قبروں کو مساجد بنانے کی حرمتاحادیث نبویہقبروں کو مساجد بنانے کی حرمت سے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ آئندہ سطور میں ملاحظہ فرما کر غور کریں کہ آج کے مسلمانوں کا عمل اپنے پیغمبر محمدا کی تعلیمات سے کس قدر دور ہوچکا ہے۔
،،عن عائشہ رضی اﷲ عنہا قالت قال رسول اﷲﷺ فی مرضہ الذی لم یقم منہ،لعن اﷲالیہود والنصاریٰ اتخذواقبور انبیاۂم مساجد قالت ولولا ذلک لابرز قبرہ غیر انہ خشی ان یتخذ مسجدا ،،۱ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ا نے مرض الموت میں ارشاد فرمایا : یہودیوں اورعیسائیوں پر اﷲ کی لعنت ہو ،جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیاتھا عائشہ رضی اﷲ عنہابیان فرماتی ہیں کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نبی اکی قبر کو بھی مسجد بنا لیا جائے گا تو نبی اکی قبر کھلی فضا میں بنائی جاتی ۔ اس حدیث میں واضح طور سے قبروں پر مساجد بنانے کو حرام اور باعثِ لعنت قرار دیا گیا ہے بعض لوگ یہاں پر سوال کرتے ہیں کہ: ،،نبی اکو عام قبرستان سے ہٹ کر گھر میں کیوں دفن کیاگیا ؟،، ۱ صحیح بخاری: کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذالمساجد علی القبور ۱؍۱۷۷ وکتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی ﷺ ۱؍۱۸۶ صحیح مسلم: کتاب المساجد باب النہی عن بناء المساجد علی القبور ،مسند احمد ۶؍۸۰ اس کا ایک جواب تو اسی حدیث میں موجود ہے کہ نبی اکی قبر پر مسجد بنانے کا خوف تھا اس واسطے نبی اکو عام قبرستان میں دفن نہیں کیا گیا ۔ دوسراجواب یہ ہے کہ اﷲ کے رسول اکی وفات کے بعد جب صحابۛ? کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعیننے آپ کی جائے تدفین سے متعلق آپس میں مشورہ کیا تو صحابۛ? کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعیننے نبی اکو اسی جگہ دفن کرنے کی رائے پیش کی جس جگہ نبی ا نماز پڑھتے تھے ،،یعنی مسجد میں،،لیکن ابو بکرص نے اس مشورہ کو شدت سے رد کرتے ہوئے فرمایا :معاذ اﷲ ! کیا ہم نبی اکی قبر کو بت یا معبد بنائیں گے جس کی عبادت کی جائے اور جس پر لوگ بندگی کے رسوم ادا کریں۔ کچھ لوگوں نے نبی اکو عام صحابۛ? کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعینکے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنے کا مشورہ دیا مگر ابوبکر صنے اسے بھی یہ کہہ کر رد کردیاکہ ہمیں یہ ہر گز گوارا نہیں کہ نبی اکی کھلی فضا میں قبر بنائی جائے اور لوگ اسے مسجد بنا لیں، اس لئے کہ عبادت ،دعا والتجا یہ صرف اﷲ کا حق ہے نیز اگر ہم ایسا کرتے ہیں ،اور نبی اکی قبر کو عبادت گاہ بنایا جاتا ہے تو پھر اس عظیم برائی کے خاتمہ کے لیے ہمیں دوسرا قدم اٹھانا ہوگا کہ جسمِ اطہر کو قبر سے نکال کر دوبارہ کسی محفوظ جگہ پر دفن کریں لیکن اس وقت اس کی جسارت کون کرے گا ؟ اس کے بعد صحابۛ? کرام رضوان اﷲعلیہم اجمعین نے ابو بکرصسے پوچھا کہ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو ابو بکر صنے جواب دیتے ہوئے یہ حدیث بیان فرمائی کہ: میں نے رسول اﷲ اکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ما قبض نبیا قط الا فی الموضع الذی یحب یدفن فیہ ۱ ہر نبی اپنی جائے وفات ہی پر دفن کیا جاتا ہے ۔ یہ سن کر صحابۛ? کرام رضون اﷲ علیہم اجمعین کہنے لگے کہ اﷲکی قسم !آپ نے تو انتہائی معقول اور عمدہ بات کہی ہے ۔اس کے بعد صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے نبی اکی چار پائی کے چاروں طرف نشان لگایا پھر چار پائی ہٹا کر وہیں قبر کھودی گئی۔ حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کی سند کو منقطع قرار دیا ہے اس لئے کہ عمر مولی غفرہ جو اس حدیث کے رواۃ میں سے ہے اس نے ابو بکرص کا زمانہ نہیں پایا ہے،نیز وہ ضعیف بھی ہے۲ (۲)،،عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اﷲٰﷺ قاتل اﷲٰالیہود اتخذواقبور انبیاۂم مساجد ۳ ابوہریرہ صسے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا : یہود کو اﷲ تعالیٰ غارت فرمائے جنہوں نے اپنے انبیا ء کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا۔ ۱ جامع ترمذی :ابواب الجنائز ۱؍۱۲۱۲ جامع کبیر للسیوطی: ۳؍۱۴۷۳ صحیح بخاری مع الفتح :کتاب ا لصلوۃ ۱؍۴۲۲،صحیح مسلم : کتاب المساجد باب النہی عن بناء المساجد علی القبور ۔ابو داؤد : ۲؍۳۴۔مسند احمد :۲؍۲۸۴۔مصنف عبد الرزاق : ۱؍۴۰۶حدیث نمبر ۵۸۹ باب الصلوۃ علی القبور ۔سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ کتاب الجنائز باب اتخاذ القبور مساجد۱؍۲۳۳ (۳)،،عن عائشۃ وابن عباس رضی اﷲٰ عنہماان رسول اﷲٰ ﷺلما حضرتہ الوفاۃ جعل یلقی علی وجھہ طرف خمیصۃ لہ فاذا اغتم کشفہا عن وجھہ وھو یقول: لعن اﷲ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاۂم مساجد ،،تقول عائشۃ یحذر ماصنعوا،،۱ عائشہ وابن عباس رضی اﷲ عنہماسے مروی ہے کہ جب اﷲ کے رسول ا کی وفات کا وقت قریب آگیا تو نبی ادرد اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے چادر کبھی چہرۂ انور پر ڈالتے اور کبھی اتار پھینکتے او راس وقت بار بار یہی جملہ ارشاد فرماتے کہ اﷲ تعالیٰ یہودیوں اور نصرانیوں پر اپنی لعنت برسائے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا ۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ محمدااپنی امت کو یہودیوں اور نصرانیوں کے اس فعل سے ڈراتے تھے۔،، علامہ حافظ ابن حجر رحمۃاﷲ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ،،گویا کہ اس وقت محمد ا کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب نبی ا کی رخصت کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ لمحاتِ زندگی کے آخری لمحات ہیں، ساتھ ہی ۱صحیح البخاری مع الفتح:کتاب الصلوۃ ۱؍۴۲۲،وکتاب ا لمغازی باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ ،وکتاب اللباس باب الاکسیۃ والخمائص، صحیح مسلم : کتاب المساجد باب النہی عن بناء المساجد علی القبور ۔ سنن نسائی مع ا لتعلیقات السلفیہ کتاب المساجد باب النہی عن اتخاذ ا لقبور مساجد ۱؍۸۲،مصنف عبدالرزاق باب ا لصلوۃ علی ا لقبور ۱؍۴۶۰حدیث نمبر ۱۵۸۸. نبی اکو یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نبی اکی قبرکے ساتھ تکریم وتعظیم کا وہ طریقہ اپنا لیاجائے جو گزشتہ انبیاء کی قبروں کے ساتھ ہوا اس واسطے سے نبی انے اپنے آخری لمحات میں شدت کے ساتھ یہود ونصاریٰ پر لعنت فرما کر اس بات کو واضح فرما دیا کہ میری امت کے جو لوگ بھی قبروں کے سلسلے میںیہود ونصاریٰ جیسا طریقہ اپنائیں گے وہ بھی لعنت اور غضب الٰہی کے مستحق ٹھہریں گے.،،۱ ،،عن عائشۃ رضی اﷲٰ تعالیٰ عنہا قالت لما کان مرض النبیﷺتذاکر بعض نساۂ کنیسۃ بارض الحبشۃ یقال لہا ماریۃ وقد کا نت ام سلمۃ وام حبیبۃ قد اتت ارض الحبشۃ فذکرن من حسنہا وتصاویرہا،قالت فرفع النبیﷺراسہ،فقال:اولٰئک اذاکان فیہم الرجل الصالح بنوعلیٰ قبرہ مسجدا ثم صورا تلک الصور اولٰئک شرارالخلق عند اﷲٰ یوم القیامۃ۔،،۲ عائشہ رضی اﷲ عنہاکابیان ہے کہ اﷲ کے نبی اکے مرض الموت کے ایام میں نبی اکی بعض ازواجِ مطہرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہن نیحبشہ کے ایک ماریہ نامی گرجا گھر کاتذکرہ کیا ،چونکہ اس سے قبل ہجرت کے سفر میں ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما حبشہ میں قیام کرچکی تھیں ،اس واسطے انہوں نے اس گرجا گھر کی خوبصورتی اور تصویروں کا تذکر ہ کیا ۔عائشہ رضی اﷲ عنہاکابیان ۱فتح الباری :۱؍۴۲۳۲ صحیح البخاری مع الفتح:کتاب الصلوۃ ،۱؍۴۲۲والجنائز باب بناء المسجد علی القبر صحیح مسلم :فی المساجد باب النہی عن بناء المساجد علی القبور ۔ سنن نسائی: التعلیقات السلفیہ کتاب المساجد باب النہی عن اتخاذ القبورمساجد ۱؍۸۲ ہے کہ یہ باتیں سن کر نبی انے اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنالیتے اور پھر اس میں صالحین اور بزرگوں کی وہ تصویریں بناتے تھے ،قیامت کے دن یہی لوگ اﷲ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہوں گے۔ علامہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ: ،،یہ حدیث بزرگوں کی قبروں پرمساجد اور ان میں تصاویر بنانے ،،جیسا کہ نصاریٰ کیا کرتے تھے ،،کی حرمت پر دال ہے اس واسطے کہ یہ دونوں صورتیں حرام ہیں اسلام میں نہ تو قبروں کو مسجد اور نہ ہی کسی ذی روح کی تصویر بنانے کی اجازت ہے ،نیز وہ گرجا گھر جس کا اس حدیث میں تذکرہ کیا گیا ہے۔اس میں تصویریں اس کی دیوار پر بنی ہوئی تھیں ان کا کو ئی سایہ نہیں تھا معلوم ہوا کہ انبیاء وصلحاء کی تصویریں بنانا اور ان کو برکت اورشفاعت کے حصول کا ذریعہ سمجھنا اسلام میں سراسر حرام ہے ایسے لوگوں کاشمار اﷲ کے نبی اکے فرمان کے مطابق قیامت کے روز بدترین لوگوں میں ہوگا ساتھ ہی بزرگوں کی یاد گاریں قائم کرنا اورتزئین وآرائش اورزیب وزینت کے طورپر کھیل تماشے وغیرہ کرنا یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں،،۱ ،،عن جندب بن عبداﷲّٰ البجلی انہ سمع النبی ﷺقبل ان یموت بخمس وھو یقول قد کان لی فیکم اخوۃ واصد قاء وانی ابرأالی اﷲٰ ان یکون لی فیکم خلیل ولو کنت متخذامن امتی لاتخذت ابا بکر خلیلا واِن اﷲٰ عزوجل قد اتخذنی کما اتخذابراھیم ۱الکوکب الدراری بحوالہ تحذیر المساجد للالبانی ص ۱۴ خلیلا ألا وان من کان قبلکم کانوایتخذ ون قبور انبیاۂم وصالحیہم مساجد ألا فلا تتخذوالقبور مساجد فانی انھاکم عن ذٰلک،،۱ جندب بن عبد اﷲبجلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اﷲکے نبی اسے نبی ا محتر م کی وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:تم میں میرے بھائی اور دوست ہیں اوراﷲکی بار گاہ میں اس بات سے برأت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں میرا کوئی خلیل ہو،کیونکہ اﷲ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے ،اگر میں اپنی امت میں کسی کو خلیل منتخب کرتا تو ابو بکر (ص) کو منتخب کرتا ۔اس حقیقت کو یاد رکھو کہ تم سے پہلے کے لوگ اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیتے تھے ،خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں اس حدیث میں خلیل سے مراد وہ دوست ہے جس کی طرف ہر وقت دل لگا رہے اور جس کی طرف انسان یکسو ہو جائے پیغمبر اعظم اکو ایسی دوستی کسی سے نہیں تھی ،کیونکہ یہ دوستی اﷲ کی دوستی میں خلل ڈالتی ہے ،نبی انے فرمایا کہ اگر ایسی دوستی میں کسی سے کرتا تو اس کے زیادہ مستحق ابو بکر صدیق ص ہیں ۔اس حدیث سے ابو بکر صدیق ص کی بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے علامہ نووی ؒ نے کہا کہ : ،،نبی ا نے اپنی قبر اور کسی کی قبر کو مسجد بنانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ کہیں لوگ قبر کی تعظیم حد سے نہ بڑھائیں جیسا کہ گزشتہ امتوں کا حال ہواتھا اور جب صحابہ وتابعین کے زمانے میں مسلمانوں کی کثرت کی بنا پر ۱صحیح مسلم مع شرح النووی کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ باب النہی عن بناء المسجد علی القبور ۲؍۹۳ مسجد نبوی ا کو وسیع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ،امہات المومنین رضی اﷲ عنہناور عائشہ رضی اﷲ عنہاکے حجرۂ مبارکہ جس میں قبریں تھیں وہاں تک مسجد آپہونچی تو ان لوگوں نے قبر کو چھپادیا اوراس کے ارد گرد اونچی اونچی دیوار اٹھادیں،تاکہ نبی اکی قبر دکھائی نہ دے اورعوام اس طرف نماز نہ پڑھیں اور کسی فتنہ و مصیبت میں نہ پڑیں۔اس کے بعد دو دیواریں دو شمالی جانب سے اٹھائی گئیں تاکہ کوئی شخص قبر کی طرف منہ نہ کرسکے،اسی واسطے دوسری حدیث میں نبی اکایہ فرمان بھی ہے کہ ۔اگر یہ ڈر نہ ہوتا تونبی ااپنی قبر کو کھلا رکھتے ۱ عن الحارث النجرانی قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بخمس وھو یقول الا وان من کان قبلکم کانوایتخذ ون قبور انبیاۂم وصالحیہم مساجد ألا فلاتتخذوالقبور مساجد انی انھاکم عن ذٰلک،،۲ حارث نجرانیص فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ اسے نبی محترم ا کی وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: خبردار!تم سے پہلی امتیں اپنے انبیاء اورصالحین کی قبروں کو مسجد یں بنا لیتی تھیں ،خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنالینا،میں تمہیں اس سے سختی کیساتھ منع کرتا ہوں ۔ ،،عن اسا مۃ بن زید ان رسول اﷲٰ ﷺقال فی مرضہ الذی مات فیہ :،،ادخلو اعلی اصحابی،،فدخلواعلیہ وھو متقنع ببردۃ معافری فکشف القناع فقال : لعن اﷲٰ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاۂم مساجد ،،۳ ۱ شرح النووی ۲؍۹۴۲مصنف ابن ابی شیبۃ :کتاب الصلوۃ باب فی الصلوۃعند قبر النبی ا۲؍۳۷۶،نیل الاوطارللشوکانی۲؍۲۲۹۳مسند احمد :۵؍۲۰۴،علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے .نیل الاوطار۔ اسامہ بن زید ص کابیان ہے کہ اﷲ کے رسول ا نے مرض الموت میں صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو اپنے پاس بلایا صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین حاضر ہوئے تو اس وقتنبی ایمنی چادر اوڑھے ہوئے تھے، نبی ا نے چادر الٹ دی اور فرمایا :یہودیوں اور عیسائیوں پر اﷲ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ ،،عن ابی عبیدۃبن الجراح قال:آخر ما تکلم بہ النبی ﷺاخرجواالیہود اہل الحجاز واہل النجران من جزیرۃ العرب واعلموا ان شرار الناس الذین اتخذ وا ۔ وفی روایۃ یتخذون قبور انبیاۂم مساجد،،۔۱ ابوعبیدہ بن جراّح ص کا بیان ہے کہ زندگی کا آخری کلام اورآخری گفتگو جو نبی ا نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ،،حجاز اور نجران کے یہودیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دو،یاد رکھو !وہ لوگ بد ترین خلائق میں سے ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنالیا ،ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بناتے ہیں یا بنائیں گے ۔ اس سے پہلی حدیث میں یہود ونصاریٰ کی تخصیص کرکے انہیں ملعون قرار دیا گیا مگر اس روایت میں ہر اس شخص کو بد ترین مخلوق قرار دیا گیا جو کہ اپنے انبیاء وبزرگوں کی قبروں کو مساجد بناتے ہیں۔ ،،عن زید بن ثابت ان رسول اﷲٰ ﷺ قال لعن ۔وفی روایۃ۔ قاتل اﷲٰ قاتل اﷲٰ الیہود اتخذوا قبور انبیاۂم مساجد،،۱ ۱ مسند ابو یعلیٰ ۱؍۵۷۔تاریخ ابن عساکر ۸؍۳۶۷،مشکل الآثار للطحاوی۴؍۳، اس حدیث کو امام ییتمی نے ۲؍۲۸میں ذکر کرنے کے بعد اس کو رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے،بحوالہ تحذیرا لمساجد ،للالبانی ص۱۷۔ زید بن ثابت صسے روایت ہے کہ رسول اﷲانے ارشاد فرمایا ،،یہود پر اﷲ تعالیٰ لعنت برسائے ،،دوسری روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہودیوں کو تباہ وبرباد کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا ۔،، ،،عن ابی ہریرۃ قال :قال رسول اﷲٰ ﷺلاتجعل قبری وثنا لعن اللہّٰ قوماً اتخذواقبورانبیاۂم مساجد ۔،،۲ ابو ہریرہ صسے روایت ہے کہ : رسول اﷲانے دعا فرمائی کہ اے اﷲ !میری قبر بت نہ بننے دینا ۔ان قوموں پر اﷲکی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ ،،عن عبد اﷲٰبن مسعود قال سمعت رسول اﷲٰ ﷺیقول ان من شرارالناس من تدرکہ الساعۃ وھو احیاء ،ومن یتخذالقبورمساجد،،۳ عبداﷲ بن مسعود صسے مروی ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا :یقیناًوہ لوگ بد ترین مخلوق ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبروں کو مساجد بنائیں گے۔ ،،عن علی بن ابی طالب قال لقینی العباس فقال انطلق بنا الی النبیﷺ فان کان لنا من الامر شیء والا اوصیٰ بنا الناس ،فدخلنا علیہ وھو مغمیٰ علیہ فرفع راسہ، فقال لعن اﷲٰ الیہود اتخذواقبور الانبیا ء مساجد ،زاد فی روایۃ ثم قالہا الثالثہ فلما رأینا مابہ خرجنا ولم نسئلہٗ عن شیء۱ ۱مسنداحمد ۵؍۱۸۴۔۱۸۶،اس حدیث کی سند پرعلامہ ناصرالدین البانی ایک طویل بحث کے بعد رقمطرازہیں کہ بہر حال یہ حدیث اپنے جملہ شواہد و روایات متقدمہ کے ساتھ مل کر صحیح ہے ۔سلسلۃ الاحادیث. ۲طبقات ابن سعد ۲؍۲۴۱۔مصنف عبدا لرزاق ۱؍۴۰۶،حدیث نمبر ۱۵۸۷ باب الصلوۃعلی القبور ۔مصنف ابن ابی شیبۃ ۲؍۳۷۵ کتاب الصلوۃ باب فی الصلوۃ عند قبر النبی ا۔ ۳صحیح ابن حبان ۳۴۰۔۳۴۱،مصنف ابن ابی شیبۃ علی بن ابی طالب صکا بیان ہے کہ عباس میرے پاس تشریف لائے اور کہا میرے ساتھ اﷲ کے نبی اکی خدمت میں چلو،ہوسکتا ہے کہ ہمیں نبی اکچھ عنایت فرمائیں یا نبی اہمارے ذریعہ لوگوں کو کچھ وصیت فرمائیں،چنانچہ ہم نبی اکی خدمت میں پہونچے تو نبی اپر غشی طاری تھی۔جب افاقہ ہو اتو نبی انے اپنا سر مبارک اٹھایا ۔اورارشاد فرمایا :اﷲ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے ،جنہوں نے انبیا ء کی قبروں کو مسجد بنالیا ۔پھر جب ہم نے نبی اکے مرض کی شدت دیکھی ،تو واپس لوٹ آئے اور کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا ۔ ،،عن امہات المومنین ان اصحاب رسول اﷲٰ ﷺکیف نبنی قبررسول اﷲٰ ﷺانجعلہ مسجدا فقال ابو بکر صدیق سمعت رسول اﷲٰ ﷺیقول : لعن اﷲٰ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاۂم مساجد،،۔۲ امہات المومنین ر ضی اﷲ عنہن سے روایت ہے کہ صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اﷲ کے نبی اکی تدفین سے متعلق باہم مشورہ کیا ہم نبی کریم ا کی قبر کس طرح بنائیں؟ کیا اسی مسجد میں بنادیں ؟ یہ سن کر ابوبکر صدیق صنے فرمایا :میں نے اﷲ کے رسول اکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : اﷲ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیا ء کی قبروں کو مسجد بنالیا ۔ ایک مرتبہ اﷲ کے رسول انے یہ دعا فرمائی تھی کہ : ۱ ابن سعد ۴؍۲۸۲ جامع کبیر للطبرانی نقلاًعن فضائل الصدیق۔لابن زنجویہ اللّٰھم لا تجعل قبری وثنا یعبد اشتد غضب اﷲٰ علیٰ قوم اتخذوا قبور انبیاۂم مساجد،،۔۱ اے اﷲ! میری قبر کو وثن (بت) معبود نہ بننے دینا کہ اس کی پوجا ہونے لگے ،اس قوم پر اﷲ تعالیٰ کا سخت غضب ہو جنہوں نے اپنے انبیا ء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا ۔،، یہ نبی اکی دعا کی قبولیت کا ہی ثمرہ ہے کہ اﷲ کے نبی اکی قبر حجرۂ مبارکہ کی تعمیر کے بعد سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔اب وہاں تک کسی کی رسائی ناممکن ہے ۔ کاش کہ موجودہ مسلمان اپنے آنے والی آفت ومصائب ،زلزلے وطوفان وقحط وفسادات کے اسباب پر بھی اس حدیث کی روشنی میں غور کرتے !* ۱ الموطا للامام مالک کتاب الصلوۃ باب جامع الصلوۃ ۔ قبروں کی زیارت کا شرعی طریقہ اسلام نے قبروں کی زیارت کا حکم دے کر مسلمانوں کے لئے عبرت کا بہت سا مان کردیا ہے۔اﷲ کے رسول انے قبروں کی زیارت کے دومقصد بیان فرمائے ہیں : (۱)دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر کرنا ۔ (۲) اہل قبور کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ۔ جس کا واضح ثبوت نبی اکے اس فرمان میں موجود ہے : ،،عن ابن مسعود ان رسول اﷲ ﷺ قال کنت نھیتکم عن زیارت القبور فزوروہا فانہا تزہد فی الدنیا و تذکر الآخرۃ ،،۱ عبدا ﷲ ابن مسعودص سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ا کا ارشاد ہے کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا ۔تم قبروں کی زیارت کرو ،کیونکہ قبروں کی زیارت کرنے سے دنیاسے بے رغبتی اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ معلوم یہ ہو ا کہ قبرستان میں جانا ، جانے والے کے لیے ایک وعظ ونصیحت ہے۔جب آدمی قبروں کو دیکھے گا ،جن میں کچھ بوسیدہ ہوں گی اورکچھ تازہ، انہیں دیکھ کر یہ محسوس کرے گا ،یہ سوچے گا کہ کل مجھے بھی یہیں آنا ہے ،اس واسطے دنیا میں مجھے دنیا میں نیک کام کرنا چاہیے ۱ابن ماجہ :کتاب الجنائز باب ماجاء فی زیارۃ القبور ص ۱۱۲ ،برائیوں سے بچنا چاہیے۔ قبروں کی زیارت کے لئے ضروری ہے کہ قبرستان میں جا کر ادب واحترام کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ ،،عن جابر قال نھی رسول اﷲٰﷺان یجصص القبر وان ان یکتب علیھا وأن توطأ،،۔۱ جابر صسے روایت ہے کہ رسول اﷲا نے قبروں کو پختہ کرنے ،ان پر لکھنے اور انہیں روندنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث میں قبروں کو پختہ بنانے، ان پر کتبہ لگانے اورانہیں پیروں سے کچلنے کی ممانعت آئی ہے لیکن افسوس کہ لوگ قبرستان جاکر قبروں کو روندتے اور کچلتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں زیارت قبور کا طریقہ ا س طرح بیان کیا گیا ہے : ،،کان رسول اﷲٰﷺ یعلمہم اذا خرجوا الیٰ المقابر السلام علیکم اہل الدیار من المومنین والمسلمین وانا ان شاء اﷲ بکم للاحقون نسأل اﷲٰلنا ولکم العافیۃ ۔،،۲ رسول اﷲ الوگوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو وہاں جاکر کہیں کہ اے گھر والو مومنواور مسلمانوں میں سے ،تم پر سلام ہو اور یقیناًاﷲ نے اگر چاہا تو ہم تم سے ملیں گے ۔ہم اﷲ تعالیٰ سے اپنے ا ور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔ ۱ صحیح مسلم :کتاب ا لجنائز جامع ترمذی مع التحفہ ۲؍۱۵۵ ۔کتاب الجنائز باب فی کراہیۃ تجصص القبور ۲صحیح مسلم : مع شرح النووی اردو ۲؍۳۷۶کتاب الجنائز ،نیل الاوطار للشوکانی ۵؍۱۴۱ اس حدیث سے مذکورہ دعا کے پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : عن ابن عباس قال مر النبی ﷺبقبور بالمدینۃ فأقبل علیہم بوجھہ فقال السلام علیکم یاہل القبور یغفر اﷲٰلنا وأنتم سلفنا ونحن بالأثر ،،۔۱ عبدا ﷲ بن عباس صنے فرمایا کہ اﷲ کے نبی اکا گزر مدینہ میں قبروں کے پاس سے ہوا نبی اان کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا السلام علیکم یاہل القبور یغفر اﷲلنا وأنتم سلفنا ونحن بالأثر اے قبر والو! اﷲ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں بخش دے اور تم ہم سے پہلے پہونچے ہو اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں زیارت قبور کے لئے یہ دعا بیان فرمائی گئی : عن عائشہ قالت کیف اقول یا رسول اﷲٰﷺتعنی زیارۃ القبور قال! قولی السلام علیٰ اہل الدیار من المومنین والمسلمین ویرحم اﷲٰ المستقدمین منا والمستاخرین وانا ان شاء اﷲٰ بکم للاحقون ،،۔،،۲ ؑ ٓعائشہص سے روایت ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے اﷲ کے رسول اسے سوال کیا کہ میں کس طرح کہوں ؟اس سوال سے میری مراد یہ تھی کہ قبروں کی زیارت کے وقت کیا کہوں؟ تو نبی انے فرمایا کہ تم اس طرح کہو،،السلام علیٰ الدیار من المومنین والمسلمین ویرحم اﷲٰ المستقدمین منا والمستاخرین وانا ان شاء اﷲٰ بکم للاحقون ،،سلام ہو گھر والوں پر مسلمانوں میں سے ،اور اﷲ تعالیٰ رحم کرے ہم سے پہلے جانے والے ۱ جامع ترمذی مع التحفہ ۲؍۱۵۶ ۔کتاب الجنائز باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر ۲صحیح مسلم : مع شرح النووی اردو ۲؍۳۷۶کتاب الجنائز والوں پر اور پیچھے ملنے اور اﷲ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں ۔ اس حدیث میں اس دعا کو بھی پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے ایک دوسرے مقام پر نبی اسے زیارتِ قبور کے وقت اس دعا کا پڑھنا بھی ثابت ہے : ،، السلام علیکم اہل الدیار من المومنین والمسلمین وانا ان شاء اﷲٰ بکم لاحقون ،انتم لنا فرط ونحن لکم تبع اسأل اﷲ العافیۃ لنا ولکم ۔،،۱ اے گھر والو! مومنوں اور مسلمانوں میں سے تم پر سلامتی ہو ! اگر اﷲ تعالیٰ کی مشیت ہوئی تو ہم تم سے ملنے والے ہیں اور تم ہمارے پیش رو ہو اور ہم تمہارے تابع ہیں، میں اپنے اور تمہارے لئے اﷲ سے عافیت مانگتاہوں ۔ مذکورہ احادیث کی روشنی میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمیں زیارت قبور کے وقت شرعی آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔قبرستان جاکر مردوں کو سلام کیا جائے ،انکے لئے مغفرت کی دعا کی جائے ،نیز قبروں کو دیکھ کر اپنے دل میں آخرت کا تصور لایا جائے۔ زیارت قبور کے نام پر مسلمانوں میں جو موجودہ رسوم پائی جاتی ہیں ان کا تعلق احادیث سے نہیں ہے او راسی کو بدعت اورگمراہی قرار دیا گیاہے اﷲ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی شرک وبد عات سے محفوظ رکھے ۔(آمین ) ! ۱ الجواب الباہر فی زوار المقابر لابن تیمیہ ص ۱۶۲ قبر کتنی اونچی ہو ؟ قبر کے اونچا رکھنے اور اس کی بلندی کے معیار کے تعلق سے نبی اکرم اکی جو واضح تعلیمات ہمارے سامنے ہیں ،وہ یہی ہیں کہ ایک یا دو بالشت سے زیادہ قبروں کو اونچا نہیں رکھنا چاہیے ۔چنانچہ جامع ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے: ،، ان علیا قال لابی الہیاج الاسدی ابعثک علیٰ ما بعثنی النبی ﷺ ان لاتدع قبرا مشرفاً الا سویتہ ولا تمثالا الا طمستہ ،،۱ علی صنے ابو الہیاج اسدی صسے فرمایا کہ:میں تمہیں اس کام پر بھیجتا ہوں جس پر رسول اﷲانے مجھے بھیجا تھا وہ یہ کہ کسی بڑی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر نہ چھوڑو ،نہ کسی مورت کو بغیر مٹائے چھوڑو ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک اسی پر عمل ہے وہ یہ کہ مکروہ سمجھتے ہیں کہ قبر کو زمین سے زیادہ اونچا کیا جائے ۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ قبر کو اتنا اونچا کریں کہ لوگ معلوم کرسکیں کہ یہ قبر ہے تاکہ لوگ اس پر چلنے اور بیٹھنے سے احتیاط کریں۔اس سے زیادہ اونچا کرنا میں مکروہ سمجھتا ہوں ۔ ملا علی قاری قبروں کو برابرکر دینے والی علی صکی روایت کردہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ۱ جامع ترمذی مع التحفہ:کتاب الجنائز باب تسویۃ القبر ۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ،۲؍۱۵۴ ،،قبر کو برابر کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ علامت اور حفاظت کو ختم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ فتنہ سے روکنے کے لئے ہے ۔،، اس لئے معمولی پتھر جس سے صرف نشانی مقصود ہو تو وہ درست ہے جیسا کہ کتاب الجنائز میں محدث عصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رقمطراز ہیں: ،،قبر کے پہچاننے اور اس کے معلوم ہونے کے لئے قبر کے سر ہانے کوئی بھاری پتھر رکھ دینا جائزاوردرست ہے۔رسول اﷲانے اسی غرض سے عثمان بن مظعون کی قبر کے سرہانے ایک بھاری پتھر رکھ دیا تھا ۱ البتہ بالشت یا دو بالشت سے اونچی قبریں بنانا مکروہ ہے، اسے ڈھا دینا چاہیے ۲ ۱رواہ ابو داؤد :کتاب الجنائز للمبارکفوری ص ۸۳ راقم الحروف نے علامہ رحمہ اﷲ کی قبر کی زیارت کی ہے ۔وہاں علامتی طور پر ایک پتھر نصب تھا ۔(مولف) ۲ تحفۃ الاحوذی :۲؍۱۵۴۔ قبر پر مسجد یا مسجد میں قبربنانا قبر پر مسجد یا مسجد میں قبر بنانا دونوں صورتیں حرام اور ناجائز ہیں،جس کا واضح ثبوت احادیثِ نبویہ اسے ملتاہے۔ ،،عن جابر قال نھیٰ رسول اﷲٰ ﷺ ان یجصص القبر وان یقعد علیہ وان یبنیٰ علیہ ،،۔۱ جابر سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ا نے قبر کو پختہ کرنے ،اس پر بیٹھنے اور اس پر کچھ تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جہاں تک قبروں پر مسجدیں بنانے کا معاملہ ہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹھیک قبر کے اوپرہی مسجد تعمیر کی جائے اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حدیث میں ٹھیک قبر کے اوپر(دو گز زمین پر) مسجد تعمیر کرنے سے روکا گیا ہے نہ کہ اس کے ارد گرد سے ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی یا کہیں بھی یہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہو ا کہ قبروں کی تعظیم میں ٹھیک اس کے اوپر دو گز زمین میں ہی مسجد بنائی گئی ہو ۔ اوریہ چیز خارج از امکان بھی ہے ۔اس واسطے نبی اکے فرمان کا یہ مطلب لینا نبی ﷺ پر ایک الزام بھی ہے کہ،، نعوذباﷲ ،نبی ا بے مطلب باتیں کہا کرتے تھے ،،۔ صحیح مسلم :کتاب الجنائز باب فی النہی عن الجلوس علی القبروالصلوۃ الیہ جامع ترمذی :کتاب الجنائز باب فی تسویۃ القبر ۔مصنف ابن ابی شیبۃ: ۴؍۱۳۴ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی چیزسے روکا جاتاہے جو عمل میں آسکتی ہو اور ممکنات میں سے ہو ،ناممکن چیز سے روکنے سے کیا حاصل؟ اور اب تک یہی چیز مشاہدہ میں آتی رہی ہے کہ لوگ قبروں کے اوپر او راس کے قریب یا قبروں کے چاروں طرف مساجد اور مشاہد بنالیا کرتے ہیں ،اور احادیث میں اسی سے روکا گیا ہے۔ چند شبہات اوران کا ازالہ اس سلسلے میں جہاں ممانعت اور حرمت کی بے شمار دلیلیں ہیں،وہیں بعض لوگوں نے کچھ شکوک اور شبہات بھی پیدا کئے ہیں اور قرآن مجید کی چند آیات کی غلط تاویل وتفسیر سے قبروں پر مسا جد بنانے کی دلیل پکڑی ہے ۔اس لئے ذیل میں ہم چند شکوک کا تذکرہ اور پھر ان کا ازالہ کر رہے ہیں تاکہ دین اسلام کی خالص شکل اور اصل چہرہ مسخ ہونے سے محفوظ رہے اور قرآنی آیات سے جو لوگ کھینچ تان کر الٹا سیدھا مفہوم نکالتے ہیں ان کا جھوٹ واضح ہوسکے اور شکوک وشبہات کے بادل چھٹ سکیں۔ ،،قال الذین غلبوا علیٰ امرہم لنتخذن علیہم مسجداً ۱ جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان (اصحابِ کہف )پر ایک مسجد تعمیر کریں گے ۔ اس آیت سے قبروں پر مساجد بنانے کی دلیل پکڑی جاتی ہے ۔وجہ استدلال یہ ہے کہ ایسا کہنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے پیر وکار تھے جس کا ذکر تفاسیر میں ملتا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شریعت میں قبروں پر مساجد بنانا جائز تھا ،اس لئے کہ قرآن میں ان کا یہ قول بلا تردید وانکار بیان گیاہے ،اور اصول یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ یا رسول اﷲ ا اگر گزشتہ امتوں کی شریعت بلا تردد وانکار بیان فرمائیں تووہ ہمارے لئے بھی درست اورجائز ہوگا ۔ جواب: اس اعتراض کے تین جواب ہیں : پہلا جواب یہ ہے کہ اصول میںیہ بات متحقق اور ثابت ہوچکی ہے کہ سابقہ امتوں کی شریعت ہمارے لئے نہیں ہے ۔اسلام کی آمد سے جملہ آسمانی کتب اور نبی اسے پہلے کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات منسوخ ہوچکی ہیں اس لئے کہ ایک مرتبہ اﷲ کے نبی اکی موجودگی میں عمر ص توریت پڑھ رہے تھے ،اسے دیکھ کر نبی اسخت غضب ناک ہوگئے تھے ۱ اور صحیحین کی ایک حدیث ہے: نبی انے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں جن میں ا یک یہ بھی ہے کہ ،،کان الانبیاء لیبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ ،،۲ ہر نبی کسی خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔،، ۱سنن دارمی بحوالۛ? مشکوۃج ۱ تفسیر ابن کثیر عربی ۱؍۳۷۸۲ صحیح بخاری :کتاب الصلوۃ باب ،۔نسائی : کتاب الغسل اس واسطے اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ کہنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے تو بھی قبر پر مسجد بنانے کے لئے استدلال درست نہیں ،کیوں کہ اسلام کی آمد سے گزشتہ تمام صحیفے اورا نبیاء کی تعلیمات منسوخ{Out Of Date}ہوچکی ہیں. دوسرا جواب یہ ہے کہ بالفرض اگرہم گزشتہ امتوں کی شریعت اپنے لئے باقی تسلیم بھی کر لیتے ہیں تو چونکہ متواتر احادیث سے قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت ثابت ہے اس لئے اس مسئلہ میں ہمارا تو موقف تو یہی ہے کہ سورۂ کہف کی یہ آیت ہمارے لئے نہیں ہے نہ ہی ہماری شریعت میں اس کی اجازت ہے ۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ سورۂ کہف کی اس آیت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اصحابِ کہف کی قبور پر تعمیرِ مساجد کے خیالات کا صرف اظہار کیا تھا اس میںیہ صراحت نہیں ہے کہ وہ مومن تھے ۔پھر اگران کا مومن ہونا مان بھی لیا جائے تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ پابندِشریعت ،موحد اور دین دار تھے۔ہوسکتا ہے کہ آج کے بدعتیوں کی طرح وہ بھی رہے ہوں۔جیسا کہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ حدیث: ،،لعن اﷲالیہود والنصاریٰ اتخذواقبور انبیاۂم مساجد،،۱ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انبیاء کی قبروں پر مسجد بنانے کی حرمت وممانعت احادیث کے علاوہ قرآن سے بھی آئی ہے۔ ۱صحیح البخاری مع الفتح:کتاب الصلوۃ ۱؍۴۲۲،و ا لمغازی باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ ،وا للباس باب الاکسیۃ والخمائص، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ : ،،قال الذین غلبوا علیٰ امرہم لنتخذن علیہم مسجدا اس آیت میں قبروں پرمساجد ومعابد تعمیر کرنے کو اہل اقتدار کا واہل غلبہ وکرسیوں کے مالک افراد کا فعل قراردیا گیاہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس قسم کے اقدام کاتعلق کسی شریعت سے نہیں تھا بلکہ صاحب اقتدار وصاحب ثروت ودولت واقتدار کے نشے میں آکر اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق ایسا کرنا چاہتے تھے ۲ پھر یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں پہلی جماعت مومنوں کی تھی جو قبروں کو عبادت گاہ بنانے کی حرمت سے واقف تھی ،اس لئے اس نے غار کے دروازے پر دیوار چن دینے اور دروازہ بند کر دینے کے ساتھ اصحاب کہف سے کوئی تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر دوسری جماعت جو امراء وروساء پر مشتمل تھی ،اس نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی دولت کے زعم میں آکر قسمیں کھا کر یہ کہنے لگی کہ ہم اصحابِ کہف کی قبروں پر ضرور مسجد تعمیر کریں گے۔ دوسراشبہ: اس سلسلے میں دوسرا اعتراض عموماً یہ کیا جاتاہے کہ نبی اکی قبر مسجدِ نبوی اکے اندر ہے ۔اگر مسجد کے اندر قبر بنانا حرام ہوتا تو نبی اکو مسجد ۱سورہ کہف : ۱ ۲۲فتح ا لباری ۶۵؍۲۸۰ من الکوکب الدراری بحوا لہ تحذیر المساجد للالبانی میں دفن نہ کیا جاتا ۔ جواب: اس اعتراض اور شبہ کا جواب یہ ہے کہ مسجدِ نبوی اکے اندر نبی اکی قبر ہمیںآج نظر آرہی ہے عہد صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعینمیںیہ چیز نہیں تھی اس لئے کہ نبی اکی وفات کے بعد صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نینبی اکوحجرۂ عائشہ رضی اﷲ عنہامیں دفن کیا تھا ،جو کہ مسجد سے متصل تھا اور مسجد اور حجرہ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی ،اس میں ایک دروازہ تھا جس کا رخ مسجد کی طرف تھا نبی ااسی دروازہ سے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ نبی اکے زمانے میں مسجدِ نبوی اکی یہی صورت تھی ،نیز حجرۛ? مبارکہ میں دفن کرنے کی حکمت ومصلحت (جیسا کہ احادیث میں اس کا تذکرہ ہوچکاتھا ) یہ تھی کہ نبی اکی قبر کو وفات کے بعد کوئی عبادت گاہ نہ بنالے ،نیز مسجدِ نبوی اکے تعلق سے جو اعتراضات اور اشکالات پیش کئے جاتے ہیں اس سلسلے میں علامہ البانی نے تحذیر الساجد میں ایک مدلل ومحقق بحث لکھی ہے جس میں انہوں نے اس صورت سے مسجدِنبوی اکو مستثنیٰ قراردیا ہے ،اور جسے ہم افادۂ عامہ کی خاطرقدرے اختصار سے شاملِ کتاب کر رہے ہیں ع گر قبول افتد زہے عزّوشرف قبر نبوی امسجدِ نبوی امیں کب شامل کی گئی عموماًیہ اعتراض کیا جاتا ہے اور قبروں پر مساجد تعمیر کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ گنبدِ خضراء تو مسجدِ نبوی اپر ہی ہے جو مسجدِ نبوی ا کے اندر ہے اور اس طرح رسول اﷲ کی قبر اطہر مسجدِ نبوی ا کے اندر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ نبوی ا میں نبی اکرم ا کی قبر کا شامل کیا جانا نبی ا کی اور جملہ صحابۛ? کرام رضوان اﷲ اجمعین کی مرضی کے سراسر خلاف ہے صحابۛ? کرام رضوان اﷲ اجمعینکی وفات کے بعد قبر نبوی ا کی یہ کیفیت ہوئی جس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا ۔ اس کی مختصر سی روداد یہ کہ ۸۸ ھ میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے مسجدِ نبوی ا کی توسیع اور تعمیر جدید کے لئے مسجد کو منہدم کرنے اور ازواجِ مطہرات کے حجروں کو اس میں شامل کرنے کا حکم دیا چنانچہ اسی وقت اس کے حکم سے حجرۂ عائشہ(جس میں نبی مدفون ہیں) کو مسجدِ نبوی ا میں شامل کردیا گیا اس طرح قبرِنبوی ا مسجد کے اندر شامل آگئی ۱ ۱تاریخ ا بن جریر ۵؍۲۲۲ ۔۲۲۳، تاریخ ابن کثیر ۹؍۷۴۔۷۵، بحوا لہ تحذیر المساجد للالبانی جس وقت نبی اکی قبر کو مسجدِ نبوی امیں شامل کیا گیا اس وقت مدینہ منورہ کے صحابۛ? کرام رضوان اﷲ اجمعینمیں کوئی بھی بقید حیات نہ تھا ۔مدینہ میں آخری صحابی جابر بن عبدا ﷲص ہیں ان کی وفات ۵۵ ھ میں ہوئی اور ولید بن عبد الملک ۸۶ ھ میں خلیفہ ہوا ،اور ۹۶ ھ میں اس کی وفات ہوئی ۔اس لحاظ سے مسجدنبوی اکی تعمیر جدید وروسیع اور حجرۂ نبوی اکو مسجدِ نبوی امیں داخل کرنے کا زمانہ ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ کاہے۔۱ بعض لوگ ولید کے اس فعل کو عثمان کی طرف منسوب کرتے ہیں جو سراسر بہتان ہے ۔جس وقت یہ معاملہ ہوا اس وقت مدینہ میں کوئی بھی صحابی باقی نہ تھاایسا کہنے والے صحابۛ? کرام رضوان اﷲ اجمعین پر سراسر بہتان لگاتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کے پاس کوئی معتبر اور معقول دلیل بھی نہیں ہے۔ پھر احادیث نبویہ ا اور سنت خلفائے راشدین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب لوگوں نے قبر اطہر کو مسجدِ نبوی امیں شامل کیا تو انہوں نے بھی تھوڑا احتیاط ملحوظ رکھا،وہ یہ کہ قبر کو مسجد میں شامل کر کے اس کے چاروں طرف ایک مدور اور بلند دیوار قائم کردی تاکہ مسجدِ نبوی ا کے اندر قبر ظاہر نہ ہو اور عوام باقاعدگی سے نماز ادا کرسکیں ،پھر بھی اس سے چونکہ یہ احتمال تھا کہ مسجد میں قبر کا ظہور اور وجود باعثِ فتنہ ۱ قبروں پر مساجد کی تعمیر اور اسلام ہے ۔اس لئے امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی تصریح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ: ،،ایسی مسجد میں نماز جائز نہیں جس کے آگے (قبلہ کی طرف) قبر ہو ،اور مسجد اور قبر کے درمیان کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو ۔،، اب غور کیجئے کہ ان مساجد میں نما ز کیسے جائز ہوسکتی ہے جن میں سامنے قبریں ہیں۔ جہاں تک مسجدِ نبوی امیں نماز کی ادائیگی کا تعلق ہے تو اس میںیقیناًدرست ہوگی ،البتہ ولید نے ایسا کرکے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔اﷲ اس کی اس غلطی کو معاف کرے! شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: ،،حجرۂ عائشہ کو جب مسجدِ نبوی امیں شامل کیا گیا تو اس کے دروازے کو بند کرکے اس کے ارد گرد ایک دیوار قائم کردی گئی تاکہ حجرۂ مبارکہ درگاہ اورقبر اطہر بت اور معبد بننے سے محفوظ رہے۔،،ا ۱ الجواب الباہرفی زوارالمقابر لابن تیمیہ قبروں پرتعمیر شدہ مساجد میں ادائیگی نماز کا حکم احادیثِ صحیحہ سے صاف طور پر اس بات کی صراحت آتی ہے کہ وہ مساجد جن کے اندر قبر ہو ،خواہ وہ قبر پر تعمیر کی گئی ہوں یا ان کے اندر بعد میں بنائی گئی ہو،ان میں نماز پڑھنا ناجائز اور ممنوع ہے ۔اس لئے کہ احادیث میں قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت ان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کو مسلتزم ہے،اوراصول بھی یہی ہے کہ وسیلہ و ذریعہ کی ممانعت وسیلہ سے مقصود شیء کی ممانعت کو مستلزم ہے،یعنی کسی چیز تک پہنچنے کے ذریعے سے دور رہنے کی ہدایت کا مطلب ومقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ چیز بذاتِ خود ممنو ع ہے ،اس سے دور رہا جائے ۔ اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ اصل مقصوداقامت نماز ہے اور مسجد کی تعمیر اقامت نماز کاایک ذریعہ ہے تو جب قبروں پر مساجد تعمیر کرناہی ممنوع اورنا جائز ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ان میں نماز کی ادائیگی بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہوگی۔ اس کی مزید تشریح اس مثال سے ہوتی ہے کہ شریعت نے شراب کی خرید وفروخت سے روکا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ شراب نوشی کی ممانعت اس میں بدرجۛ? اولیٰ داخل ہوگی ،کیونکہ خرید وفروخت تو اسی کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔نیز مساجد کی تعمیر کا مقصود اس میں نماز پڑھنا اس لئے اگر کوئی شخص ویران اور سنسان وبے آب وگیاہ اور صحرا میں مسجد تعمیر کرے جہاں پر کوئی نمازی نہ ہو تو ایسے شخص کو مسجد تعمیر کرنے کا ثواب نہیں بلکہ فضول خرچی اور اﷲ کی نعمت بے جا صرف کرنے کا گناہ ملے گاآامام شافعیؒ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ: ،،میں اس بات کو مکروہ سمجھتا ہوں کہ قبر پر مسجد تعمیر کی جائے یا قبر زمین کے بالکل برابر بنائی جائے یا ایسی قبر پر نماز پڑھی جائے جو ظاہر ہویا کسی بھی قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے اگر کوئی شخص قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر وہ شخص ایک حرام کام کا مرتکب اور گنہ گار ہوگا ۔یہ اس صورت میں ہے جب کہ نماز پڑھنے کی نیت اﷲ کے لئے رہی ہو ،اور اگر اس نماز سے صاحب قبر یا قبر کی تعظیم مقصود ہو تو یہ سراسر حرام اور کفر وشرک ہے ۔،،ا معلوم ہو ا کہ قبروں پرنماز پڑھنے کی دو صورتیں ہیں : (۱) ان مساجد میں تبرک اوربرکت کی نیت سے نماز پڑھی جائے جیسا کہ بہت سارے جاہل عوام ایسا کرتے ہیں ۔ (۲) اتفاقی طور پر کوئی شخص ان میں نماز پڑھ لے برکت اور تعظیم مقصود ۱ اکتاب الام للامام الشافعی ۱؍۴۶ ۲ نہ ہو بلکہ مجبوری پرپڑھ لے ۔ پہلی صورت میں بلا شبہ ایسی مساجد میں نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے نیز نبی ﷺکی حدیث لعنت کی روشنی میں وہ نماز باطل ہوگی ۔ البتہ دوسری صورت میں بطلان نماز کی صریح دلیل نہیں ملتی اس لئے کہ پہلی صورت میں بطلان نماز کا حکم اس نہی کی بنا پر ہے جو قبروں پر مساجد کی تعمیرکے سلسلے میں وارد ہوئی ہے ۔پھر بھی حتی الامکان احتیاط کرنا چاہیے ۔اس واسطے ہر وہ مسجد جو دیدہ ودانستہ قبر پر تعمیر کی جائے قابلِ انہدام ہوگی اور اگرمسجدپہلے سے ہے بعد میں اس میں قبر بنائی گئی تو قبر دوسری جگہ منتقل کر دیں گے ۔الغرض جو بھی چیز اس میں بنائی گئی ہو اسے منتقل کریں گے، اور اگر دونوں ایک ساتھ بنائی جائیں تو نہ تو یہ وقف صحیح ہوگا اور نہ ان میں نماز درست ہوگی ۔ شیخ الاسلام وعلامہ ابن تیمیہ سے ایک مرتبہ چند سوالات کیے گیے جن میں ایک یہ تھا: ،،وہ مسجد جس میں قبر ہوکیا اس میں نماز پڑھنا درست ہے؟،، تو موصوف نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: الحمد للہ تمام ائمہ کرام اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ قبروں پر مساجد کی تعمیر کرنا سراسر حرام ہے اس لیے کہ نبی اکا ارشاد ہے کہ تم سے پہلی امتیں انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا کرتی تھیں ۔خبر دار ! تم ایسا نہ کرنا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں ۔ نیز فرماتے ہیں کہ کسی بھی مسجد میں مردے کو دفن کرنا ہرگز درست نہیں نہ ہی ایسی مساجد میں کوئی نماز درست ہوسکتی ہے نہ فرض نہ نفل نہ سنت ،شریعت نے سختی سے اس سے روکا ہے ۔،،ا معلو م ہوا کہ شرک وبدعت کے ختم کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ایسی تمام مساجد جن میں قبر ہو نماز نہ پڑھی جائے۔ ۱ شیخ الاسلام کے اس فتویٰ کے لئے ملاحظہ فرمائیں: فتاویٰ ابن تیمیہ ۱؍۱۰۷ ۔۲؍۱۹۲،اور موصوف کی کتاب روضۂ اقدس کی زیارت ،الجواب الباہر اور زیارت القبور وغیرہ کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں مفید ہوگا۔ مزارات اور اسلام دشمن مفادات دراصل مزارات اورقبوں کی تعمیر سے جہاں اسلام اورمسلمانوں کا سخت ترین نقصان ہواہے،وہیں مشرکین او راسلام دشمن طاقتوں کا زبردست فائدہ ہوا ہے ۔وہ اس طرح کہ ایک مسلمان اگر اپنے دینِ خالص اور توحید سے دور رہ کر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے تو واضح سی بات ہے کہ ایسا شخص نہ کامل مومن ہوسکتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچا سکتاہے بلکہ اپنے شرک کی وجہ سے سامراجی قوتوں کے حوصلے بلند کرے گا جس کا اندازہ ذیل کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے جسے شیخ حسن باقوری (سابق وزیر اوقاف شام)نے قبروں کی آرائش و زیبائش اوران کے عدم جواز سے متعلق ایک فتویٰ کا جواب دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ایشیا میں سامراجی چالوں کا ذکرکرتے ہوئے مجھ سے ایک بلند پایہ مستشرق نے بیان کیا ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے جو قافلے بغداد آئے تھے اور یہ دور درازکی طویل مسافت جس راستے سے طے کرتے تھے ،نو آبادیاتی فائدہ اسی میں تھا کہ اس راستے کے بجائے ایک دوسرے نئے راستے سے آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہو،چنانچہ تبدیلۘ? راہ کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر ا س میں کامیابی نہ مل سکی ۔اخیر میںیہ چال چلی گئی کہ نئے راستے میں تھوڑی تھوڑی دوری پر چند مزارات ،جعلی قبریں او رقبے وغیرہ بنادئیے گئے ۔اس کے بعد نشر واشاعت اور پروپیگنڈے کے ذرائع نے ان مزارات کے فوائد اور ان میں مدفون اولیاء کی خوب خوب تشہیر کی ،اس طرح ان کی یہ سازش کامیاب ہوگئی اور دیکھتے دیکھتے وہ نیا راستہ آباد ہو کر شاہراہ بن گیا ۔،،ا مذکورہ واقعہ سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کی جہالت سے صیہونیت و سامراجیت نے کس قدر فائدہ اٹھایا ہے ۔ہمیں تو اب اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں زندوں سے غلو کی اجازت ہے اور نہ ہی مردوں کی بے جا تعظیم کی ،ہمارے مذہب میں تو بر تری اور فضیلت کا اصل معیار تقویٰ ہے ۔ ،،ان اکرمکم عند اﷲٰ اتقاکم ۔،،۲ صحیح بات تو یہ ہے کہ مزارات اور قبوں کی تعمیر وغیرہ مسلمانوں کو ان کے اصل دین سے دور رکھنے کی ایک سامراجی سازش ہے۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ اسلام میں اگر قبروں کو پختہ کرنے یامزارات وغیرہ تعمیر کرنے کا ذرہ برابر ثبوت ہوتا تو آج اکابر صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی قبریں گمنام نہ ہوتیں ،عظیم ترین مجاہدین ابو عبیدہ بن جراح صوغیرہ کی قبروں کی تعین میں اس قدر اختلاف کیوں ہے ؟اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس وقت صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعینکے سامنے نبی اکی واضح تعلیمات موجود تھیں ،اور اسی کا اثر تھا کہ صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین قبروں کی تعظیم اوران پر تعمیر وغیرہ سے متعلق کوئی بات وہم وگمان میں بھی نہیں رکھتے تھے ۔مگر افسوس کہ آج کے اس دور میں جہاں کہیں بھی اسلام کا تعارف کرایا جاتا ہے ۔ آئے دن یہ مشاہدات سامنے سے آتے ہیں کہ فلاں ملک کا وزیر یا صدر ہندوستان آیا اور نظام الدین اولیاء یاخواجہ معین الدین چشتی کے مزارپر حاضری دی۔فلاں مسلم وزیر نے اولیاء کے مزارات پرحاضری دینے کے لئے بغداد اور اجمیر وغیرہ کا دورہ کیا اور بھاری عطیہ حکومت کے خزانے سے دیا، نیز ٹی وی وغیرہ پر جب بھی کبھی اسلام کی بات آتی ہے ،مزارات پر فاتحہ خوانی اور قبروں پر سجدہ کرتے ہوئے منظر کو پیش کرکے مسلمانوں اور اسلام سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے اور مسلمان اتنا سادہ! کہ اسی پر پھولے نہیں سماتا ۔ جب کہ آج دنیا کی دیگر قومیں مسلمانوں کو جان بوجھ کر قبر پرستی کی لعنت میں ڈال کر خود کامیابی کی معیار کو پہنچ گئی ہیں۔ع دنیا تو گئی چاند ستاروں سے بھی آگے ہم بیٹھے مزاروں پہ دعا مانگ رہے ہیں فیا للاسف حکم سابق سے مسجد نبوی ا کااستثناء گزشتہ صفحات میں پیش کردہ آیات واحادیث سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ ہر وہ مسجد جس میں کوئی قبر ہو اس میں نماز مکروہ ہے اوراس مسئلہ پر علماء امت کا اتفاق بھی ہے ،البتہ مسجد نبوی ا اس حکم سے مستثنیٰ (الگ) ہے اسلئے کہ مسجد نبوی اکو کچھ ایسی مخصوص فضیلت وا ہمیت حاصل ہے جو دیگر ایسی مساجد کو حاصل نہیں ہے جس میں کوئی قبر ہو ۔ ابوہریرہ و عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکا ارشاد ہے : ،،صلوۃ فی مسجدی ہذا خیر من الف صلوۃ فیما سواہ الا المسجد الحرام،،ا میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے ۔،، نیز نبی اکا فرمان ہے : ما بین بیتی ومنبری روضۃمن ریاض الجنۃ ۲ اصحیح بخاری: کتاب الصلوۃ باب فضل الصلوۃ فی مسجد مکۃ والمدینہ، وصحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوۃ بمسجد مکۃ والمدینہ ،۲ صحیح بخاری و صحیح مسلم میرے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔،، بعض روایت میں بیتی (میرے گھر )کے بجائے قبری (میری قبر )کا لفظ ہے جو کہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ وہ روایت صحیح نہیں ہے بلکہ حد درجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس وقت قبر کا وجود نہیں تھا ۔ مسجدنبوی ا نہیں خصائص اور فضائل سے کی وجہ سے اس حکم عام سے کہ ،،جس مسجد میں قبر ہواس میں نماز مکروہ ہے،،مستثنیٰ ہے ۔اگر چہ اس کے اندر بھی قبر ہے ۔اس لئے کہ اگر مسجد نبوی اکے اندر بھی نماز مکروہ قرار دی جائے تو مسجد نبوی ااور دوسری مساجد کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہیں رہ جائے گا۔ اور اس کی فضیلتوں کا کلی طور پر رفع لازم آئے گا ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایک ناممکن اور غیر معقول چیز ہے ۔ یہ نکتہ ہم نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ کے اس کلام سے حاصل کیا ہے جو انہوں نے اوقات مکروہہ میں ذات السبب نماز کے جوا ز کی علت و مصلحت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ،،اوقاتِ مکروہہ میں ذات السبب نمازا س لئے جائز قراردی گئی ہے کہ ممنوع قرار دینے میں اس نماز کی مصلحت وحکمت کا ضیاع ہے،اور وقت نکلنے کے سبب اس کی تلافی بھی ناممکن ہے ۔اسی طرح ہر چند کہ مسجد نبوی ا کے اند ر قبر ہے مگر اس کے اندر نماز مکروہ نہیں بلکہ افضل ہے ،ورنہ مسجد نبوی اکی خصوصیت اور اس کے اند ر نماز پڑھنے کی جو زبر دست فضیلت وارد ہے اس کا ضیاع لازم آئے گا ،اور یہ ایک ایسا نقصان اور خسارہ ہوگا جس کی تلافی کسی صورت میں ممکن نہیں سکتی ،ظاہر سی بات ہے کہ مسجد نبوی ا میں نماز پڑھنے کی جو فضیلت ہے وہ مسجدِ نبوی امیں نماز پڑھنے سے حاصل ہو سکتی ہے ،اس واسطے اس عظیم مصلحت اورحکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ حکم سابق سے مسجدِ نبوی اکوعلیٰحدہ قرار دیا جائے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے یہ بات ،،الجواب الباہر،، کے اندر انتہائی وضاحت سے بیان کی ہے کہ: ،،ان مساجد کے اندر نماز ممنوع ہے جس میں قبر ہو ،بخلاف مسجدِ نبوی اکے ،کہ اس میں ایک نمازدوسری مساجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہے ،اور اس کو یہ حرمت وفضیلت اور اعلیٰ مقام نبی اکی حیات طیبہ میں بھی حاصل تھا،نیز خلفاء راشدین کے عہدمیں ،جب حجرۂ مبارکہ مسجدمیں داخل نہیں تھا ،حجرۂ مبارکہ کو تو مسجدِ نبوی میں صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعینکی وفات کے بعد شامل کیا گیا ہے ۔،،ا نیز فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی اکی فضیلت اس میں حجرۂ مبارکہ کو شامل کئے جانے کے پہلے ہی سے ثابت ہے ،جس کا سبب یہ ہے کہ خاتم ا الجواب الباہر فی زوار المقابر لابن تیمیہ النبین سید المرسلین انے بہ نفس نفیس اس کی تاسیس وتعمیر فرمائی تھی کہ خود نبی ا اور قیامت تک آنے والے مومنین اس میں نماز ادا فرمائیں اس لئے مسجد کی فضیلت نبی اکی نسبت سے ہے ،جس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی انے ارشاد فرمایا کہ: ،،میری اس مسجد کے اندر نماز دوسری مساجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے،، نیز فرمایا : ،،تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کا (اس نیت سے کہ اس میں نماز وعبادت کی فضیلت زیادہ ہے)سفر نہ کیا جائے ،مسجدِ حرام ،مسجد اقصیٰ اور یہ میری مسجد ،،ا اور مسجد نبوی اکی فضیلتیں تو اس میں حجرۂ مبارکہ کے داخل کئے جانے کے پہلے ہی سے ثابت ہیں ۔اس واسطے یہ خیال کرنا کہ مسجد نبوی ا،حجرۂ نبوی اکے مسجدِ نبوی امیں داخل کئے جانے کے بعد فضیلت کی حامل ہوئی ہے محض ایک خام خیالی ہے ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس وقت حجرۛ? نبو ی اکو مسجد میں داخل کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ مسجد نبوی اکی توسیع اصل مقاصد میں تھی ،نیز اس ا الجواب الباہر لابن تیمیہ ۔تحذیر المساجد للالبانی ص ۱۳۳ ،۳۴ ،۳۵،۳۶،۳۷،۳۸۔قبروں پر مساجد کی تعمیر اور اسلام ص ۱۳۶ تا ۱۴۲۔ اقدام کو بھی بعض سلف نے اسی وقت ناپسند کیا تھا ۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ : ،،جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مسجد نبوی کو جس میں نبی ا اور صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نماز پڑھتے رہے، کوئی فضیلت حاصل نہ تھی بلکہ حجرۂ نبوی کو مسجدِ نبوی امیں شامل کئے جانے کے بعد ہوئی ہے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا انتہائی جاہل ہے ،بلکہ مرتد اورقابل گردن زنی ہے، کیونکہ وہ حدیث رسول کی تکذیب کر رہا ہے۔صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعیننبی اکی حیات مبارکہ میں بھی مسجدِ نبوی امیں نماز پڑھتے تھے،دعا وعبادت کرتے تھے اوراس کی فضیلت کا اعتقاد بھی رکھتے تھے ۔نبی اکی وفات کے بعد بھی ان کا یہی عقیدہ رہا بلکہ نبی انے تو صحابۛ? کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو قبروں کو مساجد بنانے سے سختی سے منع فرمایاتھا چاہے وہ خود نبی اکی قبر ہو یا کسی اور کی۔تاکہ شرک کا سد باب اور خاتمہ ہوسکے اور توحید کاعلم بلندرہے ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب محمد اپر درود وسلام نازل فرمائے اور نبی کو اس کی امت کی طرف سے جو بدلہ دیتا ہے نبی اکو اس میں سب سے بہتر بدلہ عطا فرمائے،نبی انے اپنے رب کا پیغام پہونچادیا ،اس کی امانت ادا کردی ۔امت کی خیر خواہی کی اور اﷲکی راہ میں جہاد کا حق ادا کردیا اور اس کی عباد ت میں مشغول رہے یہانتک کہ نبی اکی وفات کا وقت آپہونچا ا ا الجواب الباہر لابن تیمیہ تحذیر المساجد للالبانی ص ۱۳۳،۳۴ ،۳۵،۳۶،۳۷،۳۸ ۔قبروں پر مساجد کی تعمیر اور اسلام ص ۱۳۶ تا ۱۴۲۔ جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو ! نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جومل جائیں صنم پتھر کے ( کلیات اقبال بانگ درا: ص ۲۰۱۔) نمبر شمار کتب حوالہ کتابمصنّف متوفیمطبع ۱القرآن الحکیم ۲صحیح البخاری محمد بن اسماعیل البخاری۲۵۶ھکتب خانہ رشیدیہ دہلی ۳صحیح مسلم مسلم بن الحجاج القشیری۲۶۱ھکتب خانہ رشیدیہ دہلی ۴جامع ا لترمذیابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی۲۷۹ھ ً ۵ سنن ابوداؤد ابو داؤد سلیمان بن الاشعث ۲۷۵ھ ۶ سنن ابوداؤد ابو عبدا لرحمن بن شعیب النسائی۳۰۳ھمکتبہ تھانوی دیو بند ۷سنن نسائی مع التعلیقات لسلفیہ تعلیق : عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی المکتبہ السلفیہ ۸سنن ابن ماجہ ابو عبدا ﷲ محمد بن یزید بن ماجہ ۲۷۳ھمطبع تھا نوی دیو بند ۹موطا امام مالک مالک بن انس الاصبحی۱۶۹ھ ۱۰ سنن بیہقی ابو بکر احمد بن حسین بن علی البیہقی۴۵۸ھ ۱۱ مسند احمد احمد بن حنبل ابو عبدا ﷲ ۲۴۱ھمطبع مصر ۱۲مصنف ابن ابی شیبۃ عبدا ﷲ بن محمد ابی شیبۃ۲۳۵ھالدار السلفیۃ ۱۳مصنف عبد ا لرزاقعبدا لرزاق بن ہمام صنعانی ۲۱۱ھالمکتبہ الاسلامی بیروت ۱۴فتح الباری احمد بن حجرالعسقلانی ۸۵۲ھاحیاء التراث العربی ۱۵تیسیر الباری علامہ وحید الزماں صاحبتاج کمپنی لمیٹیڈ کراچی ۱۶ شرح مسلم ابو زکریا یحی بن شرف النووی۶۷۶ھکتب خانہ رحیمیہ دیو بند ۱۷ تحفۃ الاحوذی ابو العلی عبدا لرحمن المبارکفوری۱۳۵۳ھضیاء السنہ ۱۸عون المعبود ابوا لطیب شمس الحق العظیم آبادی۱۳۲۹ھنشرا لسنہ ۱۹نیل الاوطار محمدبن علی بن محمد الشوکانی۱۲۵۰ھمکتبہ القاہر ہ مصر ۲۰سبل السلام محمد بن اسماعیل الصنعانی ۱۱۸۲ھدارالنشر الکتب الاسلامیہ ۲۱الاممحمد بن ادریس الشافعی۲۰۴ھمطبع امیریہ مصر ۲۲زاد المعاد ابن القیمہ محمد بن ابی بکر ۵۱ھ ۲۳طبقات ابن سعدابن سعد محمد ۲۳۰ھبیروت ۲۴جامع کبیر للسیوطی ۲۵فتاویٰ ابن تیمیہ تقی الدین احمد بن تیمیہ ۶۶۱ھ ۲۶مرقاۃ علی القاری بن سلطان ۱۰۱۴ھ ۲۷تحذیر الساجد محمد ناصر الدین البانی۱۴۳۲ھاحیاء ا راث الاسلامی ۲۸الجواب الباہر تقی الدین احمد بن تیمیہ۶۶۱ھمجلس الدعوۃ الاسلامیہ ۲۹روضۛ? اقد س کی زیارت ًًادارہ نور الایمان دہلی ۳۰زیارۃ القبور ًًالدارالسلفیہ بمبئی ۳۱کتاب الجنائز عبدا لرحمن مبارک پوری ۱۳۵۳ھمبارکپور اعظمگڑھ ۳۲قبروں پر مساجد کی تعمیر اوراسلام محفوظ الرحمن فیضیؔ جامعہ سلفیہ بنارس ۳۳قبر پرستی ایک حقیقت پسندانہ جائزہحافظ صلاح الدین یوسفدار الدعوہ السلفیہ ۳۴سرشاخ طوبیٰفضا ابن فیضی جامعہ سلفیہبنارس ۳۵کلیات اقبال علامہ اقبال ۱۹۳۱ءکمر شیل بک ڈپو حیدرآباد دکن ۳۶مسدس حالیمولان الطاف حسین حالیناز پبلشنگ ہاؤس دہلی |
|