے اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سُفید ، شہد سےزیادہ میٹھا ہے ، جو کوئی رجب کے مہینے میں ایک دِن بھی روزہ رکھے گا اُسے اللہ اِسدریا کا پانی پلائے گا ۔ حدیث باطل /سلسلہ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعہ /حدیث١٨٩٨( ٢ ) اللھُم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنارمضان ::: اللہ ہمیں ر جب و شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا دے۔ حدیث ناقابلِحُجت ،ضعیف الجامع الصغیر /٤٣٩٥(٣) رجب شھر اللہ وشعبان شھری و رمضان شھر اُمتی ::: رجب اللہ کا مہینہ ، اور شعبان میرا مہینہ، اوررمضان میری اُمت کا مہینہ ہے ۔ ضعیف الجامع الصغیر /حدیث٣٠٩٤(٤)فضل رجب علیٰ سائر الشھورِ کفضل القُرانِ علیٰ سائزالاذکار ::: تمام مہینوں پر رجب کی فضیلت اُس طرح ہے جِس طرح تمام تر اذکار پرقُران کی فضیلت ہے ۔ الفردوس بماثور الخطاب ۔(٥)مَنصلی لیلۃ سبعۃ و عشرین مِن رجب اثنتی عشرۃ رکعۃ ،، حط اللہ عنہُ ذنوبہ ستین سنۃ:::جِسنے رجب کی ستائیسویں رات میں بارہ رکعت نماز پڑھی اللہ اُسکے ساٹھ سال کے گناہمِٹا دیتا ہے۔ تنزیۃ الشریعۃ / حدیث ٤٩(٦)اِن فیرجب یوم و لیلۃ مَن صام ذلک الیوم و قام تلک اللیلۃ کان کمن صام الدھر مائۃ سنۃ وقام مائۃ سنۃ ::: بے شک رجب میں ایک دِن اور ایک رات ایسے ہیں کہ جو اُس دِن روزہرکھے گا اور اُس رات نماز پڑھے گا تو گویا اُس نے سو سال مسلسل روزے رکھے اور سوسال مسلسل رات بھر نماز پڑھی ۔ تبین العجب مما ورد فی فضل رجب /اِمام ابنحَجررجب کے بارے میں جھوٹی اور کمزور احادیث اور بھی ہیں ، اِن سب کیبُنیاد پر ، یا ، قبل از اِسلام رجب کے عِزت و توقیر کے باطل عقیدے در پردہ زندہرکھنے کے لیے جو رسمیں اور بدعات اُمت میں داخل کی گئیں اُن میں سے کُچھ وہ مندرجہذیل ہیں ،::: قربانی کرنا :::اِسلام سےپہلے عرب رجب کو بڑی عِزت، برکت و رحمت والا مانتے تھے اور اِس مہینے میں قُربانیبھی کیا کرتے تھے جِسے ''' عِتیرۃ ''' کہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاُن کے اِس عقیدے اور عمل کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا ( لا فرع ولا عَتیرۃ) ( نہکوئی فرع ہے اور نہ ہی عَتیرہ ) صحیح البخاری / کتاب العقیقہ/باب ٣ ، مشرکین عرب ہرسال میں جب اُن کے جانور پہلی دفعہ بچے دیتے تو اُس پہلی کھیپ میں سے ایک جانور وہاپنے جھوٹے معبودوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور اُس کو فرع کہا کرتے تھے::: صلاۃ الرغائب ، نمازِ رغائب :::رجب کی پہلی جمعرات کیرات ، یا درمیانی رات ، یا آخری رات میں خاص مقرر شدہ طریقے سے رغائب نامی نمازپڑھنا ، ایسا کام ہے جِسکی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں۔::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج :::پندرہ یا ستائیس رجب کیرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج والی رات سمجھنا اور اِس رات کو کِسیبھی عِبادت یا جشن یا کام کےلیے خاص کرنا ،::: رجب کے مہینےمیں خاص طور پر روزہ رکھنا :::یہ بھی ایک ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میںکوئی دلیل نہیں ملتی ، اِمام محمد بن اسحاق الفاکھی نے اپنی کتاب '' اخبار مکہ '' میں نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین ''' عُمر رضی اللہ عنہُ ایسے لوگوں کے ہاتھ پر مارا کرتے تھے جو رجب روزہ رکھتے تھے ''' اور اِمام الالبانی نے کہا کہ یہ روایت اِمام بُخاری اور اِمام مُسلم کی شرائطکے مُطابق صحیح ہے ،::: زکوۃ ادا کرنے کے لیے رجب کے مہینےکو خاص کرنا ::: یہ بھی ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ملتی ،اور اِسی طرح : عمرہ کرنے کے لیے اِس مہینے کو اِختیار کرنا بھی بلا دلیل ہے،''' رجب کے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کےکونڈے 'اب ہم آتے ہیں ایسے کام کی طرف جورجب کےمہینے میں خاص طور پر پاکستان ، ہند ، ایران ، بنگلہ دیش وغیرہ میں عِبادت اور ثوابوالا کام سمجھ کر کِیا جاتا ہے، اور اُس کی بُنیاد بھی سراسر جھوٹ ہے ،ایک جھوٹے اِفسانے ــ'' لکڑ ہارے کی کہانی '' کو بنیاد بنا کر جعفر ( صادق ) رحمہُاللہ سے مشکل کشائی کروانے کے لیئے ٢٢ رجب کو میٹھی چیز بنا کر کھائی ، کھلائی ،اور بانٹی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دِنہے لہذا اُن کی پیدائش کی خوشی میںیہ جشن کیا جاتا ہے ،اور اِسے ''' رجب کے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کے کونڈے ''' کا نام دِیا جاتا ہے ۔
::: کِسی کیپیدائش کی خوشی منانا یا کِسی کے موت کے دِن پر غمی کرنا ایسے کام ہیں جِن کا نہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کیزندگیوں میں اور نہ ہی تابعین ، تبع تابعین ائمہ کرام فقہا ، محدثین کی زندگیوں یاکتابوں میں کوئی ذِکر ملتا ہے ، یہ کام یقیناً دین میں سے نہیں ہیں ، کافروں کینقالی ہے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِشادِ گرامی ہے کہ( مَن تَشبَھَہ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُم )( جِس نے جِسقوم کی نقالی کی وہ اُسی قوم میں سے ہے ) سنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٠٢٤،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسیچیز کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسمو رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اور کِسی کا یومِپیدائش منانا مسلمانوں کی رسم نہیں ، اور اگر وہ تاریخ پیدائش جِس پر کِسی کیپیدائش کا جشن منایا جا ئے جھوٹی ہو تو پھر ''' یک نہ شُد ، دو شُد ''' ،بات ہو رہی تھی جھوٹ پر مبنی جشنِ ولادت یا سالگرہ جِسے ''' رجبکے کونڈے ''' یا ''' اِمام جعفر کے کونڈے ''' کہا جاتا ہے ، اور یہ کونڈے کرنے ،کروانے والوں میں سے شاید ایک فیصد بھی یہ نہیں جانتے کہ ، جِس سبب کو بُنیاد بناکر وہ یااپنے اِیمان کا کونڈا کر رہے ہیں وہ سب ایک تاریخی جھوٹ ہے ، جی ہاں ثوابکی نیّت سے کیے جانے والے اِس کام یعنی عِبادت کا سبب جناب جعفر صادق رحمۃُ اللہعلیہ کی پیدائش کو بنایا جاتا ہے ،جبکہ یہ تاریخی جھوٹ ہے ، اِمام ابنِکثیر علیہ رحمۃ اللہ نے '' البدایہ والنہایہ '' میں بیان کیا ہے کہ جناب جعفر صادقرحمۃُ اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش ٨ رمضان ٨٠ ہجری اور تاریخ وفات شوّال ١٤٨ ہجریہے، تو پھر یہ ٢٢ رجب کیا ہے ؟ کہاں سے ہے ؟ آئیے اِس کا جواب بھی تاریخ میںڈھونڈتے ہیںراہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ایک گروہ نے اِس رسم کو ہندو پاک کے مسلمانوں میں داخل کیا اور اِس کا سبب اُن کا صحابہ رضوان اللہ علیہم سےبُغض اور نفرت کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ،آئیے ذرا دیکھیئے تو کہ کب اور کہاںیہ بد عقیدگی اور بد عملی ہمارے معاشرے میں داخل کی گئی،:::پیر جماعت علی شاہ کے ایک مرید مصطفیٰ علی خاں نے اپنےکتابچے '' جواہر المناقب '' میں احمد حسین قادری کا بیان درج کیا ''' ٢٢ رجب کیپوریوں والی کہانی اور نیاز سب سے پہلے ١٩٠٦ء میں رامپور میں امیر مینائی لکھنوئیکے خاندان میں نکلی ، میں اُس زمانے میں امیر مینائی صاحب کے مکان کے متصل رہتاتھا،،،'''
:::مولوی مظہر علی سندیلوی اپنے ١٩١١ کےایک روزنامچے میں لکھتے ہیں ''' آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی ، جو میرے اورمیرے گھر والوں میں رائج ہوئی اور اِس سے پہلے میری جماعت میں نہیں آئی تھی ، وہ یہکہ ٢١ رجب کو بوقتِ شام میدہ شکر اور گھی دودھ ملا کر ٹکیاں پکائی جاتی ہیں اور اُنپر اِمام جعفر صادق کا فاتحہ ہوتا ہے ٢٢ کی صبح کو عزیز و اقارب کو بلا کر کھلائیجاتی ہیں یہ ٹکیاں باہر نہیں نکلنے پاتیں جہاں تک مُجھے عِلم ہوا ہے اِسکا رواج ہرمقام پر ہوتا ہے ، میری یاد میں کبھی اِسکا تذکرہ بھی سماعت میں نہیں آیا ، یہفاتحہ اب ہر ایک گھر میں بڑی عقیدت مندی سے ہوا کرتا ہے اور یہ رسم برابربڑہتی جارہی ہے '''
:::عبدالشکور لکھنوئی رحمہُ اللہ نےرسالہ ــ'' النجم '' کی اشاعت جمادی الاؤل ١٣٤٨ ھ میں لکھا ''' ایک بدعت ابھی تھوڑےدِنوں سے ہمارے اطراف میں شروع ہوئی ہے اور تین چار سال سے اِسکا رواج فیوماً بڑہتاجا رہا ہے ، یہ بدعت کونڈوں کے نام سے مشہور ہے ،،،،،،، ''' ::: اُسی دور کے شعیہعالم محمد باقر شمسی کا کہنا ہے ''' لکھنؤ کے شیعوں میں ٢٢ رجب کونڈوں کا رواج بیسپچیس سال پہلے شروع ہوا تھا ''' رسالہ النجم لکھنؤ ۔:::کہنے اور بتانے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر صاحب اِیمان کےلئیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ رسم بدعت ہے اور منافقین ، دشمنانِ صحابہ کی طرف سےمسلمانوں میں داخل کی گئی ہے ، اور اگرسالگرہ کے طور پر میں منائی جائے تو کافروںکی نقالی ہے اور حرام کام ہے ،::: کیا آپ جانتے ہیںکہآپ بھی یہ کام کرنے والوں میں سے ہیں تو یہ کونڈے بھر کر اپنےاِیمان اور عمل کا کونڈا کرتے ہیں ؟::: کیا آپ جانتےہیں کہاِس دِن آپ کو جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دھوکہدے کر منافق رافضی آپکو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی موت کے جشن میں شاملکرتے ہیں ، کیونکہ ٢٢ رجب ٦٠ ھ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہُما کی موت کا دِنہے ، جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا نہیں ،::: کیا آپ جانتے ہیں کہمعاویہ بن ابی سفیانرضی اللہ عنہما کون تھے ؟ اور اِن منافقین کو اُن پر کیوںغُصہ ہے ؟؟؟امیرالمؤمنین معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ہدایت پائے ہوئے ، ہدایت پھیلانے والے، جِنکے ہاتھ اور قلم کو اللہ نے اپنی وحی لکھنے کا شرف بخشا ، اللہ کے رسول صلیاللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ، جِنکا دورِ خلافت اسلام کے کھلے اور چُھپےہوئے دشمنوں کے لیئے بڑا ہی بھاری تھا ، اور جنہوں نے اِن منافق رافضیوں اور اِن کیشر انگیزیوں کا ناطقہ بند کئیے رکھا ، رضی اللہ عنہُ و ارضاہُ ۔::::: جی ہاں ،٢٢رجب ٦٠ھ اِس عظیم المرتبہصحابی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وفات کا دِن ہے ، منافقین کے لئیےخوشی اور جشن کا دِن ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصلخلیفہ ، امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ پر حملہ کرنے والے بد بخت ابولؤلؤ فیروز مجوسی کا جشن '' جشن باباشجاع '' کے نام پر منایا جاتا ہے ، اور آخریچہار شنبہ کے دِن کو اِس حملے کی خوشی میں عید بنا دِیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم کی صحت یابی کی کہانی میں اِس عید کی حقیقت چھپائی گئی ، اور ،،،، اور،،،،،::: مسلمانو ،اپنی اصلیت کوچھوڑ کر کافروں اور منافقوں کے ہاتھوں میں کھلونا کیوں بنتے ہو؟::: اِیمان والو ،اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کےنام پر نذر و نیاز اور چڑھاوے شرک نہیں تو اور کیا ہے ؟::: مسلمانو ،سالگرہ منانا کِس کی نقالی ہے ؟::: اِیمان والو ،کونڈے بھرنے سے پہلے ذراسوچناتو کہ، ٢٢ رجب کِس کی موت کا دِن ہے ؟اے میرے مسلمان بھائیو اور بہنوں ،کہیں سے ڈھونڈ نکالئیے ، اپنی اِسلامی حمیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنکے اہلِ بیت یعنی اُمہات المؤمنین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت جو منافقرافضیوں نے آپ کو دہوکہ دہی کا شکار بنا کر چھین لی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کوپہچاننے اور اُسے قبول کر کے اُس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔طلب گارِ دُعا ،آپ کا مسلمان بھائی ،عبد الحنان خان