بریلوی حضرات کے بہت سے ایسے عقائد ہیں' جن کا قرآن وحدیث سے کوئی واسطہ و ناطہ نہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ خود کو اہل سنت کہلانا پسند کرتے ہیں اور اس میں ذرا سی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نور کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائرہ انسانیت سے خارج کرکے نوری مخلوق میں داخل کردیتے ہیں۔
یہ غیر منطقی عقیدہ ہے اور عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہے۔ شریعت اسلامیہ سادہ اور عام فہم شریعت ہے۔ اس قسم کے ناقابل فہم اور خلاف عقل عقائد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
لہٰذا قرآنی آیات میں اس بات کی واضح تصریح موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ اور اسی طرح قرآن ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ کفار سابقہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی رسالت پر جو اعتراضات کرتے تھے' ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر کو اپنی ترجمانی کے لیے منتخب فرمالیا ہو اور اس کے سر پر تاج نبوت رکھ دیا ہو؟ اس کام کے لیے ضروری تھا کہ اللہ نوری مخلوق میں سے کسی فرشتے کو منتخب فرماتا۔ تو گویا انبیاء و رسل علیہم السلام کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ہدایت میں مانع قرار دیا ہے۔
ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی بشر رسول نہیں ہوسکتا' عقیدہ کفار تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کفار کہتے تھے' بشریت رسالت کے منافی ہے۔ اور بریلویت کے پیروکار یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسالت بشریت کے منافی ہے۔ بہرحال اس حد تک دونوں شریک ہیں کہ بشریت و رسالت کا اجتماع ناممکن ہے۔ اب اس سلسلے میں قرآن کی آیات ملاحظہ فرمائیے
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً (الإسراء94 )
"اور نہیں منع کیا گیا لوگوں کو یہ کہ ایمان لائیں جس وقت آئی ان کے پاس ہدایت' مگر یہ کہ انہوں نے کہا بھیجا اللہ نے بشر کو پیغام پہنچانے والا۔"
اللہ نے اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے فرمای
قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً (الإسراء 95 )
"اگر ہوتے بیچ زمین کے فرشتے' چلا کر آرام سے' البتہ اتارتے ہم اوپر ان کے آسمانسے فرشتے کو پیغام پہنچانے والا۔"
قَالُواْ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (إبراهيم 10
"کہا انہوں نے نہیں ہو تم مگر بشر مانند ہمارے' ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ بند کروہم کو اس چیز سے کہ تھے عبادت کرتے باپ ہمارے۔ پس لے آؤ ہمارے پاس دلیل ظاہر۔"
جواباً پیغمبروں نے اپنی بشریت کا اثبات کرتے ہوئے ان کی تردید فرمائی
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (إبراهيم 11
"کہا واسطے ان پیغمبروں ان کے نے' نہیں ہم مگر آدمی مانند تمہاری لیکن اللہ احسان کرتا ہے اوپر جس کے چاہے اپنے بندوں سے۔"
نیز
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءهَا الْمُرْسَلُونَ ، ِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ، مَا أَنتُم اِلَّا بَشَرٌ مِّثلُنَا۔ (يس 13,14, 15
"اور بیان کر واسطے ان کے ایک مثال رہنے والے گاؤں کی جس وقت کہ آئے ان کے پاس بھیجے ہوئے۔ جب بھیجے ہم نے طرف ان کی دو پیغمبر' پھر جھٹلایا انہوں نے ان دونوں کو' پس قوت دی ہم نے ساتھ تیسرے کے ۔ پس کہا انہوں نے تحقیق ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ہو تم مگر ہمارے جیسے بشر۔"
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے پیروکاروں کے حوالہ سے فرمایا
ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ،إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْماً عَالِينَ ،فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ
لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا
(المؤمنون 47۔45
"پھرہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں سمیت بھیجا فرعون اور اس کے لشکر کی طرف۔ انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش بن گئے۔ کہنے لگے' کیا ہم اپنے جیسے دوانسانوں پر ایمان لے آئیں؟"
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ , إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ (المؤمنون
"کہنے لگے یہ (شخص) اور ہے کیا بجز اس کے کہ تمہارے ہی جیسا انسان ہے۔ چاہتا ہے کہ تم سے برتر ہو کر رہے اور اگر اللہ چاہتا تو وہ فرشتوں کو بھیجتا' ہم نے یہ بات اپنے پہلےبڑوں سے سنی ہی نہیں۔ وہ تو ایک آدمی ہے' جسے جنون ہے۔ پس ایک وقت تک اس کا انتظار کرو۔"
نیز
مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَراً مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذاً لَّخَاسِرُونَ (المؤمنون 33۔34 )
کہ " یہ تو بس تمہاری ہی طرح کا ایک آدمی ہے۔ وہی کھاتا ہے' جو تم کھاتے ہو۔ اور وہی پیتا ہے' جو تم پیتے ہو۔ اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے بشر کی راہ قبول کرلی' تو تم نرے گھاٹے ہی میں رہے۔"
اور اصحاب ایکہ نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کو اسی طرح کہا تھ
وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (الشعراء 186 )
"اورتم بھی کیا ہو' بجز ہمارے ہی جیسے ہی ایک آدمی کے۔ اور ہم تم کو جھوٹوں میں سمجھتے ہیں" اور کفار مکہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھ
وَأَسَرُّواْ النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ (الأنبياء 3 )
"اوریہ لوگ یعنی ظلم کار اپنی سرگوشیوں کو چھپاتے ہیں کہ یہ تو محض تم جیسے ایک آدمی ہیں' تو کیا تم جادو"کی بات" سننے جاؤگے؟ درآنحالیکہ تم سمجھ بوجھ رہے ہو"
اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دی
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الأنبياء 7 )
"اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے مردوں ہی کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا جن پر وحی کرتے رہے ہیں' سو تم اہل کتاب سے پوچھ دیکھو اگر تم علم نہیں رکھتے۔"
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِد (الكهف 110)
"آپ کہہ دیجئے کہ میں تو بس تمہارے ہی جیسا بشر ہوں' میرے پاس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔"
اور
قُلْ سُبحَانَ رَبِّی ھَل کُنتَ اِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا۔ (بنی اسرائیل93)
"آپ کہہ دیجئے کہ پاک ہے اللہ۔ میں بجز ایک آدمی (اور) رسول کے اور کیا ہوں؟"
خود اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
لَقَد مَنَّ اللہَ عَلَی المُومِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولًا مِّن اَنفُسِھِم۔ (آل عمران164)
"حقیقت میں اللہ نے بڑا احسان مسلمانوں پر کیا' جبکہ انہی میں سے ایک پیغمبر ان میں بھیجا"
لَقَد جَاءَکُم رَسُولٌ مِّن اَنفُسِکُم۔ (براء ت128)
"بے شک تمہارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں' تمہاری جنس میں سے"
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا (البقرة 151 )
"(اسی طرح) جیسے ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم ہی میں سے بھیجا' جو تمہارے روبرو ہماری آیتیں پڑھتا ہے۔"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق فرمای
"انما انا بشر مثلکم انسٰی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی۔ (بخاری)
یعنی"میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جس طرح تم بھول جاتے ہو' میں بھی بھول جاتا ہوں۔ پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادیا کرو۔"
اس مسئلہ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فیصلہ بھی سن لیجئے
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر کے سوا کوئی دوسری مخلوق نہ تھے۔ اپنے کپڑے دھوتے' اپنی بکری کا دودھ دھوتے اور اپنی خدمت آپ کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی فتح الباری)
اور خود بریلویوں کے خان صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ایک روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای
"ہر شخص کی ناف میں اس مٹی کا کچھ حصہ موجود ہے' جس سے اس کی تخلیق ہوئی ہے' اور اسی میں وہ دفن ہوگا۔ اور میں ابوبکر اور عمر ایک مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے۔"
یہ ہیں قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم' منکرین کے عقائد کے بالکل برعکس۔ بریلوی حضرات انبیاء ورسل کی نبوت و رسالت کا انکار تو نہ کرسکے' مگر انہوں نے کفار و مشرکین کی تقلید میں ان کی بشریت کا انکار کردیا۔ حالانکہ انسانیت کو رسالت کے قابل نہ سمجھنا انسانیت کی توہین ہے' اور اس عقیدے کے بعد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ یہ خلاف عقل بات ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے افضل بھی ہو اور پھر اس میں نبوت و رسالت کی اہلیت بھی موجود نہ ہو۔ مگر بریلویت چونکہ ایسے متضاد افکار اور خلاف فطرت عقائد کے مجموعے کا نام ہے، جنہیں سمجھنا عام انسان کے بس سے باہر ہے' اس لیے اس کے پیروکاروں کے ہاں اس قسم کے عقائد ملیں گے۔ انہی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ بریلوی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور خداوندی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بریلویت کے ایک امام لکھتے ہیں
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور سے ہیں اور ساری مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ہے۔"
مزید ارشاد ہوتا ہے
"بے شک اللہ ذات کریم نے صورت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نام پاک بدیع سے پیدا کیا اور کروڑہا سال ذات کریم اسی صورت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا رہا۔ اپنے اسم مبارک منّان اور قاہر سے' پھر تجلی فرمائی اس پر اپنے اسم پاک لطیف ' غافر سے۔"
خود بریلویت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار میں بہت سے رسالے تحریر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک رسالے کا نام ہے "صلٰوۃ الصفا فی نورالمصطفیٰ" اس کا خطبہ انہوں نے شکستہ عربی میں لکھا ہے۔ اس کا اسلوب عجیب و غریب اور ناقابل فہم ہے۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے
اے اللہ تیرے لیے سب تعریفیں ہیں۔ تو نوروں کا نور ہے۔ سب نوروں سے پہلے نور' سب نوروں کے بعد نور۔ اے وہ ذات جس کے لیے نور ہے' جس کے ساتھ نور ہے' جس سے نور ہے' جس کی طرف نور ہے اور جوخود نور ہے۔ درود وسلامتی اور برکتیں نازل فرما اپنے روشن نور پر جسے تو نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور پھر اس کے نور سے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ اور سلامتی فرما اس کے نور کی شعاعوں پر' اس کی آل' اصحاب اور اس کے چاندوں پر۔"
اس غیر منطقی اور بعید از فہم خطبے کے بعد انہوں نے ایک موضوع اور خود ساختہ روایت سے استدلال کیا ہے ۔ چنانچہ
حافظ عبدالرزاق کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے مصنف عبدالرزاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایاے جابر' بے شک بالیقین اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے قدرت الٰہی سے جہاں خدا نے چاہا' دورہ کرتا رہا۔ اس وقت لوح و قلم' جنت و دوزخ' فرشتگان' آسمان'زمین'سورج'چاند'جن'آدمی کچھ نہ تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے فرمائے۔ پہلے سے قلم' دوسرے سے لوح' تیسرے سے عرش بنایا' پھر چوتھے کے چار حصے کئے۔
یہ موضوع حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
"اس حدیث کو امت نے قبول کرلیا ہے۔ اور امت کا قبول کرلینا وہ شئے عظیم ہے جس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی' بلکہ ضعیف سند بھی ہو تو بھی حرج نہیں کرتی۔"
خاں صاحب بریلوی اس امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہے تو خیر' اور اگر ان سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے' تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتاکہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔ اور پھر یہ کس نے کہا کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سنددیکھنے کی حاجت نہیں رہتی؟
اور یہ روایت تو قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ کے صریح خلاف ہے۔ اور پھر تمام واقعات و شواہد اس غیراسلامی و غیرعقلی نظریئے کی تردید کرتے ہیں۔ اس لیی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے انسانوں کی طرح اپنے بابا عبداللہ بن مطلب کے گھر پیدا ہوئے' اپنی والدہ آمنہ کی گود میں پلے' حلیمہ سعدیہ کا دودھ نوش فرمایا' ابوطالب کے گھر پرورش پائی' حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا' عائشہ رضی اللہ عنہا' زینب رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہن اور دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے شادی فرمائی۔ پھر مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی اور کہولت کے ایام گزارے' مدینہ منورہ ہجرت کی' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بیٹوں ابراہیم'قاسم'طیب'طاہر'اوربیٹیوں زینب رضی اللہ عنہا' رقیہ رضی اللہ عنہا' ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ' حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر' حضرت ابوالعاص' حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے داماد بنے۔ حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ حضرت صفیہ اور حضرت اروی رضی اللہ عنہما آپ کی پھوپھیاں تھیں اور دوسرے اعزاء و اقارب تھے۔
ان ساری باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان ہونے کا انکار کس قدر عجیب اور کتنی غیر منطقی بات ہے؟
کیا مذہب اسلام اس قدر متضاد اور بعید از قیاس عقائد کا نام ہے؟
ان نظریات اور عقائد کی طرف دعوت دے کر آپ غیر مسلموں کو کس طرح قائل کرسکیں گے؟
ان عقائد کی نشر واشاعت سے دین اسلام کیا ناقابل فہم مذہب بن کر رہ جائے گا؟
دراصل بریلویت مجموعہ جہالت ہونے کے ساتھ ساتھ تشیع اور باطنی مذاہب سے متاثر نظر آتی ہے۔ عجیب و غریب تاویلات اور حلول و تناسخ کے عقائد یہودیت اور یونانی فلسفہ سے باطنی مذاہب' اور پھر وہاں سے تصوف اور بریلویت کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ اب ان لوگوں کی نصوص و عبارات سنئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھتے ہیں
نیست او خدا لیکن از خدا ہم نیست
مظہر صفات اللہ شاہ جاں نواز آمد
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے
از تو پیدائش از تو ہویدا عرش و کرسی
از تو حوا از آدم صلی اللہ علیہ وسلم
تو گویا آدم و حوا' جن و انس' عرش و کرسی ہر چیز نور محمدی کا حصہ ہے۔ اس عقیدے میں باطنیت اور یونانی فلسفہ صاف طور پر مترشح ہے۔ جناب بریلوی فرماتے ہیں
"فرشتے آپ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں' کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ نے ہر چیز میرے ہی نور سے پیدا فرمائی۔"
مزید لکھتے ہیں
"مرتبہ ایجاد میں صرف ایک ذات مصطفیٰ ہے' باقی سب پر اس کے عکس کا فیض وجود مرتبہ کون و مکان میں نور احمد آفتاب ہے اور تمام عالم اس کے آئینے اور مرتبہ تکوین میں نور احمدی آفتاب اور سارا جہاں اس کے آبگینے۔"
اس عبارت کا ایک ایک لفظ واضح کررہا ہے کہ یہ عقیدہ یونانی فلسفے اور باطنیت سے ماخوذ ہے اور وحدۃ الوجود کی ایک صورت ہے۔ اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جناب بریلوی کی ایک اور عبارت سنئے
"عالم نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائے وجود میں محتاج تھا کہ وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ بنتا۔ یوں ہی ہر شئے اپنی بقا میں اس کی دست گر ہے۔ آج اس کا قدم درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعتاً فنائے محض ہوجائے۔ وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو۔"
اندازہ فرمائیے اس قسم کے عقائد قرآنی تصورات سے کس قدر بعید ہیں؟ قرآن کریم کی کسی آیت میں بھی اس طرح کے باطنی تصورات اور فلسفیانہ افکار ونظریات کا وجود نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔مگر اس قسم کے عقائد کو اگر نکال لیں' تو بریلویت " دفعتاً فنائے محض" ہوجائے۔
احمد رضا خان بریلوی اپنے ایک اور رسالے کے خطبے میں لکھتے ہیں
"تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے تمام اشیا سے قبل ہی ہمارے نبی کا نور پیدا فرمایا۔ پھر مقام انوار آپ کے ظہور کی کرنوں سے پیدا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوروں کے نور ہیں۔ تمام سورج اور چاند آپ سے روشنی حاصل کرتے ہیں اسی لیے رب کریم نے آپ کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو سورج روشن نہ ہوتا' دن رات کی تمیز نہ ہوسکتی اور نہ ہی نمازوں کے اوقات کا پتہ چلتا۔"
ملاحظہ کیجئے' کس طرح الفاظ کے تصرف کو عقائد کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ مزید نقل کرتے ہیں
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا اور آپ محض نور تھے۔ جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔"
ان کے اشعار بھی تو سنتے جائیے
"تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا"
یعنی نہ صرف یہ کہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار کیا' بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد کو نوری مخلوق قرار دے دیا۔
اس قسم کے باطنی عقائد کی وجہ سے ہی ان کے اندر عقیدہ حلول سرایت کرگیا' اور اسی بنا پر یہ لوگ یہود و نصاریٰ کے عقائد کو اسلامی عقائد میں داخل کرکے دین اسلام کی تضحیک کے مرتکب ہوئے۔ چنانچہ بریلوی شاعر کہتا ہے
"وہی ہے جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشری صفات سے متصف ہونے کے باوجود نور ہونا کسی بھی شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ چنانچہ اس نظریے کے ناقابل فہم ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بریلویت کے پیروکار لکھتے ہیں
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور نہ ہی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ بس بغیر سوچے سمجھے اسی پر ایمان لانا فرض ہے۔"
یعنی عقل و فکر اور فہم و تدبر سے کام لینے کو کوئی ضرورت نہیں' کیونکہ غور و فکر کرنے سے بریلویت کی ساری عمارت منہدم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسے قائم رکھنے کے لئے سوچ وبچار پر پابندی ضروریات بریلویت میں سے ہے۔
قرآن کی صریح آیات کی تاویل کرتے ہوئے بریلوی حضرات کہتے ہیں
"قل کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ (بَشَرٌ مِثلُکُم) کہنے کی حضور ہی کو اجازت ہے۔"
اب ان سے کون پوچھے کہ "قل" کا لفظ تو آیت کریمہ " قُل اِنَّمَا اِلٰھُکُم اِلٰہٌ وَّاحدٌ" میں بھی ہے۔ تو" کیا اللہ ایک ہے" کہنے کی اجازت بھی حضور کے سوا کسی کو نہیں؟
کہتے ہیں
"بشر کہنا کفار کا مقولہ ہے۔"
اگر یہی بات ہے تو معاذ اللہ بخاری شریف کی اس حدیث کا کیا مفہوم ہوگا جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے؟
(حدیث گزرچکی ہے)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان گمراہ نظریات سے محفوظ رکھے آمین