میلاد نبوی اسلام کی نظرمیں میلاد کی تعریف: عربی زبان میں میلاد نبوی شریف اس جگہ یا اس زمانہ کو کہتے ہیں جس میں خاتم الأنبیاء ,امام المرسلین, حضرت محمد صلي الله عليه وسلمپیدا ہوئے پس آپ کی جائے پیدائش (فداہ ابی وامی ) ابو یوسف کا وہ گھرہےجہاں پر آج مکہ مکرمہ میں پبلک لائبریری بن گئی ہے , اورآپ کا زمانہ پیدائش ,مشہورترین اورصحیح ترین روایت کی بناء پر 12ربیع الأول عام الفیل مطابق اگست 570 ءھے . لغت کے لحاظ سے لفظ "مولد شریف" کا یہی مطلب ہے اوریہی معنی ہے جس کو مسلمان نزول وحی کے زمانہ سے لے کر سوا چہ صدی تک ,یعنی ساتویں صدی کی ابتداء تک جانتے رہے پھر خلافت راشدہ اسلامیہ کے سقوط اورممالک اسلامیہ کی تقسیم کے بعد اورعقائد وسلوک میں ضعف اورانحراف اورحکومت وانتظامیہ میں فساد کے ظہورکے بعد مولود شریف کی یہ بدعت ضعف و انحراف کا ایک مظہر بن کر ظاہر ہوئی , اس بدعت کو سب سے پہلے ملک شام کے علاقہ اربل (صحیح یہ ہے کہ اربل موصل کا علاقہ ہے ) کے بادشاہ ملک مظفرنے ایجاد کیا , غفراللہ لنا ولہ , اورمولد کےموضوع پر سب سے پہلی تالیف ابو الخطاب بن دحیہ کی ہے , جس کا نام "التنویر فی مولد البشیرالنذیر" ہے جس کو انہوں نے ملک مظفر کے سامنے پیش کیا اوراس نے انہیں ایک ہزار اشرفیاں انعام دیں. اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ امام سیوطی نے اپنی کتاب "حاوی " میں ذکرکیاہے کہ ملک مظفر جو اس بدعت مولود کا موجد ہے , اس نے اسی طرح کی محفل مولود کے ایک موقع پر دسترخوان لگوایا , جس پر پانچ ہزار بُھنی ہوئی بکریاں اوردس ہزار مرغیاں اورسوگھوڑےاورایک لاکہ مکھن اورحلوہ کی تیس ھزار پلیٹیں تھیں , اورصوفیاءکے لئے محفل سماع قائم کی جو ظہرسے لے کر فجر کے وقت تک جاری رہی اوراس میں رقص کرنے والوں کے ساتھ وہ خود بھی رقص کرتا رہا, بھلا وہ امت کیسے زندہ رہ سکتی ہے جس کے سلاطین درویش ہوں ,اوراس طرح کی غلط محفلوں میں ناچتے ہوں , إناللہ و'نا إلیہ راجعون. اگریہ کہا جائے کہ اگریہ میلاد بدعت ہے تو کیا اس کے کرنے والے کو ان نیک اعمال کا بھی ثواب نہ ملے گا جو اس کے اندرہوتے ہیں یعنی ذکر ودعا اورکھانا کھلانے کا ؟ ہم عرض کریں گے کہ کیا ناوقت نماز پڑھنے پر ثواب ملے گا ؟ کیا بےموقع صدقہ کرنے میں ثواب ملے گا ؟ کیا نا وقت حج کرنے میں ثواب ملےگا ؟ کیا غیر کعبہ کے طواف میں ثواب ملےگا؟ کیا غیر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں ثواب ملےگا ؟ اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو ان نیک اعمال کے متعلق بھی جو محفل میلاد کے ساتھ کئے جاتے ہیں یہی جواب ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ بدعت لگی ہوئی ہے . اس لئے کہ اگر وہ صحیح ہوجائے اورمقبول ہوجائے تو پھر احداث فی الدین ممکن ہوجائے گا , حالانکہ یہ رسول صلي الله عليه وسلمکے اس ارشاد گرامی سے مردود ہے , آپ نے فرمایا " جسنے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے". محفل میلاد کے ثابت کرنے کیلئے جو دلیلیں بیان کی جاتی ہیں وہ غیرکا فی ہیں میلاد منعقد کرنے والے جو پانچ دلیلیں دیتے ہیں , ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شریعت کو چھوڑ کر اتباع نفس کارفرما ہے ,دلیلیں درج ذیل ہیں :- 1- سا لانہ یاد گار ہونا, جس میں مسلمان اپنے نبی صلي الله عليه وسلمکی یادگار مناتےہیں , جس سے نبی کریم صلي الله عليه وسلمکے ساتھ ان کی عظمت اورمحبت میں اضافہ ہوتا ہے 2-بعض شمائل محمدیہ کا سننا اورنسب نبوی شریف کی معرفت حاصل کرنا – 3-رسول صلي الله عليه وسلمکی پیدائش پر اظہار خوشی ,کیونکہ یہ محبت رسول اورکمال ایمان کی دلیل ہے 0 4-کھانا کھلانا اوراسکا حکم ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے خصوصاً جب اللہ تعالى کا شکراداکرنے کی نیت سے ہو. 5- اللہ تعالی کا ذکر یعنی قرأت قرآن اورنبی کریم صلي الله عليه وسلمپر درود شریف کے لئے جمع ہونا . یہ وہ پانچ دلیلیں ہیں , جنہیں میلاد کو جائز کہنے والے بعض حضرات پیش کرتے ہیں , اورجیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ دلیلیں بالکل ناکافی ہیں اورباطل بھی ہیں , کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی چوک ہوگئی تھی جس کی تلافی اس طرح کی گئی ہے کہ ان چیزوں کو ان لوگوں نے مشروع کردیا , جن کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود ضرورت کے مشروع نہیں کیا تھا , اوراب قاری کے سامنے یکے بعد دیگرے ان دلیلوں کا بطلان پیش ہے . 1- پہلی دلیل, اس وقت دليل بن سكتی ہے , جبکہ مسلمان ایسا ہو کہ وہ نبی اکرم صلي الله عليه وسلمکا ذکر دن بھرمیں دسیوں مرتبہ نہ کیا کرتا ہو تو اس کے لئے سالانہ یا ماہانہ یادگاری محفلیں قائم کی جائیں , جس میں وہ اپنے نبی کا ذکرکرے تاکہ اس کے ایمان ومحبت میں زیادتی ہو , لیکن مسلمان تو رات اوردن میں جو نماز بھی پڑھتا ہے اس میں اپنے رسول کا ذکرکرتا ہے , اوران پر درود وسلام بھیجتا ہے اورجب بھی کسی نماز کا وقت ہوتا ہے , اورجب بھی نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو اس میں رسول صلي الله عليه وسلمکا ذکر اورآپ پر درود سلام ہوتا ہے , بھول جانے کے اندیشہ سے تو اسکی یاد گار قائم کی جاتی ہے جسکا ذکر ہی نہ ہوتا ہو , لیکن جس کا ذکر ہی ذکرہوتا ہو جوبھلایا نہ جاسکتا ہو , بھلا اس کے نہ بھولنے کے لئے کس طرح کی محفل منعقد کی جائےگی , کیا یہ تحصیل حاصل نہیں ہے ,حالانکہ تحصیل حاصل لغو اورعبث ہے , جس سے اہل عقل دوررہتے ہیں . 2- نبی کریم صلي الله عليه وسلمکے بعض خصائل طیبہ اورنسب شریف کا سننا , یہ دلیل بھی محفل میلاد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے , کیونکہ آپکے خصائل اورنسب شریف کی معرفت کے لئے سال بھر میں ایک دفع سُن لینا کا فی نہیں ہے , ایک دفع سننا کیسے کافی ہوسکتا ہے جب کہ وہ عقیدہ اسلامیہ کا جزء ہے ؟ ہرمسلمان مرد اورعورت پر واجب ہے کہ اپنے نبی صلي الله عليه وسلمکے نسب پاک اوران کی صفات کو اس طرح جانے جس طرح اللہ تعالی کو اس کے ناموں اورصفتوں کے ساتھ جانتا ہے اوریہ وہ چیز ہے کہ جس کی تعلیم انتہائی ضروری اورناگزیر ہے , اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ محض واقعہ پیدائش کا سن لینا کافی نہیں ہے . 3- تیسری دلیل بھی بالکل واہی تباہی دلیل ہے ,کیونکہ خوشی رسول صلي الله عليه وسلمکی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی , اگرخوشی رسول صلي الله عليه وسلمکی ہے تو ہمیشہ جب بھی رسول صلي الله عليه وسلمکا ذکرآئے خوشی ہونی چاہئے , اورکسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہئے , اور اگرخوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن بھی ہے جس میں آپ کی وفات ہوئی , اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ایسا عقلمند شخص ہوگا جو اس دن مسرّت اورخوشی کا جشن منائے گا جس دن اس کے محبوب کی موت واقع ہوئی ہو حالانکہ رسول صلي الله عليه وسلمکی وفات سب سے بڑی مصیبت ہے جس سے مسلمان دوچار ہوئے حتى کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کہا کرتے تھے کہ !جس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کو چاہئے کہ اس مصیبت کویاد کرلے جو رسول صلي الله عليه وسلمکی وفات سے پہنچی ہے, نیز انسانی فطرت اس کی متقاضی ہے کہ انسان بچہ کی پیدائش کے دن خوشی مناتا ہے اوراسکی موت کے دن غمگین ہوتا ہے ,لیکن تعجب ہے کہ کس دھوکہ میں یہ انسان فطرت کو بدلنے کے لئے کوشاں ہے . 4-چوتھی دلیل یعنی کھانا کھلانا, یہ پچھلی سب دلیلوں سے زیادہ کمزور ہے , کیونکہ کھانا کھلانےکی ترغیب اس وقت دی گئی جب اس کی ضرورت ہو, مسلمان مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے , بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اور صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ پورے سال ہوتا ہے , اس کے لئے سال میں کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی دن کھانا کھلائے, اس بناء پر یہ ایسی علت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی حال میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا لازم ہو . 5- پانچویں دلیل یعنی ذکر کے لئے جمع ہونا , یہ علت بھی فاسد اورباطل ہے , کیونکہ بیک آواز ذکر کےلئے اجتماع سلف کے یہاں معروف نہیں تھا. اسلئے یہ اجتماع فی نفسہ ایک قابل نکیر بدعت ہے اورطرب انگیز آواز سے مدحیہ اشعار اورقصائد پڑھنا تو اور بھی بدترین بدعت ہے , جسے وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے دین پر اطمینان نہیں ہوتا , حالانکہ ساری دنیا کے مسلمان رات اوردن میں پانچ مرتبہ مسجدوں میں اورعلم کے حلقوں میں علم ومعرفت کی طلب کے لئے جمع ہوتے ہیں , اس لئے ان کو ایسے سالانہ جلسوں اورمحفلوں کی ضرورت نہیں ہے جن میں اکثر حظوظ نفسانیہ یعنی طرب انگیز اشعار کے سننے اورکھانے پینے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے . محفل میلاد کو جائز کہنے والوں کے چند کمزورشبہات آ برادران اسلام! پ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب ساتویںصدی کے آغاز میں میلاد کی بدعت ایجاد ہوئی ,اورلوگوں کے درمیان پھیل گئی , کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے اندرروحانی اورجسمانی خلاء پیدا ہوگیا تھا , اس لئے کہ انہوں نے جہاد کوترک کردیا تھا , اور فتنوں کی اس آگ کے بجھانے میں مشغول ہوگئے تھے جو اسلام کے دشمن یہودیوں ,عیسائیوں اورمجوسیوں نے بھڑ کا رکھا تھا , اوریہ بدعت نفوس میں جڑ پکڑگئی , اوربہت سے جاہلوں کے عقیدہ کا جزء بن گئی , جس کی وجہ سے بعض اہل علم مثلاً سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے سوا اورکوئی چارہ کارنہ دیکھا کہ ایسے شبہات تلاش کرکے اس کے لئے جواز نکالا جائے ,جن سے اس بدعت مولود کے جواز پر استدلال کیا جاسکے , اوریہ اس لئے تاکہ عوام الناس اور بلکہ خواص بھی راضی ہوجائیں , اوردوسری طرف علماء کا اس سے رضامند ہونے اوراس پر حکام وعوام کے ڈرسے خاموش رہنے کا جوازنکل آئے اب ہم یہاں ان شبہات کوبیان کرتے ہیں اورساتھ ہی ان کا ضعف وبطلان بھی ,تاکہ اس مسئلہ میں مزید بصیرت حاصل ہو , جس پر بحث کرنے اوراس میں حق کی وضاحت کرنے کے لئے ہم مجبو ر ہوئے ہیں , ان شبہات کا مدار ایک تاریخی نقل اورتین احادیث نبویہ پرہے , ان شبہات کے ابھارنے والے اوراجاگر کرنے والے سیوطی غفراللہ لنا ولہ ہیں , حالانکہ وہ اس طرح کی چیزوں سے مستغنی ہو سکتے تھے , وہ دسویں صدی کے علماء میں سے ہیں جو فتنوں اورآزمائشوں کا زمانہ تھا , تعجب یہ ہے کہ ان شبہات پر وہ مسرور ہیں , اور ان پر فخر کرتے ہیں , کہتے ہیں کہ !مجھے شریعت میں میلاد کی اصل مل گئی ہے اورمیں نے اس کی تخریج کرلی ہے (الحاوی فی الفتاوى للسیوطی ) لیکن سیوطی سے اس طرح کی باتوں کا کچہ تعجب نہیں , جب کہ ان کے متعلق کہا گیا ہے وہ " حاطب لیل " (رات کے اندھیروں میں لکڑی جمع کرنے والے کی طرح ہیں )یعنی صحیح وضعیف سب کو جمع کرنے والے تھے . . پہلا شبہ : تاريخ میں ایک واقعہ( اورفتح الباری میں تفصیل سےہے) منقول ہے کہ بدنصیب ابو لہب کو خواب میں دیکھا گیا ,خیریت پوچھی گئی ,تو کہا کہ آگ کے عذاب میں مبتلا ہوں , البتہ ہر دو شنبہ کی رات کو عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے اوراپنی دو انگلیوں کے درمیان سے انگلی کے سرے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اتنی مقدار میں پانی چوس لیتا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کی باندی ثویبہ نے ان کو اس کے بھائی عبد اللہ بن عبد المطلب کے گھر حضرت محمد صلي الله عليه وسلم کی پیدائش کی خبر دی , جس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تو اس نے ان کو آزاد کردیا ,یہ شبہ بچند وجوہ مردود اورباطل ہے : 1-اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت کسی کے خواب سے نہیں ثابت ہوتی , خواہ خواب دیکھنے والا اپنے ایمان وعلم وتقوى میں کیسے ہی درجہ کا ہو مگر یہ کہ اللہ کا نبی ہو اسلئے کہ انبیاء کا خواب وحی ہے اوروحی حق ہے . 2- اس خواب کے دیکھنے والے نے بالواسطہ روایت کیا ہے , اس لئے یہ حدیث مرسل ہے اور حدیث مرسل نا قابل استدلال ہے , اورنہ ہی اس سے کسی عقیدہ اورعبادت کا ثبوت ہوتا ہے , ساتہ ہی یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عباس نے یہ خواب اسلام لانے سے پہلے دیکھا ہو , اورکافر کا خواب بحالت کفر بالاجما ع قابل استدلال نہیں . 3- سلف وخلف میں سے اکثر اہل علم کا مذھب یہ ہے کہ کافر اگر کفرہی کی حالت میں مرجائے تو اس کو اس کے نیک اعمال کا ثواب نہ ملے گا , اوریہی حق بھی ہے ,کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے :﴿ {وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاء مَّنثُورًا﴾ (23) سورة الفرقان] "اور ہم نے توجہ کی ان اعمال کی طرف جو انہوں نے کئے , پس ہم نے اس کو منتشر غبار بنادیا " نیز اللہ کا ارشاد ہے ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا﴾ (105) سورة الكهف] "یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا , اور اسکے سامنے حاضری کا انکار کیا , پس ان کے اعمال غارت ہوگئے ,پس ہم قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہ قائم کریں گے " اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول صلي الله عليه وسلمسے عبد اللہ بن جدعان کے بارے میں جو ہرسال موسِِم حج میں ایک ہزار اونٹ ذبح کیا کرتا تھا اورایک ہزار جوڑے پہناتا تھا , اورجس نے حلف الفضول کے لئے اپنے گھر دعوت دی تھی ,سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول !کیا یہ اعمال اس کو نفع دیں گے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ "نہیں " ,اسلئے کہ اسنے کسی دن بھی یہ نہ کہا کہ اے میرے پروردگار !قیامت کے دن میری خطا معاف کردے ". اس جواب سے اس خواب کی عدم صحت یقینی طورپر ثابت ہوگئی اوراب یہ خواب نہ دلیل بن سکتا ہے اورنہ اشتباہ کی چیز - 4- ابو لہب نے اپنے بھتیجے کی ولادت پر جو خوشی منائی وہ ایک طبعی خوشی تھی , تعبدی خوشی نہ تھی , کیونکہ ھر انسان اپنے یا اپنے بھائی یا اپنے رشتہ دارکے یہاں ولادت ہونے سے خوش ہوتا ہے , اورخوشی اگر اللہ کے لئے نہ ہوتو اس پر ثواب نہیں ملتا , یہ چیز اس روایت کو ضعیف اورباطل قراردیتی ہے , لیکن اپنے نبی سے مومن کی خوشی ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کے ساتہ قائم ہے , اور اس سے کبھی جدا نہیں ہوتی ,کیونکہ وہ اس کی محبت کا لازمہ ہے , اورجب یہ ہے تو ہم اس کے لئے سالانہ یادگار کیوں منائیں گے کہ اس کے ذریعہ ہم اس کے اندر محبت پیدا کریں , لاریب یہ باطل معنی ہے اوربالکل بے وزن بے حیثیت شبہ ہے اس سے کوئی ایسا حکم شرعی کیسے ثابت ہوسکتا ہے , جسکو اللہ تعالى نے کسی عجزونسیان کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مؤمن بندوں پر فضل ورحمت کی وجہ سے مشروع نہیں فرمایا , فلہ الحمد والمنۃ. دوسرا شبہ : روايت ہے کہ امت کے لئے عقیقہ کی مشروعیت کے بعد نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے اپنا عقیقہ فرمایا (1)چونکہ آپکے دادا عبد المطلب نے آپ کا عقیقہ کیا تھا ,اور عقیقہ دوبار نہیں کیا جاتا ,اس لئے یہ اسکی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی ولادت کے ادائے شکر کے لئے یہ کیا , کیا اس صورت میں اس کو بدعت مولود کی اصل بنایا جاسکتا ہے ؟ یہ اشتباہ تو پہلے اشتباہ سے بھی زیادہ کمزور,بے قیمت اوربے وزن ہے , کیونکہ یہ محض اس احتمال پر مبنی ہے کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلماپنی پیدائش کی نعمت کے شکریہ میں عقیقہ فرمایا ,لیکن یہ احتمال ظن سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے, اور ظن سے احکام شرائع کا ثبوت نہیں ہوتا , اللہ تعالی کا ارشاد ہے (إنَّ بعضَ الظنِّ إثم ٌ) الحجرات 12] "بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں " ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------- (1)مجھے نہیں معلوم کہ یہ روایت کس سے مروی ہے ا ور اسکی اسنادکیا ہے ,اس کو سیوطی نے بصیغہ تمریض ذکر کیا ہے اورمیرا خیال ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے رواہ مالک ,بخاری ومسلم اور رسول صلي الله عليه وسلمفرماتے ہیں (إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث) بخاری ومسلم " "بدگمانی سے بچو ,اسلئے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے " دوسری بات یہ کہ کیا یہ ثابت ہے کہ اہل جاہلیت کے یہاں عقیقہ مشروع تھا , اوروہ عقیقہ کیا کرتے تھے , تاکہ ہم یہ کہ سکیں کہ عبد المطلب نے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا , اورکیا اسلام میں اعمال أہل جاہلیت کا کچہ شمار واعتبار ہے کہ اسکی بنیاد پر ہم یہ کہیں کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلم نے اپنا عقیقہ ادائے شکر کے لئے کیا تھا , سنت عقیقہ کی ادائیگی کے لئے نہیں کیا تھا , کیونکہ یہ عقیقہ توپہلے ہو چکا تھا ؟ ؟ سبحان اللہ ! کس قدر عجیب وعریب استدلال ہے !! اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے اپنے وجود پیدائِش کی نعمت کے شکریہ میں بکری ذبح کی تو کیا اس سے لازم آتا ہے کہ آپ کے یوم ولادت کو جشن وعید کا دن بنالیا جائے ؟اور پھر رسول صلي الله عليه وسلمنےلوگوں کو اسکی دعوت کیوں نہ دی , اور ان اقوال واعمال کو کیوں نہ بیان فرمایا جو ان کے لئے واجب ہیں ؟ جیساکہ عید الفطر اورعید الأضحی کے احکام بیان فرمائے , کیا آپ بھول گئے یا آپ نے کتمان فرمایا , حالانکہ آپ تبلیغ پر مامور تھے ؟ اے اللہ تیری ذات پاک ہے , بے شک تیرے رسول صلي الله عليه وسلمم نہ بھولے اورنہ انہوں نے کتمان کیا ,لیکن یہ انسان ہی بڑا جھگڑالو ہے!!! تیسرا شبہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے عاشوراء کے دن روزہ رکھا اور اسکا حکم فرمایا اور آپ سے جب اسکے بارے میں سوال کیا گیا ,تو فرمایا کہ "یہ ایک اچھا دن ھے , اللہ تعالی نے اس دن موسى اوربنی اسرائیل کو نجات دی –الخ"اس حدیث سے اشتباہ کی تقریر یہ ہے کہ حضرت موسى اوربنی اسرائیل کی نجات کے شکریہ میں جب نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے اس دن روزہ رکھا اورمسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم نبی کریم صلي الله عليه وسلمکے یوم ولادت کو روزہ کا دن نہیں ,بلکہ کھانے پینے اور خوشی منانے کا دن بنائیں کس قدر عجیب ہے یہ الٹی کھوپڑی , رب کی پناہ ! کیوں کہ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم روزہ رکھیں جس طرح نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے روزہ رکھا , نہ یہ کہ دستر خوان لگائے جائیں , اورڈھول تاشے سے خوشیاں منائی جائیں , کیا اللہ تعالى کا شکر عیش ومستی اوردعوتیں اڑاکراداکیا جاتا ہے,بالکل نہیں , پھر یہ کہ کیا ہم کویہ حق ہے کہ ہم اپنے لئے روزہ وغیرہ مشروع کرلیں – ھمارے ذمہ تو صرف اتباع اور اطاعت ہے, رسول صلي الله عليه وسلمنے عاشوراء کے دن روزہ رکھا , تو اس دن کا روزہ سنت ہوگیا , اوراپنے یوم ولادت کے بارے میں خاموش رہے اوراس میں کجھ بھی مشروع نہیں فرمایا ,تو ہمارے اوپر بھی واجب ہے کہ ہم بھی اسی طرح خاموش رھیں اور اس میں روزہ نماز وغیرہ مشروع کرنے کی کوشش نہ کریں , اور لہوولعب یا کھیل کود کا تو کیا ذکر . چوتھا شبہ نبی کریم صلي الله عليه وسلمسے بروایت صحیحہ ثابت ہے کہ آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے , اور اس کی علت اوروجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ "دوشنبہ کا دن تو وہ دن ہے ,جس میں میں پیدا ہوا ہوں اوراسی دن میں مبعوث ہوا ھوں , اورجمعرات کا دن تویہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالى کے سامنے اعمال پیش ہوتے ہیں , میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے رب کے سامنے میرا عمل پیش ہو تو میں روزے سے رہوں " ان لوگوں کے نزدیک وجہ اشتباہ جس کی بناء پر میلاد کی بدعت نکالی ہےیہ ہے کہ آپ نے دوشنبہ کے دن روزہ رکھا اور علت یہ بیان فرمائی کہ ( إنہ یوم ولدت فیہ وبعثت فیہ )(رواہ ابن ماجہ وغیرہ وہو صحیح) "یہ وہ دن ہے جس میں پیدا ہوا اور مبعوث ہوا "یہ اشتباہ اگرچہ پہلے کے اشتباہات سے بھی زیادہ کمزورہے تاہم بچند وجوہ باطل اور مردود ہے اول یہ کہ جب محفل میلاد کے منعقد کرنے سے رسول صلي الله عليه وسلمکی نعمت ولادت پراللہ تعالى کا شکرادا کرنا ہے , تو اس صورت میں عقل ونقل کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ شکر اسی نوع کا ہو, جس نوع کا شکر رسول صلي الله عليه وسلمنے کیا یعنی آپ نے روزہ رکھا تو ہمیں بھی آپ کی طرح اس روزروزہ رکھنا چاہئے , اور جب ہم سے پوچھا جائے تو ہم کہیں کہ یہ ھمارے نبی کی ولادت کا دن ہے اس نے ہم شکر الہی ادا کرنے کے لئے آج کے دن روزہ رکھتے ہمیں ,یہ اور بات ہے کہ میلاد والے روزہ ہرگز نہ رکھیں گے , کیونکہ روزہ میں نفس کو لذتِ کام ودہن سے محروم کرکے نفس کی اصلاح کی جاتی ہے , اور ان لوگوں کا مقصودیہی لذت کام ودہن ہے, اسلئے غرض متعارض ہوگئی چنانچہ انھون نے اپنی پسند کو اللہ کی پسند پر ترجیح دی اور اہل عقل کے نزدیک یہ لغزش ہے , دوم – یہ کہ رسول صلي الله عليه وسلمنے اپنی ولادت کے دن رزوہ نہیں رکھا جو کہ بارہویں ربیع الأول ہے, اگر یہ روایت ثابت ہو,بلکہ آپ نے دوشنبہ کے دن روزہ رکھا ہے , جو ہرمہینہ میں چار یا چار سے زائد مرتبہ آتا ہے , اس بناء پر بارہویں ربیع الاول کو کسی عمل کے لئے مخصوص کرنا اورہر ہفتہ آنے والے دوشنبہ کوچھوڑدینا شارع علیہ السلام کے عمل کی تصحیح اور استدراک سمجھا جائیگا , اوراگر ایسا ہی ہے تو یہ بہت بُرا ہے معاذاللہ- سوم – یہ کہ نبی کریم صلي الله عليه وسلمنےٍ جب اپنی ولادت اور تخلیق او ر تمام انسانوں کی طرف بشیرونذیر ہوکر مبعوث ہونے کے شکریہ میں دوشنبہ کےدن روزہ رکھا تو کیا آپ نے روزے کے ساتھ کوئی محفل اور تقریب بھی کی جیسا کہ یہ میلادی لوگ کیا کرتے ہیں کہ بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے , مدحیہ اشعار اورنغمے ہوتے ہیں اور کھانا پینا ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ نہیں , بلکہ صرف روزے پر اکتفا فرمایا , توپھر کیا امت کے لئے وہ کافی نہیں جو اس کے نبی کے لئے کا فی ہے؟ کیا کوئی عقلمند اس کے جواب میں یہ کہ سکتا ہے کہ نہیں پھر شارع کے خلاف کوئی عمل گڑھنے اور ان سے آگے بڑھنے کی یہ جرأت کیوں؟ اللہ تعالى فرماتا ہے ﴿ !$tBurãNä39s?#uäãAqß™§9$#çnrä‹ã‚sù$tBuröNä39pktXçm÷Ytã(#qßgtFR$$sù ﴾الحشر:7]" اوررسول جو تم كو دیں، اس كو لے لو اورجس سے روکیں اس سے رک جا اوردوسری جگہ فرماتا ہے ﴿$pkš‰r'¯»tƒtûïÏ%©!$#(#qãZtB#uäŸw(#qãBÏd‰s)è?tû÷üt/Ä“y‰tƒ«!$#¾Ï&Î!qß™u‘ur((#qà)¨?$#ur©!$#4¨bÎ)©!$#ìì‹Ïÿxœ×LìÎ=tæÇÊÈ الحجرات "اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول کے آگے نہ بڑھو , اور اللہ سے ڈرو ,بٍے شک اللہ سننے والا , جاننے والا ہے" اور رسول صلي الله عليه وسلمفرماتے ہیں کہ "إیا کم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ , وکل بدعۃ ضلالۃ " (تم نئے ایجاد کئے ہوئے امور سے بچو , اسلئے کہ ( دین میں ) نئی ایجاد کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے) اورفرماتے ہیں کہ "إن اللہ حد حدودا فلا تعتدوھا , وفرض لکم فرائض فلا تضیعوھا , وحرم أشیاء فلا تنتھکوھا , وترک أشیاء فی غیر نسیان ولکن رحمۃ لکم فاقبلوھا ولا تبحثوا عنھا"(اخرجہ ابن جریر ورواہ الحاکم وصححہ عن أبی ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ ) " اللہ تعالی نے کچھ حدیں مقرر فرمائی ہیں تم ان سے تجاوز مت کرو , اورتمہارے لئے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں , انہیں ضائع مت کرو , اورکچھ چیزیں حرام کی ہیں , ان کی حرمت کو نہ ختم کرو, اورکچھ چیزیں بغیر کسی بھی بھول کے (یوں ہی ) تمہارے اوپر رحم کرتے ہوئے چھوڑدی ہیں , ان کو قبول کرلو اوران کے بارے میں کھود کرید نہ کرو" نعم البدل معزز قارئین!اگریہ کہا جائے کہ آپ نے تو اپنے دلائل اوربراہین کی بھر مارسے بدعت مولود کو باطل کردیا, لیکن اس بدعت کا جو کہ بہر حال بعض نیکیوں سے خالی نہیں ,بدل کیا ہے ؟ توآپ ان کہنے والوں سے کہیں کہ اس کا نعم البدل یہ ہے کہ واقعہ پیدائش اور نسب شریف اور شمائل محمدیہ کے واقعات کا جائزہ لینے کے بجائے مسلمانوں کو چاہئے کہ سنجیدہ بنیں اور کرنے کے کام میں لگیں , ہرروز مغرب کے بعد عشاء تک اپنی اپنی مسجدوں میں کسی عالم دین کے پاس بیٹھیں جو ان کو دین کی تعلیم دے اور ان کے اندر دین کی سمجھ پیدا کرے , اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں , اس کو دین کا سمجھ عطا فرماتے ہیں , اورپھر وہ نسب شریف بھی جان جائیں گے اورشمائل محمدیہ بھی پڑھ لیں گے اور اسوہ حسنہ سے بھی متصف ہوجائیں گے اوراس طرح یقینی طور پر رسول صلي الله عليه وسلمکے تابعدار اور سچے عاشق ہوجائیں گے اور اسطرح یقینی طور پر رسول صلي الله عليه وسلم کے تابعدار اور سچے عاشق ہوجائیں گے , محض زبانی دعویدار نہ ہوں گے –اورذکر اورتلاوت قرآن کا بدل یہ ہے کہ صبح وشام اور رات کے پچھلے پہر کے لئے وظائف ہوں , صبح کا وظیفہ ہو "سبحان اللہ وبحمدہ , سبحان اللہ العظیم أستغفر اللہ, سوبار , اور "لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ, لہ الملک ولہ الحمد وھو على کل شئی قدیر " سو بار ,اور شام کا وظیفہ ہو " أستغفر اللہ لی ولوالدی وللمؤمنین والمؤمنات "سوبار , اور سوبار درود شریف (1 اور رات کے پچھلے پہر کا وظیفہ یہ ہے کہ آٹھ رکعت نماز پڑھے اور ہررکعت میں چوتھائی پارہ قرآن شریف پڑھے اوراپنی نماز تین رکعتوں پر ختم کرے, دورکعتوں میں ایک رکعت اورملا کر اس کو وتر بنادے , اور ساتھ ہی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی پابند ی کرے , خاص طور سے عصر اورفجر کی , کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ( من صلی البردین دخل الجنۃ )(رواہ الشیخان ) " جس نے عصر اورفجر کی نماز پڑھ لی وہ جنت میں داخل ہوگیا )- --------------------------------------------------------------------- (1) یہ وظائف اور ان کی تعداد صحاح وسنن میں ثابت ہے , اسی طرح پچھلی رات کی نماز (تہجد) بھی ثابت ہے ) اورقصائد واشعار سننے کا بدل یہ ہے کہ اچھے اوربہترین قاریوں مثلا یوسف کامل بہیتمی ,منشاوی ,صیفی ,دروی اور طبلاوی وغیرہ کے کیسٹ رکھے , اور جب کچھ گھٹن اور خشکی محسوس کرے تو ٹیپ ریکارڈ کھول کر قرأت قرآن کو غور سے سنے کہ اس سے سچی اور اچھی طرب اور خوشی پیدا ہوگی جو شوق الی اللہ کو ابھارے گی اور اللہ تعالى کی طرف رغبت پیداکرے گی . اب رہا دوست , احباب اوربھائیوں کو کھانا کھلانا تو اسکا دروازہ کھلا ہوا ہے اور طریقہ بھی معروف اور مشہور ہے , عوام الناس کہتے ہیں "من بید کل یوم عید "(1)"جس کے جیب میں مال ہے اس کا ہر دن عید ہی ہے " یہ کھلانا پلانا کچھ تقریب ومحفل اور طاعت وعبادت پر ہی نہیں موقوف ہے, کھانا پکاکے غریبوں کو بلکہ امیدوں کو بھی دعوت دے , خود کھائے , اور اللہ کا شکر ادا کرے , جو شخص اللہ کا شکر اداکرتا ہے , اللہ تعالی اس کو اور دیتا ہے , واللہ خیر الشاکرین. ----------------------------------------------------------------- (2) اس عبارت کی اصل یہ ہے " من بیدہ المال فکل یوم عیدہ " اسلئے اس مثل کے دونوں دالوں کو اشباع کے ساتھ پڑھا جاتا ہے , کیونکہ اشباع دونوں محذوف ضمیروں کے عوض میں ہے. مولود کا قابل مذمت غلو جو چیز رنج اورافسوس دونوں کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے میلادی اورمیلاد کو اچھا سمجھنے والے لوگ ھیں جن میں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس بدعت کی تعظیم وتکریم میں اس حد تک غلو اختیار کر رکھا ہے کہ جولوگ اس کو بدعتِ ضلالت کہتے ہیں وہ ان کو کافر اوردین سے خارج تک کہنے سے پر ہیز نہیں کرتے , وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص رسول صلي الله عليه وسلمسے بغض رکھتا ہے یا آپ سے محبت نہیں رکھتا ,کیوں ؟ اسلئے کہ وہ میلاد کو نہیں پسند کرتا , یامحفل میلاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا , حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرے یا آپ سے محبت نہ کرے وہ باجماع مسلمین کافر ہوجاتا ہے , اس لئے یہ کہنا کہ فلاں شخص رسول صلي الله عليه وسلمکو پسند نہیں کرتا , یہ اس فلاں شخص کو کافر کہنا ہے , اور مسلمان کی تکفیر کسی بھی حال میں نہیں جائز ہے, حالانکہ یہ بھی معلوم ہےکہ مؤمن صالح ہی بدعت پرنکیرکرتا اوراس سے منع کرتا ہے اور اس سے ڈراتا ہے , پھر اس کی تکفیر کیسے کی جاسکتی ہے یا اس پر کفر کا اتہام کس طرح لگایا جاسکتا ہے , رب کی پناہ ! اس بدعت میں غلو کرنے والے لوگوں نے گویا رسول صلي الله عليه وسلم کے اس ارشاد سے بالکل آنکھ ہی بند کرلی ہے جو حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے بخاری ومسلم میں روایت ہے کہ "جب آدمی اپنے بھائی سے کہے , اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک پر یہ قول لوٹے گا , پس اگر ویسا ہی تھا , جیسا اس نے کہا ہے (توخیر) ورنہ یہ اسے (کہنے والے ) پر لوٹ پڑے گا " اورگویا یہ لوگ رسول صلي الله عليه وسلم کے اس ارشاد سے بہرے ہوگئے ہیں جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہے جس کو بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے کہ " جس نے کسی کو کفر کے ساتھ بلایا یا کہا, اللہ کے دشمن ! اوروہ ایسا نہیں ہے تو یہ اسی (کہنے والے ) پر لوٹ جائے گا " کسی کے ساتھ یہ رویّہ رکھنا واقعی بہت تعجب خیز ہے . مسلمان کا تو مسلمان پر یہ حق ہے کہ اگر وہ نیکی ترک کردے تو وہ اس کو نیکی کا حکم کرے اوراگر وہ برائی اورخلاف شرع کا م کا ارتکاب کرے تو وہ اس کو روکے اور منع کرے , لیکن حال یہ ھے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کا حق ادا کرتا ہے اوراس کو کوئی نیکی کا حکم کرتا اوربری بات سے روکتا ہے تو اسکا یہ بھائی اس کو کافر کہ کر بدترین بدلہ دیتا ہے , والعیاذ باللہ تعالی – اس کا سبب درحقیقت مسلمانوں کی بدحالی اوران کے قلوب واخلاق کا بگاڑ ہے, کیونکہ وہ اسلامی تربیت سے دور ہیں , جس پر مسلمانوں کی حیات کا دارومدار ہے , اور ان کی سعادت وکمال کا سبب ہے , اسلئے کہ یہ تربیت صدیوں سے معدوم ھوچکی ہے , اورافسوس کہ ان کے درمیان اب کوئی ایسی شخصیت بھی نہیں ہے جو تربیت کا فریضہ انجام دے , حالانکہ یہ امت محمد روحانی اور اخلاقی تربیت کی بیحد محتاج اورضرورت مند ہے, کیونکہ آغاز اسلام میں اس کے کمال وسعادت کا راز یہی تربیت تھی , اللہ تعالی کا ارشاد ھے ﴿uqèd“Ï%©!$#y]yèt/’Îûz`¿Íh‹ÏiBW{$#Zwqß™u‘öNåk÷]ÏiB(#qè=÷FtƒöNÍköŽn=tã¾ÏmÏG»tƒ#uäöNÍkŽÏj.t“ãƒurãNßgßJÏk=yèãƒur|=»tGÅ3ø9$#spyJõ3Ïtø:$#urbÎ)ur(#qçR%x.`ÏBã@ö6s%’Å"s99@»n=|Ê&ûüÎ7•BÇËÈ الجمعۃ] "وہی ہے جس نے (عرب کے ناخواندہ) لوگوں میں انہی (کی قوم ) میں سے (یعنی عرب میں سے ) ایک پیغمبر بھیجا , جو انکو اللہ کی آیتیں پڑھکر سنا تے ہیں اوران کو ( عقائد باطلہ واخلاق ذمیمہ ) سے پاک کرتے ہیں , اور ان کو کتاب اور دانشمندی کی باتیں سکھاتے ہیں اوریہ لوگ ( آپ کی بعثت کے ) پہلے کھلی گمراہی میں تھے نبی کریم صلي الله عليه وسلماپنے اصحاب کا جو تزکیہ فرماتے تھے وہ یہی تھا کہ علوم ومعارف کے ذریعہ روزانہ جو غذا آپ ان کو عطا فرماتے تھے , اس سے ان کے نفوس کما لات اور اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہوتے رہتے تھے ,اورانہیں سنن وآداب کا خوگر بناتے تھے یہاں تک کہ وہ حضرات کامل اورطاہر ہوگئے , اور آپ کے بعد آپ کے رفقاء اوراصحاب نے ان تمام ممالک اورشہروں کے مسلمانوں کی تربیت کا کام انجام دیا ,جہاں جہاں وہ حضرات گئے , پھر ان حضرات کے بعد ان کے تلامذہ یعنی تابعین نے اور ان کے بعد تبع تابعین نے یہ کام انجام دیا , اور اس طرح امتِ اسلامیہ کامل ومکمل , طاہر اورمنتخب قوم ہوگئی,یہاں تک کہ ان کے درمیا ن سے یہ تربیت اورتربیت کرنے والے لوگ ختم ہوگئے , جس کے نتیجہ میں ایک لاقانونیت اورہنگامہ کا دور آگیا , شہوات اورخواہشات نفسانی نے اس میں اپنا حصہ لگا لیا , اورپھر ایک دن وہ آیا کہ اس امت کی تربیت کے ذمہ داروہ لوگ ہوگئے جو اس کے اہل نہیں تھے , انہوں نے اس کی بدحالی اور بگاڑ میں اور اضافہ کردیا , جو ستم بالائے ستم اور نہلہ پہ دہلہ تھا . آخر میں اپنے اس مسلمان کو جو اس بدعت پر مصر ہے اور جس کے لئے اس کا چھوڑنا دشوار ہے , کیونکہ وہ اس کے جواز یا اس کے فائدہ اورنفع سے مطمئن ہے یا اس وجہ سے کہ وہ ایک زمانہ سے اس کا خوگر ہوچکا ہے , یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے اس مسلمان بھائی کو جو اس کو اس سے روکے یا اس پر نکیر کرے معذور جانے, کیونکہ اس کو اس ذات گرامی صلي الله عليه وسلمکی طرف سے جن کے لئے یہ محفل سجائی جاتی ہے یہ حکم ہے, چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ " تم میں سے جو شخص کوئی منکر (خلاف شرع کام) دیکھے تو اس کو اپنے ہا تھ سے تبدیل کردے ,پس اگریہ نہ کرسکے توزبان سے , اور اگریہ بھی نہ کرسکے تودل سے اوریہ کمزور ترین ایمان ہے(مسلم) اورفرمایا " تم ضرور معروف (نیک کاموں ) کا حکم دوگے ,اورمنکر (خلاف شرع کاموں ) سے روکوگے , ورنہ اللہ تمہارے اوپر اپنا عذاب بھیج دے گا, پھر تم اس سے دعا کروگے , اور وہ تمہاری دعا قبول نہ کرےگا (احمد وترمذی ) مسلمان کے ذمہ یہ لازم ہے کہ جب اس کا بھائی اس کو کسی اچھی بات کا حکم دے یا بُری بات سے روکے, یا کسی اچھے کام کے کرنے کی اور برے کام سے رکنے کی نصیحت کرے تو وہ اس کو مانے اورتسلیم کرے, یا خوبصورتی کے ساتھ اس کا جواب دے , مثلاًیہ کہے کہ اللہ تعالی آپ کو اچھا بدلہ دے , آپ نے تو اپنا فرض اداکردیا ہے , میں گناہکار ہوں , امید ہے کہ اللہ تعالی معاف فرمائے گا , یایوں کہدے کہ ! یہ بدعت ہے, لیکن میں نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ انہوں نے اسکو ثابت کیا ہے یا اس پر عمل کیا ہے یا انہوں نے اسکو ثابت کیا ہے یا اس پر عمل کیا ہے یا انہوں نے اس کو جائزکیا ہے, میں نے انہی کا اتباع کیا ہے اورمجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ہم سے موازنہ نہ فرمائیں گے . (مسلم) مسلمانوں کواسی طرح رہنا چاہئے ,یہ نہیں کہ خواہش نفسانی کے پیچھے اوراپنی رائے کی ضد میں اوردین میں ناحق غلو کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر بنائیں اورلعنت کریں , اختلاف ,نقاق اوربد اخلاقی سے اللہ کی پناہ- بیجا حمایت اور سختی خود(1)اپنے ساتھ انصاف کے تقاضہ سے یہ بات جان لینا اورکہ دینا ضروری ہے کہ اکثر لوگ جو محفل میلاد کرتے رہیں , تووہ رسول صلي الله عليه وسلمکی محبت ہی میں کرتے ہیں اوررسول صلي الله عليه وسلمسے محبت کرنا عین دین وایمان ہے , اورجوشخص رسول صلي الله عليه وسلمسے محبت کرتا ہو اس سے محبت کرنا واجب ہے , اسلئے کسی مسلمان کے لئے یہ درست نہیں ہےکہ مسلمان بھائی سے محض اس طرح کی بدعت کی وجہ سے بغض او ردشمنی رکھے , جو خود اس کے ملک میں اور عالم اسلامی میں ہیں کیونکہ اس بدعت کے ارتکاب پر ان کو نبی کریم صلي الله عليه وسلموسلم کے ساتہ جذبہ محبت اور اللہ تعالی کے قرب کے حصول کے جذبہ نے ہی ابھار ا اورآمادہ کیا ہے, اگر ایسا نہ ہوا تو یہ زیادتی ہوگی جوایسے موقع پر مناسب نہیں ہے . اورجس طرح اس سے بغض ودشمنی صحیح نہیں ہے , اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ محفل میلاد کرنے یا اس محفل میں شریک ہونے کی بناء پر کسی کومشرک اورکافر کہا جائے , کیونکہ اس جیسی بدعت کرنے والے یا ایسی بدعت میں شریک ہونے والے کی تکفیر نہیں کی جاتی , اورمسلمان پر کفر یا شرک کا داغ لگانا معمولی بات نہیں ہے , اس سلسلہ میں حدیثیں گزرچکی ہیں , بلکہ عدل وانصاف قائم رکھناچاہئے , ورنہ باہم ایک دوسرے کو لعنت کرنے سے امت کی اس حیثیت کو نقصان پہنچے گا کہ وہ حق کی رہنما اورعدل کا معیار ہے. بدعت میلاد کے ارتکاب کرنے والے مسلمان کے سلسلہ میں جو ذمہ داری ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے , وہ صرف یہ ہے کہ وہ اس کو حکم شرعی بتادے , پھر اس کو نرمی کے ساتھ سمجھائے کہ وہ اس بدعت کوچھوڑدےاوراسپر واضح کرے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے , اورگمراہی اور ضلالت ہدایت کی ضد ہے , اوراگر وہ نہ مانے توپھر اس کو نرمی ہی کے ساتھ سمجھاجائے اوراس کے فعل کی بہت زیادہ شناعت اورمذمت نہ کرے , --------------------------------------------------------------------- (1)صحیح بخاری کتاب الإیمان میں حضرت عماربن یاسر سے روایت ہے کہ حضرت عمارنے فرمایا کہ تین چیزیں ہیں جس نے ان کو جمع کرلیا , اس نے ایمان کو جمع کرلیا ,1-خود اپنے ساتہ انصاف کرنا 2-اورعالم سے سلام کرنا 3-اورتنگی کے باوجود خرچ کرنا ,بظاہریہ حدیث موقوف ہے ,لیکن مرفوعاً روایت ہے تاکہ اس کی وجہ سے اس کے اندر عناد اورضد نہ پیدا ہوجائے , کہ اس سے وہ خود بھی ہلاک ہوگا , اوراسکے ساتھ یہ بھی ہلاک ہوجائےگا , کیونکہ یہ اس کی ہلاکت کا سبب بنا ہے ,اور اسطرح دونوں ہلاکت کے گھاٹ اترجائیں گے , کسی امر ناگوار کی براہ راست تردید کرنے سے نبی کریم صلي الله عليه وسلمپرہیز فرمایا کرتے تھے , بلکہ اس طرح فرماتے کہ (مابال أقوام یقولون کذا وکذا ویریدون أن یفعلو کذاوکذا) "لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ,یہ باتیں کہتے ہیں اورایسا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں " وجہ یہ ہے کہ انسانی طبیعت اسی طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ امرناگوار کا سامنا نہیں کرسکتی , خواہ خود اس امر کا ارتکاب ہی کیوں نہ کرلے, اللہ تعالى امام شافعی پر رحمت نازل فرمائے ان کا یہ قول منقول ہے کہ" من نصح أخاہ سراً فقد نصحہ ومن نصح علناً فقد فضحہ " (جس نے اپنے بھائی کو چپکے سے نصیحت کی تو اس نے نصیحت کی اور جس نے اعلانیہ نصیحت کی تو اس نے اسکو رسوا کیا ) یہ سب اس وقت ہے جب کہ بدعت کے اندر مشرکانہ اعمال اور اقوال نہ ہوں , مثلاً غیراللہ کو پکارنا ,اوران سے فریاد چاہنا , اورغیرا للہ کے لئے ذبح کرنا یا غیر اللہ کے سامنے ایسے خشوع اور عاجزی کے ساتھ کھڑا ہونا جس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہوا جاتا ہے. یہ تو صرف رسول صلي الله عليه وسلمکی ولادت مبارکہ کی خوشی کا اظہار ہے اورنعمت اسلام پر جس کو لے کر اللہ تعالی نے اپنے محمد صلي الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا , اللہ تعالی کے ادائے شکر کے لئے کھانا کھلانا ہے, یا سیرت پاک کا کچہ حصہ پڑھنا یا بعض ایسے مدحیہ اشعار کا پڑھنا ہے جو شرک اورغلو سے خالی ہوں اورجس میں مردوں اورعورتوں کا اختلاط نہ ہو , اورنہ کسی منکر, خلاف شرع امر کا وجود ہو اور نہ کسی حکم شریعت کو ترک کیا جائے ,مثلاً نماز کا ترک کردینا ,یا وقت سے مؤخر کردینا یہ سب چیزیں نہ ہوں – لیکن اگر اس بدعت کے ساتھ کچھ مشرکانہ اقوال یا افعال ہوں یا اس کے اندر باطل اور فساد ہو تو ایسی صورت میں اس پر نکیر کرنے والے مسلمان پر نکیر کرنے میں تشدّد اورسختی ضروری اورلازم ہے , اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ جس طرح کا کم یا زیادہ خلاف شرع کا کا م ہورہا ہے اسی لحاظ سے وہ بھی سختی اختیار کرے , اور اس کے اوپر یہ لازم ہےکہ اس شرکیہ و حرام کاموں کے ترک کردینے کا مطالبہ کرے, اگر چہ اس میں قطع تعلق ہی کی نوبت کیوں نہ آجائے , حضرات سلف صالحین جب کسی کو دیکھتے کہ وہ خلاف شرع کا م کا ارتکاب کررہا ہے تو اس پر نکیر کرتے , اور اگر وہ اس پر اصرار کرتا تو اس سے تعلق منقطع کرلیتے , یہاں تک کہ وہ اس کام سے بازنہ آجائے , اگرچھ اس زمانہ میں اور آج کے زمانہ میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں قطع تعلق مفید نہیں ہے , کیونکہ یہ قطع تعلق پوری طرح نہیں ہوتا , جو اس شخص پر اثر انداز ہو , اس لئے قطع تعلق کے ساتہ ساتہ اس کو دعوت دیتے رہنا اورادائے فرض اورترک حرام کے لئے کہتے رہنا یہ زیادہ مفید اور نافع ہے . خلاصہ یہ کہ بدعت میلاد اگر اکثر مشرکانہ افعال واقوال اور محرمات سے خالی ہوتی ہے , تو اس صورت میں حکم شریعت بتا کر اور ترک بدعت کی ترغیب دے کر , نرمی کے ساتھ اس پر نکیر کی جائے , کیونکہ وہ اس کو ایمان اورحصول ثواب کے جذبہ ہی سے کرتا ہے , اسلئے لوگوں کی نیتوں اور ان کے جذبات کی رعایت کی جائے گی , اور یہ وہ حکمت ہے جس کا حکم أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں مسلمانوں کو دیا گیا ہے . لیکن جب اس بدعت کے ساتہ شرک وباطل یا شر وفساد موجود ہو تو جیسا شرک وفساد ہو اسی لحاظ سے اس پر نکیر بھی کی جائے گی , اور اس میں یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی کا حق ادا ہوگا , اور مسلمانوں کی خیر خواہی اور دنیا وآخرت میں انکے کمال وسعادت کے لئے دین پر ان کی استقامت میں تعاون کی ذمہ داری ادا ہوگی , واللہ من وراء القصد وھو المستعان خاتِمَہ ممکن ہے کہ اس رسالہ کے کچھ قارئین یہ سوال کریں کہ جب میلاد نبوی شریف تما م بدعتوں کی طرح ایک بدعت حرام ہے تو علماء اس کی طرف سے خاموش کیوں رہے اور اس کو یوں چھوڑ کیوں دیا کہ بدعت پھیلی اور رواج پاگئی اور اس طرح ہوگئی کہ گویا یہ اسلامی عقائد کا ایک جزء ہے, کیا ان پریہ لازم نہیں تھا کہ وہ اس پر نکیرکرتے, ان حضرات نےایساکیوں نہ کیا ؟؟ اس کے جواب میں عرض ہےکہ اس بدعت کے پیدا ہونے کے دن ہی سے علماء نے اس پر نکیر کی اور اسکی تردید میں رسالے لکھے , جو شخص ابن الحاج کی " المدخل" سے واقف ہوگا وہ اسکو بخوبی جان سکتا ہے , انہی اہم رسالوں میں سے علامہ تاج الدین عمربن علی لخمی سکندری فاکہانی مالکی مصنف "شرح الفاکہانی علی رسالۃ ابن ابی زید قیروانی" کا رسالہ "المورد فی الکلام علی المولد" ہے , ہم اس کی عبارت اس خاتمہ میں درج کریں گے, یہ اور بات ہے کہ قومیں اپنے انحطاط کے زمانہ میں جس قدر شروفساد کی دعوت پر لبیک کہنے میں قوی ہوتی ہیں اسی نسبت سے خیرواصلاح کی دعوت قبول کرنے میں ضعیف وکمزورہوتی ہیں , اسلئے کہ بیمار جسم میں معمولی تکلیف بھی اثر کرجاتی ہے, اور تندرست جسم پر بڑی سے بڑی اورطاقتور تکلیف بھی اثر انداز نہیں ہوتی اس کی محسوس مثال یہ ہے کہ صحیح سالم اورمضبوط دیوار کوپھاؤڑےٍ اورکلہاڑے بھی گرانے سے عاجزرہ جاتے ہیں اورگرتی ہوئی دیوار ہواکے جھوکے ا ورپیر کے دھکے سے بھی گر جاتی ہے , اسلئے اسلامی معاشرہ کے اندر اس بدعت کا وجود اوراسکا جڑ پکڑلینا علماء کے اس پر نکیر نہ کرنے کی دلیل نہیں ہے, اور یہ تاج الدین فاکہانی رحمہ اللہ کارسالہ جس کو ہم پیش کررہے ہیں اس پر شاہد ہے: "علامہ فاکہانی رحمہ اللہ حمدوثنا کے بعد فرماتے ہیں أمابعد: دين حق پر عمل کرنے والوں کی ایک جماعت نے کئی بار اس اجتماع کے بارے میں سوال کیا جو بعض لوگ ماہِ ربیع الأول میں" مولد" کے نام سےموسوم کرتے ہیں , کہ کیا شریعت میں اسکی کوئی اصل ہے یا یہ بدعت اوردین میں نئی ایجاد ہے ؟ اور ان لوگوں نے اسکا واضع اور متعین جواب طلب کیا, جواب میں عرض کرتا ہوں , اور اللہ تعالى ہی توفیق دینے والا ہے, کہ مجھےاس میلاد کی کوئی اصل کتاب وسنت سےنہیں ملی , اور ان علمائے امت میںسےکسی کا اس پر عمل بھی منقول نہیں ہے, جو دین کے رہنما اور سلف متقدمین کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں , بلکہ یہ بدعت ہے , جس کو اہل باطل نے نکالا ہے اور نفس کی شہوت ہے , جس کی طرف پیٹ کے پجاریوں نے توجہ اور اہتمام کیا ہے , اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم اس کے اوپر اسلام کے پانچوں احکام کو منطبق کریں گے توکہیں گے کہ یاتویہ واجب ہے ,یامندوب ہے,یامباح ہے ,یامکروہ ہے , یا حرام ہے , واجب تو یہ بالاجماع نہیں ہے اور نہ مندوب ہے , اسلئے کہ مندوب کی حقیقت یہ ھے کہ شریعت اسکو طلب کرے اوراسکے ترک پرمذمت نہ ہو, اور اس کی نہ شارع نے اجازت دی اورنہ صحابہ کرام نے اس کو کیا اور نہ تابعین نے اور نہ علمائے متدیّنین نے , جیساکہ مجھے معلوم ہے, اگر مجھ سے سوال کیا جائے تویہی جواب میں اللہ تعالی کے سامنے بھی دوں گا , اورنہ اس کا مباح ہونا ہی ممکن ہے ,کیونکہ دین میں نئی بات پید ا کرنا باجماع مباح نہیں ہے , تو اب مکروہ یاحرام ہونے کے علاوہ کوئی اورصورت باقی نہ رہی , اوراب کلام دو ہی حالتوں میں ہوگا , اور دونوں حالتوں میں فرق واضح ہوجائے گا . أوّل یہ کہ کوئی شخص اپنے مال سے اپنے اہل وعیال اوردوستوں کے لئے یہ کرے اوراس اجتماع میںوہ لوگ کھانا کھانے سے زیادہ اورکچھ نہ کریں اورکسی گناہ کا ارتکاب نہ کریں , یہ وہ صورت ہے جس کو ہم نے بیان کیا کہ یہ بدعت مکروہہ وشنیعہ ہے , اس لئے کہ متقدمین اہل طاعت میں سے جو کہ اسلام کے فقہاء اورمخلوق کے علماء اورزمانہ کے لئے چراغ ہدایت اور عالم زینت تھے کسی نے یہ فعل نہیں کیا . دوم یہ کہ اس میں جرم وظلم شامل ہوجائے , ایک آدمی کوئی چیز دیتا ہے اور اسکا نفس اس چیز کے پیچھے لگا رہتا ہے , اور اسکا دل اس کو رنج وتکلیف پہنچاتا رہتا ہے , کیونکہ وہ ظلم کا درد محسوس کرتا رہتا ہے(1) علماء فرماتے ہیں کہ "أخذالمال بالحیاء کأخذ ہ بالسیف " (2) شرم دلا کر مال لینا ایسا ہی ہے جیسے تلوار کے زور سے لینا) اور بالخصوص اس وقت جب کہ اس میں لبریز اور پر شکم کے ساتھ نغمے اور طرب ومستی کے آلات اور بے ریش نوجوان لڑکوں اور فتنہ سامان عورتوں کے ساتھ مردوں کے اجتماع اور اختلاط کا بھی اضافہ ہوجائے اورجھک جھک کر اورمڑ مڑکر رقص بھی ہوتا ہو اور لہو لعب میں بالکل استغراق ہو, اورحساب وکتاب کے دن کو بالکل بھلادیا گیا ہو , اوراسی طرح عورتیں جب تنہا جمع ہوں اورخوب بلند آواز سے عالم طرب میں گارہی ہوں , اورغیر مشروع طریقہ سے ذکرو تلاوت کررہی ہوں اور ارشاد ربّانی (إِنَّ رَبَّک َ لَبِا المِرصَاد) "بے شک تیر ا رب گھات مین ہے " سے غافل ہوں , تو یہ ایسی صورت ہے کہ جس کی حرمت میں کسی دو انسانوں کا بھی اختلاف نہیں اور جسے مہذب نوجوان بھی نہیں اچھا سمجھتے , بلکہ یہ انہی لوگوں کو لذیذ معلوم ہو تا ہے جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں , اورجو لوگ گناہوں سے نفرت نہیں رکھتے , مزید یہ بھی بتادوں کہ یہ لوگ ان سب خرافات کو عبادت سمجھتے ,إناللہ وإنا إلیہ راجعون " بدأ الإسلام غریبا وسیعود کما بدأ) "اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور بعد میں پھر ابتدا کی طرح (اجنبی) ہو جائیگأ" امام ابو عمروبن العلاء کیا خوب ارشاد فرماتے ہیں کہ :"كه جب تك لوگ تعجب خیز بات پر تعجب کرتے رہیں گے تو خیرپر رہیں گے " نیز یہ بھی ہے کہ ,جس ماہ ربیع الأول میں رسول صلي الله عليه وسلمکی ولادت ہوئی ہے , ٹھیک اسی مہینہ میں آپ کی وفات بھی ہوئی ہے اسلئے اس میں خوشی منانا غم منانے سے بہتر نہیں ہوسکتا , وہذا ماعلینا أن نقول ومن اللہ نرجوحسن القبول "انتہت رسالۃ تاج الدین الفاکہانی مسمی" المورد فی الکلام علی المولد" زندگی کا عجوبہ ہے کہ سیوطی نے"الحاوی" میں اس رسالہ کا ذکر کیا ہے , اور انہوں نے اسکے جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے , کیونکہ ان کا جواب بہت لچر ہے اسلئے کہ وہ حق کے ابطال کے لئے باطل کو لے کر بحث کررہے ہیں .والعیاذ باللہ (1) (اس اسلوب تحریرسے معلوم ہوتا ہےکہ لوگ مولود کے نام پر چندہ وصول کیا کرتے تھے , اورواقعہ بھی یہی ہے ,کیونکہ اب تک اولیاء کے مزارات پر جو عرس اورمولود کی جو محفلیں ہوا کرتی ہیں اس کے لئے لوگ عام لوگوں سے چندہ وصول کرتے ہیں , تاکہ ولی اوربزرگ کی برکت اور شفاعت حاصل ہوجائے ,)علماء فرماتے ہیں کہ " أخذ المال بالحیاء کأخذہ بالسیف" (2) علماء کا یہ قول بھی ہےکہ " ما أخذ بوجہ الحیاء فہو حرام " (جو چیز شرم دلا کرلی جائے وہ حرام ہے ) معززقارئین! آپ امام سیوطی کے ان اشتباھات سے واقف ہوگئے , جن پر وہ اس گمان میں بہت خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے بدعت میلاد کی اصل شریعت میں ڈھونڈ نکالی اورآپ اس سے بھی واقف ہوگئے , جو ہم نے انکا جواب دیا ہے اورجو حق کےطالبین اورحق پے زندگی گزار دینے میں رغبت رکھنے والوں کے لئے راستہ روشن کرتا ہے , اس لئے سیوطی نے علامہ فاکہانی کا جواب دیا ہے اس سے عدم واقفیت آپ کے لئے مضر نہیں ہے , اس لئے کہ ان کے مذکورہ بالا شبہات کی معرفت سیوطی کے جواب کی معرفت سے بے نیاز کرتی ہے , کہ :-- قیاس کن زگلستان ِمن بہار مرا اس کے بعد عرض ہے کہ اگرہمارے اس رسالہ کے پڑھنے کے بعد بھی آپ کا ذہن صاف نہ ہو, اوربدعت مولود کے بدعتِ ضلالت ہونے میں شک اور تردد باقی رہے تو درج ذیل دعا کو کثرت کے ساتھ پڑھیں , اللہ تعالی آپ کے شک وتردد کو دور فرمادیں گے اور آپ کے دل میں راہ صواب ڈالدیں گے اورراہ ہدایت کی راہنمائی فرمائیں گے , وھو علی کل شیئ قدیر وبالإجابۃ جدیر- وہ دعا یہ ہے:- "اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطرالسموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون و إهدني لي لما اختُلِف فيه من الحق بِإذنك إنك تهدي من تشآء إلي صراط مستقيم " ترجمه"اے اللہ !جبریل ومیکائیل واسرافیل کے رب !آسمانوں اورزمین کے پیداکرنے والے ! غیب اورحاضرکے جاننے والے تو اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے , اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں , جس چیزمیں اختلاف ہے اس میں تو مجھے اپنے حکم سے حق کی ہدایت دے , بے شک تو جس کوچاہے سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے