الحمدللہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ:
أمابعدبارگاہنبوی صلي الله عليه وسلم کے احترام وتعظیم کی وجہ سے میلاد نبوی کے موضوع پر لکھنےمیں مجھے بہت تردّد رہا ,لیکن جب اس سلسلہ میں مسلمان ایک دوسرے کو کا فر بنانے لگےاور باہم لعنت کرنے لگے تو میں یہ رسالہ لکھنے کےلئے مجبور ہوگیا کہ شاید یہ اسفتنہ کی روک تھام کرسکے جو ہر سال ابھارا جاتا ہے اور جس میں کچہ مسلمان ہلاکوبرباد ہوتے ہیں ,ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ.میں نے ماہ میلاد ربیع الأول سے متعلق کچہ پہلے بی –بی سی لندن کے نشریہ سے یہ خبر سنیکہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیر ابن بازحفظہ اللہ ان لوگوں کو کافر قراردیتے ہیں جو میلا د نبوی کی محفل کریں, اس خبر نے عالمِ اسلام کو غیظ وغضب سے بھردیا,میں یہ جھوٹی اور خوفناک خبر سن کرحیرت میں پڑگیا , کیونکہ حضرت مفتی صاحب (1) کا جو قول مشہور ومعروف ہے وہ یہ ہے کہ میلاد بدعت ہے اور وہ اس سے منع فرماتے ہیں , جو شخص میلاد کی یاد گار منائے یا اس کی محفل قائم کرے وہ اس کی تکفیر نہیں کرتے ,غالباً یہ ان رافضیوں کا مکروکید ہے جو مملکت سعودیہ سے بغض وحسد رکھتے ہیں کیونکہوہاں بدعت وخرافات اور شرک وگمراہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے .بہرحال معاملہ اہم ہے اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ کے متعلق حق بات کوواضح کریں , جس سے یہ نوبت پہنچ گئی ہےکہ مسلمان باہم ایک دوسرے سے بغض رکھنے لگےہیں اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہیں , کتنے لوگ ازراہ خیرخواہی مجھ سے کہتے ہیں کہ :فلاں شخص کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سےبغض رکھتا ہوں ,کیونکہ وہ محفل مولود کا منکرہے , محھے اس کی اس بات سے تعجب ہوتاہے - (1) حضرت مفتی شیخ عبد العزیز بن بازرحمہ اللہ نے بدعت مولود کے ردذ و انکار میںکئی مضامین لکھے ہیں , لیکن کہیں بھی مولود کرنے والوں کو کا فر نہیں کہا ہے .بی –بی- سی لندن کی خبر محض جھوٹ اور افواہ ہے , جو فتنہ پھیلانے کے لئے گھڑی گئی ہے ورنہ تو مفتی صاحب کی تحریریں موجود ہیں انہیں دیکھا جا سکتا ہے . میں کہتا ہوں کہ جو شخص بدعت کا انکار کرے اوراس کو ترک کرنے کو کہے, کیا مسلمان اس کو دشمن بنا لیتے ہیں ؟ انہیں تو لازم تھا کہاس سے محبت کرتے نہ یہ کہ اس سے بغض کرتے , اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کےدرمیان اس کی اشاعت کی جاتی ہے کہ جو لوگ مولود کی بدعت کا انکار کرتے ہیں یہ وہلوگ ہیں جو رسول صلي الله عليه وسلمسے بغضرکھتے ہیںاور آپ سے محبت نہیں کرتے , حالانکہ یہ بدتریں جرم اور گناہ ہے جو کسیایسے بندہ سے کیسے ہوسکتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ؟کیونکہرسول صلي الله عليه وسلمسے بغض رکھنا یاآپ سے محبت نہ کرنا کھلا ہو کفر ہے , ایسے شخص کو اسلام سے ذرا بھی نستب باقی نہیںرہ جاتی , والعیاذ باللہ.آخر میں یہ عرض ہےکہ انہیں اسباب کی بناء پر میں نے یہ رسالہ لکھاتاکہ ایک اعتبار سے تو وہ ذمہ داری ادا ہوجائے جو حق کے واضح کرنے کی عائد ہوتی ہےاوردوسری میری یہ خواہش بھی تھی کہ ہر سال ابھرنے اوراسلام کی آزمائش میں اضافہکرنے والے اس فتنہ کی روک تھام ہو- واللہ المستعان وعلیہ التکلان ایک اہم علمی مقدمہشریعتاسلامیہ میں میلاد نبوی کا حکم معلوم کرنے کے لئے جو شخص اس رسالہ کا مطالعہ کرےمیں اسے انتہائی خیرخواہی کے ساتہ یہ کہتا ہوں کہ وہ اس مقدمہ کو بہت ہی توجہ کےساتہ کئی مرتبہ ضرور پڑھ لے ,یہاں تک کہ اس کو خوب اچھی طرح سمجہ لے , اگرچہ اس کودس مرتبہ ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے , اور اگرنہ سمجہ میں آئے تو کسی عالم سے خوب سمجہکر پڑھ لے تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے , کیونکہ اس مقدمہ کا سمجھنا صرف مسئلہ مولودکے لئے ہی نہیں مفید ہے بکہ یہ بہت سے دینی مسائل میں مفید ہے .جس میں لوگ عام طورسے اختلافات کرتے رہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا سنت , اور اگر بدعت ہے تو بدعت ضلالتہے یا بدعت حسنہ ؟میںانشاء اللہ قارئین کے سامنے تفصیل سے بیان کروں گا اور اشارات کو قریب کروں گا . اورمثالوں سے وضاحت کروں گا , اور معنی ومراد کو قریب لانے کی کوشش کروں گا , تا کہقاری اس مقدمہ کو سمجہ لے , جو پیچیدہ اختلافی مسائل کے سمجھنے کے کلید ہے کہ آیاوہ دین وسنت ہیں جو قابل عمل ہیں یا گمراہی اوربدعت ہے جس کا ترک کرنا اور جس سےدور رہنا ضروری اور واجب ہے-
اباللہ کانا م لے کر یہ کہتا ہوں کہ اے میرےمسلمان بھائی! تمہیں معلوم ہونا چاھئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول محمد صليالله عليه وسلم کو نبی بناکر مبعوث فرمایا اور ان پر لوگوں کی ہدایت اوراصلاح کےلئے اپنی کتا ب قرآن کریم نازل فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت یاب ہو کر دنیا وآخرتمیں کامیابی وسعادت حاصل کریں , جیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا [ النساء] اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارےپاس ایک صاف نور بھیجا ہے , سو جولوگ اللہ پر ایمان لائے , اور انہوں نے اللہ کومضبوط پکڑا , سو ایسوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کریں گے ,اور اپنے فضل میں , اوراپنے تک ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے.(بہت سے مفسرین کے نزدیک آیت میں "برهان "سے مراد نبی صلي الله عليه وسلمہیں , اور"نور" سے مراد قرآن کریم ہے)
اسسے معلوم ہوا کہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح جس سے روح میں کمال اور اخلاق میں حُسنوفضیلت حاصل ہو اس وحی الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسولصلي الله عليه وسلمکی سنت میں جلوہ گر ہے , کیونکہ اللہ تعالى أحکام کی وحی فرماتےہیں اور رسول صلي الله عليه وسلماس کیتبلیغ فرماتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں اور اہل ایمان اس پرعمل کرتے ہیں , اور اس طرح وہ کمال وسعادت کی نعمت سے ہم کنار ہوتےہیں –
اےمعززقاری! ہم قسم کھا کرکہتے ہیں کہ ہدایت اور اصلاح کے بعد اس راستہ کے سوا کوئیاور راستہ کمال وسعادت کے حصول کا نہیں ہے , اور وہ راستہ ہے وحی الہی پر عمل کرناجوکتاب وسنت میں موجود ہےمحترمقارئیں !اس کا رازیہ ہے کہ اللہ تعالى سارے جہاں کا رب ہے ,یعنی ان کا خالق ومربیاور ان کے تما م معا ملات کی تدبیر وانتظام کرنے والا اور انکا مالک ہے , سارے لوگاپنے وجود میں اوراپنی پیدائش میں , اپنے رزق وامداد میں اور تربیت وہدایت اوراصلاج میں دونوں جہاں کی زندگی کی تکمیل وسعادت کے لئے اس کے محتا ج محض ہیں , اللہتعالى نے تخلیق کے کچہ قوانین مقرر فرمائے ہیں , انہی قوانین کے مطابق وہ انجامپاتی ہے اور وہ قانوں ہے نر اورمادہ کے باہم اختلاط کا , اسی طرح اللہ تعالى نےمخلوق کی ہدایت اوراصلاح کا بھی قانون مقرر فرمادیا ہے اور جس طرح تخلیق کا عملبغیر اس کے قانون کے نہیں انجام پاسکتا جو لوگوں میں جاری ہے اسی طرح ہدایت اور اصلاح کا کام بھی اللہ تعالى کے قانون کے مطابق ہی انجام پاتا ہے اور وہقانون ہے ان احکام وتعلیمات پر عمل کرنا جو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول حضرت محمدصلي الله عليه وسلمکی زبان مبارک پر مشروع فرمادیا ہے ,اور ان کو اس طریقہ کے مطابقنافذ اور جاری کرنا جو طریقہ رسول صلي الله عليه وسلمنے بیان فرمایا ہے . اس سے یہبات معلوم ہوگئی کہ کوئی بھی ایسی ہدایت یا سعادت یا کمال جو اللہ تعالى کے مشروعکئے ہوئے طریق کے علاوہ کسی اور طریق سے آئے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے .
تمباطل دین والوں کو مثلاً یہودونصارى اورمجوسیوں وغیرہ کو دیکھتے ہو تو کیا یہ سبراہ ہدایت پاگئے ہیں یاکمال وسعادت سے حصہ پا چکے ہیں ؟ہرگز نہیں اور وجہ ظاہر ہےکہ یہ سب اللہ تعالى کےنازل کئے ہوئے طریقے نہیں ہیں,اسی طرح ہم ان قوانین کودیکھتے ہیں جن کو انسانوں نے عدل وانصاف کے حصول , لوگوں کے مال وجان , ان کی عزتوآبرو کی حفاظت اوران کے اخلاق کی تکمیل کے لئے بنائے ہیں ,کیا یہ قوانین جس مقصدکے لئے بنائے گئے تھے وہ مقصد حاصل ہوئے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں , کیونکہ زمین جرائماورہلاکت خیزیوں سے بھری ہوئی ہے , اسی طرح امت اسلامیہ کے اندر اہل بدعت کو دیکھتےہیں , بدعتیوں میں بھی زیادہ پست اور گھٹیا درجہ کے لوگ ہیں , نیز اسی طرح اور بھیاکثرمسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون سے ہٹ کر انسان کےبنائے ہوئے قانوں کی طرف مائل ہوئے تو ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا ,ان کا مرتبہگھٹ گیا اوروہ ذلیل ورسوا ہوگئے ,اور اس کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ وحی الہی کوچھوڑکردوسرے طریقوں پر عمل کرتے ہیں غور سے سنو اور دیکھو کہ اللہ تعالى شریعتاسلامیہ کے علاوہ ہر قانون وشریعت کی کیسی مذمت فرمارہے ہیں .ارشاد باری تعالى ہے : {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِاللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} (21) سورة الشورى]
"کیاان لوگوں نے ایسے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقررکردئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا توابھی ہی ان میں فیصلہ کردیا جاتا, یقیناًان ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے ".
اوررسول صلي الله عليه وسلمفرماتے ہیں کہ (من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فہوردّ)" جسنے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (یعنی مقبول نہیں ہے " اور فرمایا ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) (مسلم)" اور جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ رد ہے یعنی مقبول نہیںہے ". اور اس پر اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا , اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالى نےجس امر کو مشروع نہیں فرمایا ہے وہ عمل نفس کے تزکیہ وتطہیر میں مؤثر نہیں ہوسکتا ,کیونکہ وہ تطہیروتزکیہ کے اس مادہ سے خالی ہے جو اللہ تعالى نے ان اعمال میں پیدافرمایا ہے , جن کو مشروع کیا ہے اور جن کے کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے .
دیکھواللہ تعالى نے اناج, پھلوں اور گوشت کے اندر کس طرح غذائیت کا مادہ پیدا فرمادیا ہے , لہذا ان کے کھانے سے جسم کو غذا ملتی ہے جس سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے اور قوت کیحفاظت ہوتی ہے اور مٹی لکڑی اور ہڈی کو دیکھو کہ اللہ تعالی نے ان کو غذائیت کےمادہ سے خالی رکھا ہے .اسلئے یہ غذائیت نہیں پہنچا تیں ,اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہبدعت پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مٹی , ایندھن اور لکڑی سے غذائیت حاصل کرنا , اگران چیزوں کا کھانے والا غذائیت حاصل نہیں کرسکتا تو بدعت پر عمل کرنے والے کی روحبھی پاک وصاف نہیں ہوسکتی اس بناء پر ہرایسا عمل جس کے ذریعہ اللہ تعالى کے تقرب کی نیت کی جائے تاکہ شقاوت ونقصان سے نجاتو کمال اورسعادت حاصل ہو , سب سے پہلے ان اعمال میں سے ہونا چاہئے جن کو اللہ تعالىنے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلي الله عليه وسلمکی زبان پر مشروع فرمایا ہے اوردوسری بات یہ کہ وہ اسی طریقہ سے اداکیا جائے جس طریقہ سے رسول صلي الله عليه وسلمنے ادا فرمایا ہے , اس میںاس کی کمیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کی تعداد میں زیادتی ہو اور نہ کمی , اورکیفیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کے کسی جزء کو کسی جزءپر مقدم ومؤخرنہ کیا جائے ,اور وقت کی رعایت اسطرح ہو کہ وقت غیرمعینہ میں اس کو نہ کرےاورجگہ کی بھی رعایتہو کہ جس جگہ کو شریعت نے مقرر کردیا ہے اس کے علاوہ اسکو دوسری جگہ ادانہ کرے , اور کرنے والا اس سے اللہ کی اطاعت وفرمابرداری اوراس کی رضا وخوشنودی اور قرب کےحصول کی نیت کرے اسلئے کہ ان شروط میں سے کسی ایک کے نہ پائے جانے سے وہ عمل باطلہوجائے گا ,وہ شروط یہی ہیں کہ وہ عمل مشروع ہو اور اس کو اسی طریقہ سے ادا کرے جسطریقہ سے رسول صلي الله عليه وسلمنے اداکیا ہے اور اس سے صرف اللہ تعالی کی رضامندیکی نیت رکھے کہ غیر اللہ کی طرف توجہ اور التفات نہ کرے , اورجب عمل باطل ہو جائےگا تو وہ نفس کے تزکیہ اور تطہیر میں مؤثر نہیں ہو گا , بلکہ ممکن ہے کہ اس کیگندگی اور نجاست کا سبب بن جائے , مجھے مہلت دیجئے تو میں یہ حقیقت ذیل کی مثالوںسے واضح کردوں :
1-نماز :كتاب الله سے اس کی مشروعیت ثابت ہے , اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ) النساء]" پس نماز کوقاعدہ کے مطابق پڑھو ,یقیناًنمازمومنوں پرمقررہ وقتتوں پر فرض ہے"
اورسنت سے بھی ثابت ہے ,رسول صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " خمس صلوات کتبھناللہ "000 الحدیث (رواہ مالک)"پانچ نمازیںہیں اللہ نے انھیں فرض کیا ہے " اب غور کرو کہ کیا بندہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جسطرح چاہے اور جب چاہے اور جس وقت چاہے اور جس جگہ چاہے نماز پڑھ لے ؟جواب یہ ہے کہنہیں :بلكہ دوسری حیثیتوں یعنی تعداد وکیفیت اور وقت وجگہ کی رعایت بھی ضروری ہے ,لہذا اگر مغرب میں جان بوجہ کر ایک رکعت کا اضافہ کرکے چار رکعت پڑھ لے تو نمازباطل ہوجائے گی , اور فجر کی نماز میں ایک رکعت کم کرکے ایک ہی رکعت پڑھے تو وہ بھیصحیح نہیں , اور اسی طرح اگر کیفیت کی رعایت نہ کرے کہ ایک رکن کو دوسرے رکن پرمقدمکردے تو بھی صحیح نہیں , اور اسی طرح وقت اور جگہ کا بھی حال ہے کہ اگر مغرب غروبآفتاب سے پہلے پڑھ لے, یاظہر زوال سے پہلے پڑھ لے تو نماز صحیح نہ ہوگی , اسی طرحاگر مذبح یا کوڑی خانہ میں نماز پڑھےتو بھی نماز صحیح نہ ہوگی , کیونکہ اس کے لئےجیسی جگہ شرط ہے یہ ویسی جگہ نہیں ہے
2-حج: اس کی بھی مشروعیت کتاب وسنت دونوں سے ثابت ہے اللہ تعالى کا ارشاد ہے : ﴿
) آل عمران ]
"اللہ نے ان لوگوں پر جو اسکی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیاہے اور جو کوئیکفر کرے تو اللہ تعالى (اس سے بلکہ ) تما م دنیا سے بے پرواہ ہے " اور رسول صليالله عليه وسلمنے ارشاد فرمایا کہ "اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے پستم حج کرو"(رواہ مسلم)
ابیہ دیکھوکہ کیا بندہ کو یہ حق ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے حج کرلے ؟یہاں بھیجواب نہیں میں ہے , بلکہ اس کے ذمہ لازم ہے کہ چاروں حیثیتوں کی رعایت کرے ورنہ تواسکا حج صحیح نہ ہوگا ,یعنی کمیت (مقدار) کی , پس طواف اور سعی میں شوط(چکّر) کےعدد کی رعایت کرے , اگر عمداً اس میں کمی یا زیادتی کی تو وہ فاسد ہوجائگا , اورکیفیت کی رعایت کرے , چنانچہ اگر طواف احرام سے پہلے کرلیا, یا سعی طواف سے پہلےکرلی تو حج صحیح نہ ہوگا , اور وقت کی رعایت کرے ,چنانچہ اگر وقوف عرفہ 9ذی الحجہکے علاوہ کسی اوروقت ہو تو صحیح نہ ہوگا , اور جگہ اورمقام کی رعایت کرے , چنانچہاگربیت الحرام کے سوا کسی اور جگہ کا طواف کرے یا صفا ومروہ کے علاوہ کسی دوسری دوجگہوں کے درمیان سعی کرے یا عرفہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ وقوف کرے تو حج نہ ہوگا .
3-روزہ: یہ بھی عبادت مشروعہ ہے ,اللہ تعالى فرماتا ہے کہ :﴿البقرة] اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے اور رسول صلي الله عليه وسلمنے ارشادفرمایا کہ :" چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھکر افطار کرو پس اگر بدلی ہوجائےتو شعبان کو تیس دن پوراکرلو"(بخاری ومسلم)
ابکیا بندہ کویہ حق حاصل ہے جس طرح چاہے اورجب چاہے روزہ رکھے , جواب نہیں میں ہے , بلکہ چاروں حیثیتوں کی رعایت ضروری ہے , یعنی کمیت (مقدار) کی ,پس اگر انتیس یا تیسسے کم رکھے گا تو روزہ صحیح نہ ہوگا , اسی طرح اگر ایک دن یا کئی دن کا اضافہ کرےگا ,تب بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس نے مقدار اورتعداد میں خلل پیدا کردیا اور اللہتعالى کا ارشاد ہے کہ (ولتکملوا العِدّۃ)"اور تاکہ تم شمار پورا کرو" اسی طرح کیفیت کی رعایت بھی ضروری ہے , اگر اس میں بھی اس نے تقدیم وتاخیر کردی کہ رات میں روزہرہا اوردن میں افطار کیا تو یہ بھی صحیح نہیں اور زمانہ کی بھی رعایت ضروری ہے , چنانچہ اگر رمضان کے بدلہ شعبان یا شوال میں روزہ رہا تو یہ بھی صحیح نہیں, اورجگہاورمکان کی بھی رعایت ضروری ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے , جوروزہ رکھنے کی صلاحیترکھتا ہو’ لہذا اگر حائضہ یا نفاس والی عورت روزہ رکھے تو اس کا روزہ صحیح نہیںہوگا –اسی طرح تمام عبادتوں کا حال ہے کہ اسی وقت صحیح اور قبول ہوتی ہیں جب ان کے تمام شرائط کی رعایت کی جائے , اوروہشرائط یہ ہیں :
1- يہ کہ ان کی مشروعیت وحی الہی سے ہوئی ہو , کیونکہ رسول صلي الله عليه وسلمکا ارشادہے کہ ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ)( مسلم) "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جوہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " یعنی قابل قبول نہیں .
2-یہ کہ اسکو صحیح طور پر اداکرے اورچاروں حیثیات یعنی کمیت ومقدار اور کیفیت یعنی وہطریقہ جس کے مطابق وہ عبادت اداکی جائے اور زمانہ جواس کے لئے مقرر کیا گیا ہےاورجگہ جو اس کے لئے متعین کی گئی ہے اس کا لحاظ اور اسکی رعایتہو.
3- اوروہ خالص اللہ تعالى کے لئے ہو اس میں کسی اور کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ کاشریک نہ ٹھرائے ’
اےمسلمان بھائی! اس وجہ سے بدعت باطل اور گمراہی ہے ,باطل تو اسلئے ہے کہ وہ روح کوپاک نہیں کرتی , کیونکہ وہ اللہ تعالى کی مشروع کی ہوئی نہیں ہے , یعنی اس کے لئےاللہ اوررسول صلي الله عليه وسلمکا حکم نہیں ہے , اور ضلالت وگمراہی اس لئے ہے کہبدعت نے بدعتی کو حق سے جھٹکا دیا اور اس شرعی عمل سے اس کو دور کردیا جو اس کے نفسکا تزکیہ کرتا اورجس پر اس کا پروردگار اس کو جزاوثواب عطا کرتا .تنبیہ: برادر مسلم !آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو عبادت کتاب وسنت سے مشروع ہے یعنی جس کےلئے اللہ ورسول کا حکم ہے کبھی کبھی اس میں بدعت خواہ اس کی کمیت میں یا اس کیکیفیت یا زمان ومکان مین داخل ہوجاتی ہے , اوروہ اس عبادت کرنے والے کے عمل کو غارتکردیتی ہے اوراس کو ثواب سے محروم کردیتی ہے ,یہاں پر ہم آپ کے سامنے ایک مثالپیشکرتے ہیں " ذکراللہ " اللہ کے ذکرکی یہ ایک عبادت ہے جوکتاب وسنت سے مشروع ہے, اللہتعالى کا ارشاد ہے ( یآأیہا اللذین آمنوا أذکرواللہ کثیرا) "اے ایمان والو!اللہ کاکثرت سے ذکر کرو" اور رسولصلي الله عليه وسلمنے ارشاد فرمایا کہ " اس شخص کی مثالجو رب کا ذکر کرتا ہے اور جوذکر نہیں کرتا,زندہ اورمردہ کی مثال ہے "(بخاری)( (1) اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں "اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے , اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا , زندہ اور مردہ کیمثال ہے .)
اوراس کی مشروعیت کے باوجود بہت سے لوگوں کےیہاں اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے , اور اسبدعت نے ان کے ذکر کو تباہ کردیا اوران کو اسکے ثمرہ اور فائدہ یعنی تزکیہ نفس , صفائے روح اور اس پر چلنے والے اجروثواب اورخوشنودی الہی سے ان کو محروم کردیا , کیونکہ بعض لوگ غیر مشروع الفاظ سے ذکر کیا کرتے ہیں مثلاً "اسم مفرد" اللہ,اللہ , اللہ,یاضمیر غائب مذکر ھو ,ھو ,ھو سے ذکر کرنا , اور بعض لوگ دسیوں مرتبہ حرف نداءکے ساتہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں , اوراس سے کچہ سوال ودعا نہیں کرتے , اس طرح جیسے یالطیف ,یا لطیف ,یالطیف اور بعض آلات طرب کے ساتہ ذکر کرتے ہیں ,اور بعض لوگ الفاظمشروعہ مثلاً " لاإلہ إلا اللہ " کے ساتہ ہی ذکرکرتے ہیں لیکن جماعت بناکر ایک آوازکرتے ہیں یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کو شارع نے نہ خودکیاہے, نہ اسکے کرنے کا حکمدیا ہے,
اورنہ اسکی اجازت دی ہے, ذکر تو ایک فضیلت والیعبادت ہے
لیکن اس کی کمیت اور کیفیت اورہیئت وشکل میں جوبدعت داخل ہوگئی اس کی وجہ سے اس کا کرنے والا اس کے اجروثواب سے محروم ہوگیا ,
ابآخر میں معززقارئین کے سامنے اس مفید مقدمہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے عرض کررہا ہوںکہ :بندہ جس عمل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تاکہدنیا میں فضائل نفس کی تکمیل اور اپنے معاملہ کی درستگی کرلینے کے بعد آخرت میںاللہ کے عذاب سے نجات پائے اور اس کے قرب میں دائمی نعمت سے سرفراز ہو, وہ عملاورعبادت وہی ہوسکتی ہے جو مشروع ہو , اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں جس کا حکمفرمایا ہو, یا اپنے رسول صلي الله عليه وسلمکی زبانی جس کی ترغیب دی ہو اور یہ کہمومن اس کو صحیح طریقہ سے ادا کرے اور چاروں حیثیات یعنی کمیت و کیفیت اور زمان ومکان کی رعایت کرے اور ساتہہی اس میں اللہ تعالى کے لئے اخلاص بھی ہو, پس اگر عبادت کی مشروعیت وحی الہی سےثابت نہیں ہے تو وہ بدعت اور ضلالت ہے, اور اگر مشروع ہے لیکن اس کی ادائیگی میںخلل اور رخنہ ہے کیونکہ اس میں اس کی چاروں حیثیات کی رعایت نہیں ہے یا اس میں بدعتداخل ہوگئی ہے تو بھی وہ قربت فاسدہ اور عبادت فاسدہ ہے ,اور اگر اس میں شرک کیآمیزش ہوگئی تو پھر وہ غارت ہوجانے والی اوربالکل باطل عبادت ہے جس سے نہ کوئی راحتپہنچ سکتی ہے, اور نہ وہ کوئی بلا اور مصیبت دور کرسکتی ہے, والعیاذ باللہ