شب برات كا جشن اور اس كاحكم
اس اللہ تعالى كى تعريف ہے جس نے ہمارے ليے دن كو مكمل كيا، اورہم پر اپنى نعمتيں پورى كيں، اور اس كے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلامہو جو رحمۃ للعٰلمین ہیں۔اما بعد: اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمانہے: ميں نے آج كے دن تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپناانعام بھر پور كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں۔المائدۃ ( 3 ). اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے: كيا انلوگوں نے ( اللہ تعالى كے ) ايسے شريك ( مقرر كر ركھے ) ہيں جنہوں نے ايسے احكامدين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ تعالى كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں ۔الشورى ( 21 ). اور بخارى و مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نياكام ايجاد كيا جو ( درا اصل) اس ميں سے نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے " اورصحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلمخطبہ جمعہ ميں كہا كرتے تھے: " اما بعد: بلا شبہ سب سے بہتر كلام اللہتعالى كى كتاب ہے، اور سب سے اچھا اور بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے،اور سب بے برا كام بدعت اور دين ميں نيا كام ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے " اس معنى كى آيات اور احاديث تو بہت سارى ہيں ليكن اسى پر اكتفا كرتے ہيں. يہ آيات اور احاديث اس بات كى صريح اور واضح دليل ہيں كہ اللہ سبحانہوتعالى نے اس امت كا دين مكمل كر ديا ہے، اور اس پر اپنا انعام بھى مكمل كر ديا،اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دين حنيف كو پورى اور مكمل طور پر پہنچانے كےبعد ہى فوت ہوئے، اور انہوں نے اقوال، اعمال ميں سے ہر وہ چيز امت كے سامنے بيان كردى جو اللہ تعالى نے ان كے ليے مشروع كى تھى. اور نبى كريم صلى اللہ عليہوسلم يہ واضح كر ديا كہ: ان كے بعد لوگ اقوال و اعمال ميں سے جو بھى دين ميں نياكام ايجاد كر كے اسلام كى طرف منسوب كرينگے وہ سب ناقابل قبول ہے، اور اسے ايجادكرنے والے پر واپس پلٹا ديا جائے گا، چاہے اس كا مقصد كتنا ہى نيك اور اچھا ہى كيوںنہ ہو. رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو يہ اچھى طرح معلومتھا، اور اسى طرح ان كے بعد علماء اسلام كو بھى اسى ليے انہوں نے بدعات و خرافات كىبيخ كنى كى اور اس كا انكار كيا، اور لوگوں كو اس سے ڈرايا، جيسا كہ سنت نبويہ كىتعظيم اور بدعت كى بيخ كنى كرنے والے ہر مصنف نے اسے ذكر بھى كيا ہے، مثلا ابن وضاحا ور طرطوشى اور ابن شامۃ وغيرہ. بعض لوگوں نے جن بدعات كو ايجاد كر ليا ہےان بدعات ميں ماہ شعبان كے نصف يعنى پندرويں رات كو شب برات كا جشن منانا بھى شاملہے، اور شعان كى پندرہ تاريخ كا دن روزہ ركھنے ليے خاص كرنا ہے، حالانكہ اس كى كوئىايسى دليل نہيں ملتى جس پر اعتماد كيا جائے. اس كے متعلق جتنى بھى احاديثوارد ہيں وہ سب ضعيف ہيں جن پر اعتماد كرنا جائز نہيں، اور اس رات ميں نفلى نماز كىادائيگى كى فضيلت ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب موضوع اور جھوٹى روايات ہيں، جيساكہ بہت سے اہل علم نے اس پر متنبہ بھى كيا، ان ميں بعض اہل علم كى كلام آگے بيان كىجائيگى، ان شاء اللہ. اوراس ميں اہل شام وغيرہ سے بعض آثار بھى بيان كيےجاتے ہيں، جمہور علماء كے ہاں شب برات كا جشن منانا بدعت ہے، اور اس كے متعلق جتنىبھى احاديث روايت كى جاتى ہيں وہ سب ضعيف اور ان ميں سے بعض تو موضوع اور من گھڑتہيں، اس پرمتنبہ كرنے والوں ميں حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نےاپنى كتاب " لطائف المعارف " ميں تنبيہ كى ہے. اور جو عبادات صحيح دلائل سےثابت ہيں ان ميں ضعيف احاديث پر عمل كيا جا سكتا ہے، ليكن شب برات كا جشن منانے ميںتو صحيح دليلوارد ہى نہيں تا كہ ضعيف احاديث كو بھى ديكھا جا سكے. امامابو العباس شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى يہ عظيم قاعدہ ذكر كيا ہے. علماء كرام اس متفق ہيں كہ جن مسائل ميں لوگوں كا تنازع ہو اسے كتاب اللہاور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانا واجب ہے، اور كتاب اللہ اور سنترسول دونوں يا دونوں ميں سے ايك جو بھى فيصلہ كر ديں وہ شريعت ہے اور اس پر عملكرنا واجب ہے. اور جس كى كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم مخالفكريں اسے پھنك دينا اور اس پر عمل نہ كرنا واجب ہے، اور جو عبادات كتاب اللہ اورسنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نہ ہوں وہ بدعات ہيں ان پر عمل كرنا جائز نہيں، چہجائيكہ ان كى دعوت دى جائے، اور انكى مدح سرائى كى جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالىكا فرمان ہے: اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلماور تم ميں سے اختيار والوں كى، پھر اگر كسى چيز ميں اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالىاور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تمہيں اللہ تعالى اور يومآخرت پر ايمان ہے، يہ انجام كے لحاظ سے بہت اچھا اور بہتر ہے ۔ النساء ( 59 ). اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے: اور جس چيز ميں بھى تمہارااختلاف ہو اس كا فيصلہ اللہ تعالى ہى كى طرف ہے ۔الشورى ( 10 ).اور ايكمقام اللہ تعالى كا ارشاد ہے: كہہ ديجئے! اگر تم اللہ تعالى سے محبت ركھتےہو تو ميرى تابعدارى اور اطاعت كرو خود اللہ تعالى تم سے محبت كرے گا اور تمہارےگناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ۔آل عمران ( 31 ). اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا ارشاد ہے: قسم ہے تيرے رب كى! يہاس وقت تك مومن نہيں ہو سكتے جب تك كہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليمنہ كرليں، پھر آپ ان ميں جو فيصلہ كر ديں اس ميں وہ اپنے دل ميں كسى طرح تنگى اورناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں ۔النساء ( 65. اسمعنى اور موضوع كى آيات بہت زيادہ ہيں، اور يہ آيات اختلافى مسائل كو كتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كرنے اور پھر ان كے فيصلہ پر رضامندى كےوجوب پر واضح نص ہيں، اور يہى ايمان كا تقاضا ہے، اور بندوں كے ليے جلد يا بديربہتر بھى ہے: اور انجام كے لحاظ سے بہتر ہے . يعنى اس كا انجام اچھا ہے. حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " لطائف المعارف " ميں مندرجہ بالاكلام كے بعد اس مسئلہ كے متعلق كہتے ہيں: ( اور شعبان كى پندرويں رات ( يعنى شب برات ) اہل شام ميں سے خالد بن معدان، اور مكحول، اور لقمان بن عامر وغيرہكى تعظيم كرتے اور اس رات عبادت كرنے كى كوشش كرتے، اور لوگوں نے ان سے ہى اس راتكى فضيلت اور تعظيم كرنا سيكھى. اور ايك قول يہ ہے كہ: انہيں اس سلسلہ ميںكچھ اسرائيلى آثار پہنچے تھے، ... اور حجاز كے اكثر علماء كرام نے اس كا انكار كياہے جن ميں عطاء، ابن ابى مليكہ شامل ہيں، اور عبد الرحمن بن زيد بن اسلم نے اسےفقھاء مدينہ سے نقل كيا ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ كے اصحاب وغيرہ كا يہى قول ہے،ان كا كہنا ہے: يہ سب كچھ بدعت ہے... اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے شب برات كےبارہ ميں كوئى كلام معلوم نہيں ہے.. ) حافظ رحمہ اللہ نے يہاں تك كہا ہے كہ: شب برات ميں نفلى نماز اور شب بيدارى كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور انكے صحابہ سے كچھ بھى ثابت نہيں ہے ) . حافظ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى كىكلام كا مقصود ختم ہوا. اور اس ميں انہوں نے يہ صراحتا بيان كيا ہے كہ شببرات كے سلسلے ميں نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كچھ ثابت ہے اور نہ ہىصحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے. اور جس چيز كا شرعى دلائل سے مشروع ہونا ثابتنہ ہو؛ كسى بھى مسلمان كے ليے جائز نہيں كہ وہ اسے دين ميں ايجاد كرتا پھرے، چاہےوہ كام انفرادى كيا جائے يا پھر اجتماعى، يا پھر وہ اس كام كو خفيہ طور پر انجام دےيا اعلانيہ طور پر كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " جسنے بھى كوئى ايسا كام ايجاد كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل ناقابل قبولاورمردود ہے " اس كے علاوہ دوسرے ان دلائل كى بنا جن ميں بدعت سے بچنے كاكہا گيا ہے اور اسے منكر قرار ديا گيا ہے. امام ابو بكر الطرطوشى رحمہ اللہتعالى اپنى كتاب " الحوادث والبدع " ميں كہتے ہيں: ( ابن وضاح نے زيد بناسلم رحمہ اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے كہا: ہم نے اپنےاساتذہ اور فقھاء ميں سے كسى ايك كو بھى شب برات كى طرف ملتفت ہوتے نہيں پايا، اورنہ ہى وہ مكحول رحمہ اللہ كى روايت كى طرف التفات كرتے تھے، اور نہ ہى وہ شب براتكى باقى راتوں پر كوئى فضيلت سمجھتے تھے. اور ابن ابى مليكۃ رحمہ اللہتعالى كو كہا گيا كہ: زياد النميرى يہ كہتے ہيں كہ: شعبان كى پندرويں رات كااجروثواب ليلۃ القدر جتنا ہے، تو ابن ابى مليكۃ رحمہ اللہ كہنے لگے: اگرميں اس سے يہ سنوں اور ميرے ہاتھ ميں چھڑى ہو تو ميں اسے زدكوب كروں، اور زياد قصہگو شخص تھا ) انتہى المقصودعلامہ شوكانى رحمہ اللہ تعالى " الفوائدالمجموعۃ " ميں كہتے ہيں: ( يہ حديث: اے على جس نے شعبان كى پندرويں رات كوايك سو ركعت ادا كيں اور ہر ركعت ميں سورۃ الفاتحۃ اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہاحد ) دس بار پڑھى تو اللہ تعالى اس كى ہر ضرورت پورى كرے گا... الخ" يہحديث موضوع يعنى نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ اور بہتان ہے اور اس كے الفاظ ميںـ يہ صراحت ہے كہ اسے پڑھنے والا كتنا اجروثواب حاصل كرتا ہے ـ وہ كچھ ہے جس سے ايكتمييز كرنے والے شخص كو اس كے موضوع ہونے ميں كوئى شك نہيں ہوتا، اور اس كے رجالمجھول ہيں، اور يہ ايك دوسرے طريق سے بھى مروى ہے جو سارا موضوع ہے، اور اس كے راوىبھى مجھول ہيں ). اور " المختصر " ميں ہے كہ: شعبان كى پندرويں راتوالى حديث باطل ہے، اور ابن حبان ميں على رضى اللہ تعلى عنہ سے حديث مروى ہے: " جب شعبان كى پندرويں رات ہو تو اس رات قيام كرو اور دن كو روزہ ركھو" يہ حديث ضعيف ہے. اور " اللآلى " ميں ہے كہ: شعبان كى پندرويں راتدس بار سورۃ اخلاص كے ساتھ سو ركعت ... يہ موضوع ہے، اور اس حديث كے تينوںطرق ميں اكثر راوى مجھول اور ضعيف ہيں، ان كا كہنا ہے: اور بارہ ركعت ميں تيس بارسورۃ اخلاص، يہ بھى موضوع ہے، اور چودہ بھى موضوع ہے. اس حديث سے فقھاء كىاكثر جماعت دھوكہ كھا گئى ہے مثلا: ( الاحياء) وغيرہ كا مصنف اور اسى طرح مفسرينميں سے بھى، اور اس رات كى نماز " يعنى شب برات نماز " كے بارہ ميں مختلف قسم كىمختلف طريقوں سے روايات بيان كى گئى ہيں جو سب كى سب باطل اور موضوع ہيں. انتہىاور حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ( شب برات كى نفلى نمازكے متعلق حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ اور بہتان ہے ). امام نووى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المجموع " ميں رقمطراز ہيں: ( صلاۃ رغائب كے نام سے جو نماز معروف ہے وہ بارہ ركعات ہيں جو رجب كے پہلےجمعہ كو مغرب اور عشاء كے مابين ادا كى جاتى ہيں، اور شب برات ميں ادا كى جانے والىسو ركعت، يہ دونوں نمازيں بدعت اور منكر ہيں، اسے كتاب " قوت القلوب " اور " احياءعلوم الدين " ميں ذكر كرنے سے دھوكہ نہيں كھانا چاہيے، اور نہ ہى اس سلسلے ميںروايت كى جانے والى حديث سے دھوكہ كھانا چاہيے، كيونكہ يہ سب باطل ہے، اور نہ ہىبعض ان مصنفين سے دھوكہ كھانا چاہيے جن پر اس كا حكم مشتبہ ہو چكا ہے جس كى بنا پرانہوں نے اس كے مستحب ہونے ميں كئى ايك اوراق سياہ كر ڈالے ہيں، يہ سب كچھ غلط ہے ). اور امام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعيل المقدسى رحمہ اللہ تعالى نے اسكے ابطال اور رد ميں ايك بہت ہى نفيس كتاب لكھى ہے، اور انہوں نے اس سلسلے ميں بہتكاميابى بھى حاصل كى اور اچھى كلام كى ہے، اس مسئلہ ميں اہل علم كى كلام بہت زيادہہے، اگر ہم اس مسئلہ ميں اہل علم كى سارى كلام كو ذكر كرنے لگيں تو يہ سلسلہ بہتطويل ہو جائے گا، جو كچھ ہم نے مندرجہ بالا سطور ميں ذكر كيا ہے وہى كافى ہے، اورحق تلاش كرنے والے كے ليے اسى ميں اطمنان ہے. اور پر جو آيات اور احاديثاور اہل علم كا كلام بيان ہوا ہے، حق كے متلاشى كے ليے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ شببرات كو شب بيدارى كرنا اور اس رات نفلى نماز وغيرہ دوسرى عبادات ادا كرنا، اورپندرہ شعبان كو روزے كے ليے خاص كرنا اكثر اہل علم كے ہاں ايك منكر بدعت ہے، شريعتمطہرہ ميں اس كى كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى. بلكہ يہ ان بدعات اورايجادات ميں شامل ہوتى ہے جو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كے دور كے بعدايجاد ہوئيں، اس سلسلے ميں حق كے متلاشى كے ليے اللہ سبحانہ وتعالى كى مندرجہ ذيلفرمان ہى كافى ہے: (آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے ). اور اس موضوع كى دوسرى آيات جن ميں اس موضوع كو بيان كيا گيا ہے. اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " جس نے ہمارے اسدين ميں كوئى ايسا عمل ايجاد كيا جو اصلا اس دين ميں نہيں تو وہ ناقابل قبول اورمردود ہے " اور اس موضوع كى دوسرى احاديث، اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضىاللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " راتوں ميں جمعہ كى رات كو قيام الليل كے ليے خاص نہ كرو، اور نہ ہى جمعہكا دن باقى دنوں سے روزہ كے ليے خاص كرو، الا يہ كہ اگر وہ دن اس كے روزہ ركھنے كىعادت كے موافق ہو" اگر كسى راتوں ميں كسى رات كو عبادت كے ليے خاص كرناجائز ہوتا تو وہ رات جمعہ كى ہوتى جو كہ دوسرى راتوں سے اولى اور بہتر ہے، كيونكہجمعہ كا دن سب سے بہترين دن ہے جس ميں سورج طلوع ہوتا ہے، اس كا ذكر نص حديث ميںبيان كيا گيا ہے. جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے راتوں ميں اس رات كوخاص كرنے سے بچنے كا كہا تو يہ اس كى دليل ہے كہ عبادت كے ليے دوسرى راتوں كوبالاولى خاص كرنا جائز نہيں، ليكن اگر اس تخصيص كى كوئى دليل مل جائے تو جائز ہے. جب رمضان المبارك كى راتيں اور ليلۃ القدر ميں قيام كرنا مشروع تھا تو نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس قيام پر امت كو ابھارا، اور خود بھى اس پر عمل كيا. جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپنے فرمايا: " جس نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيامكيا اس كى پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں " " اور جس نے ليلۃ القدركا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں " لہذا اگر شعبان كى پندرويں رات ( جسے عام طور پر شب برات كا نام ديا جاتاہے ) يا پھر رجب كے پہلے جمعہ كى رات، يا اسراء و معراج كى رات ( جسے شب معراج كانام ديا جاتا ہے ) كى عبادت كے ليے تخصيص مشروع ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہوسلم امت كو اس كى بھى راہنمائى فرماتے يا پھر خود اس پر عمل كرتے، اور اگر اس ميںسے كچھ ہوا ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ان سے نقل بھى كرتے، اور ہمسے كچھ بھى نہ چھپاتے كيونكہ انبياء كے بعد صحابہ كرام لوگوں ميں سے سب سے زيادہنصيحت كرنے والے اور خير خواہ اور بھلائى كرنے والے تھے، اللہ تعالى ان سب سے راضىہو. اور اب آپ نے علماء كرام كى كلام سے معلوم كر ليا ہے كہ: نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام سے نہ تو رجب كے پہلے جمعہ كى فضيلت ميں اورنہ ہى شعبان كى پندرويں رات ( شب برات ) كى فضيلت ميں كچھ ثابت ہے، تو اس سے يہمعلوم ہوا كہ ان دونوں راتوں كا جشن منانا اسلام ميں نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اوراسى طرح ان راتوں كو عبادت كے ليے خاص كرنا بدعت منكرہ ہے، اور اسى طرح رجب كىستائيسويں رات جس كے بارہ ميں لوگ اسراء و معراج كى رات كا اعتقاد ركھتے ہيں انراتوں كو عبادت كے ليے خاص كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح مندرجہ بالا دلائل كى بناپر اس رات كو جشن منانا بھى جائز نہيں ہے. يہ تو اس وقت ہے جب اس رات كاعلم ہو جائے، اور علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق تو اس رات كا علم ہى نہيں؟! اور جو شخص يہ كہتا ہے كہ: يہ رات رجب كى ستائيسويں رات ہے، يہ قول باطلہے احاديث صحيحہ كى روشنى ميں اس كى كوئى اساس اور دليل نہيں ملتى. كسىعربى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے: سب سے بہتر اور اچھے امور وہ ہيں جو ہدايتپر ہوں، اور برے امور نئى ايجاد كردہ بدعات ہيں. اللہ تعالى سے دعا ہے كہوہ ہميں اور سب مسلمانوں كو كتاب و سنت پر عمل كرنے كى توفيق عطا فرمائے، اور اس پرثابت قدم ركھے، اور كتاب و سنت كى مخالفت سے ہميں بچا كر ركھے، يقينا اللہ تعالىبڑا سخى اور كرم والا ہے. اللہ تعالى اپنے بندے اور رسول ہمارے نبى محمدصلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور سب صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازلفرمائے.انتہىماخوذ از : مجموع فتاوى فضيلۃالشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز ( 2 / 882 ) كچھ كمى و بيشى اور اختصار كےساتھ. بشكريه: مِن الاسلام سوالوجواب |
|