آخری عشرہ کی فضیلت اورلیلۃ القدر
الحمدللہرب العالمین وصلی اللہ علی النبی الامیین محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین : وبعد : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت اوراطاعت پوریکوشش سے کیا کرتے تھے جوباقی مہینوں کی بنسبت زيادہ ہوا کرتی تھی اس کا بیان احادیثمیں کچھ یوں ملتا ہے : عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنی کوشش کیا کرتے تھے جتنیدوسرے دنوں میں نہيں کرتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1175 ) ۔اوراس کوششمیں یہ شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے اوراس میںلیلۃ القدر کی تلاش کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1913 ) صحیح مسلمحدیث نمبر ( 1169 ) ۔اورصحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہےکہ : ( جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیداررہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں بھی بیدار کرتے تھے ) صحیح بخاری حدیثنمبر ( 1920 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1174 ) مسلم کی روایت میں جد کے الفاظ زيادہہیں ۔عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے الفاظ " شد مئزرہ " عبادت کی تیاریاورعادت سے زيادہ عبادت کی کوشش سے کنایہ سے ، اوراس کا معنی عبادت میں تیزی ہے۔اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ یہ عورتوں سے علیحدگي اورجماع ترک کرنے سے کنایہہے ۔عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول " احیا اللیل " کامعنی ہے کہ راتکونماز وغیرہ کے لیے بیدار رہا کرتے تھے ۔ایک اورحدیث میں عائشہ رضي اللہتعالی عنہا سے بھی ثابت ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں : ( مجھے یہ علم نہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبحتک قیام ہی کرتے رہے ہوں ، اوررمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزےرکھے ہوں ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 1641 ) ۔لھذا ان کے قول احیااللیل یعنیرات بیدار رہا کرتے تھے کواس پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم راتکا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ، یا پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمعشاء اورسحری وغیرہ کو نکال کر ساری رات قیام کرتے تھے ، تواس کا معنی یہ ہوگا کہرات کا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ۔قولھا : " وایقظ اھلہ " یعنی قیام اللیلکے لیے اپنی ازواج مطہرات کو بھی بیدار کیا کرتے تھے ، یہ تومعلوم ہی ہے کہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتےتھے ، لیکن یہ صرف رات کےکچھ حصہ میں قیام کےلیے ہوتا تھا ۔صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہوسلم ایک رات بیدار ہوئے اورفرمانے لگے : ( سبحان اللہ آج رات کیا فتنےاتارے گئے ! کیاخزانےنازل کیے گئے ہيں ! ان کمروں والیوں کوکون جگائے گا ؟ دنیا میںبہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1074 ) ۔اورایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر پڑھنا چاہتےہوعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوبیدار کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 952 ) ۔لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گھروالیوںکو باقی سارے سال کی بنسبت زيادہ جگایا کرتے تھے ۔نبی صلی اللہ علیہ کا یہفعل اپنے رب کی اطاعت اوراوقات کا لحاظ اورفضیلت والے دنوں کے اہتمام پر دلالت کرتاہے ۔لھذا مسلمان پرضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءاورپیروی کرے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے لیے آئڈیل اورقدوہ و اسوہہیں اورمسلمان کواللہ تعالی کی عبادت میں کوشش اوراہمتامکرنا چاہیے ، اوراسے چاہیےکہ وہ ان دنوں اور راتوں کے اوقات کوضائع نہ کرے ، اس لیے کہ کسی بھی شخص کو یہ علمنہیں کہ دوبارہ یہ دن اسے نصیب ہونگے یا نہيں ؟ہوسکتا ہے آئندہ رمضان سےقبل ہے لذتوں اورراحتوں کو ختم کرنے والی موت آدبوچے جو سب جماعتوں کے بکھیر کررکھدیتی ہے ، اورپھریہ بات تو یقینی اوراظہرمن الشمس ہے کہ جب کسی شخص کی زندگي ختمہوجائے اوراس کا وقت آپہنچے تواسے موت آدبوچتی ہے ، اورپھر اس وقت کسی بھی قسم کیکوئي ندامت کام نہیں آتی ۔اس عشرے اور دنوں کی فضیلت اورخصوصیت اورباقیدوسرے دنوں سے امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائي جاتی ہے جوہزارمہینوں سے بھی زيادہ بہتر اورافضل ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کچھیوں فرمایا ہے : { حم ، اورکتاب مبین کی قسم ، یقینا ہم نے اس ( قرآن ) کوبابرکت رات میں نازل فرمایا ہے ، یقینا ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہرحکمت والےامر کا فیصلہ کیاجاتا ہے ، ہماری جانب سےہی حکم ہوتا ہے ، یقینا ہم ہی رسول بھیجنےوالے ہیں ، تیرے رب کی رحمت ہے بلاشبہ وہ اللہ سننے والا اورجاننے والا ہے } الدخان ( 1 - 6 ) ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کوایسی رات میں نازل فرمایاجسے رب العالمین نے بابرکت فرمایا اوراسے برکت والی رات کانام دیا ہے ، سلف صالحینکی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ، قتادہ ، سعید بن جبیر، عکرمہ اورمجاھد وغیرہ رحمہم اللہ جمیعا شامل ہيں سے یہ صحیح طور پر منقول ہے کہجس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا وہ لیلۃ القدر ہی ہے ۔اللہ تعالی کافرمان : { اس میں ہرحکمت والاامر کی تقسیم ہوتی ہے } کامعنی ہے کہ : یعنی اس راتمیں مخلوق کی پورے سال کی مقادیر مقدر کی جاتی ہیں ، لھذا یہ لکھا جاتا ہےکہ اس سالمیں کسے موت آئے گي اورکون پیدا ہوگا ، کون ہلاکت سے دوچارہوگا اورکسے نجاتاورکامیابی ملے گی ۔کون سعادت مندوں کی شامل ہوگا اورکسے شقاوت وبدبختوںمیں شمولیت ملے گی ، کون ہے جسے عزت و مرتبہ ملے گا اورکون ہے جسے ذلت ورسوائي کاسامنا کرنا ہوگا ، قحط اورخشک سالی بھی لکھی جاتی ہے اوراس سال میں جوکچھ اللہتعالی چاہے سب کچھ مقدر کردیا جاتا ہے ۔لیلۃ القدر میں مخلوق کی تقدیرلکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ( واللہ اعلم ) کہ لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے اسے منتقلکیا جاتا ہے ۔ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کا قول ہے : دیکھا جاتاہے کہ ایک شخص بستر اورچٹائي بچھا رہا ہے اور کھیتی باڑي میں مصروف ہے حالانکہ وہتوفوت شدگان میں شامل ہے ۔یعنی لیلۃ القدر میں یہ لکھا جاچکا ہےکہ یہ شخصفوت شدگان میں سے ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس رات مقادیرفرشتوں کے لیے واضح ہوجاتی ہیں ۔اور لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والیرات ہے یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے ، یا پھر یہ معنیہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ، قدر کا معنیتنگی بھی کیا گيا ہے ، یعنی اس کی تعیین کاعلم خفیہ رکھا گیا ہے ۔خلیل بناحمد کا کہنا ہے : لیلۃ القدر کوقدر والی رات اس لیے کہتے ہیں کہ : اس رات فرشتوںکی کثرت کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے ، یعنی قدر تنگی کے معنی میں ہے جیسا کہ اللہتعالی کا فرمان ہے : { اورجب اللہ تعالی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تواس پراسکے رزق کو تنگ کردیتا ہے } الفجر ( 16 ) ۔تویہاں پر قدر کا معنی ہے کہ اسکا رزق تنگ کردیا جاتا ہے ۔اورایک قول یہ بھی ہے کہ : لیلۃ القدر القدر کےمعنی میں ہے یعنی دال پر زبر ہے جس کا معنی تقدیر ہے ، وہ اس لیے کہ اس رات میںپورے سال کے احکام کی تقدید لکھی جاتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : { اس رات میں ہر حکمت والے کام کی تقسیم ہوتی ہے } اوراس لیے بھی کہ اسرات میں تقادیر لکھی اوربنائي جاتی ہیں ۔تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالتاورقدرومنزلت اورمقام مربتہ کی بنا پراس کانام لیلۃ القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالیکے ہاں اس رات کی بہت قدر منزلت اورمرتبہ ہے اوراس میں کثرت سے گناہ بخشے جاتے ہیںاورعیوب پرپردہ ڈالا جاتا ہے ، لھذا یہ رات مغفرت کی رات بھی ہے ۔جیسا کہصحیحین کی حدیث میں ہے ، ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جوبھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثوابکی نیت سے قیام کرے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) ۔ صحیح بخاری حدیثنمبر ( 1910 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 760 ) ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس راتکوکچھ خصوصیات سے نوازا ہے : 1 - لیلۃ القدر ميں قرآن مجید کا نزول ہوا ،جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جاچکا ہے ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما وغیرہ کہتےہیں : اللہ سبحانہ وتعالی نےقرآن مجیدیکبارگی اورمکمل طورلوح محفوظ سے آسمان دنیاپربیت العزۃ میں نازل کیا گيا ، پھر اس کے بعد نبوت کی تئيس سالہ زندگي میں حسبضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا گیا ۔دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4/ 529 ) ۔ 2 - اللہ تعالی نے اس کا وصف بیان کیا ہے کہ یہ رات ہزار مہینہسے بھی بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : { قدروالی رات ایک ہزارمہینہ سے بہتر ہے } القدر ( 3 ) ۔ 3 - اللہ تعالی نے اسے بابرکت رات بھیقرار دیا ہے : فرمان باری تعالی ہے : { یقنا ہم نے اس قرآن مجیدکوبابرکت رات میں نازل فرمایا ہے } الدخان ( 3 ) ۔ 4 - اس رات میں فرشتے اورروح نزول کرتے ہیں : یعنی اس رات کی کثرت برکت کی بنا پر فرشتوں کی کثیر تعداد نزولکرتی ہے ، اورپھر فرشتے توبرکت اوررحمت کے نزول کے ساتھ نازل ہوتے ہيں ، جیسا کہقرآن مجید کی تلاوت کے وقت بھی فرشتے اتر کروعظ ونصیحت اورقرآن پڑھنے والوں پرحلقہبنا لیتے ہيں اورسچے طالب کے لیے تعظیما اپنے پر بچھاتے ہیں ۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 4 / 531 ) اورروح جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے اوران کےشرف مرتبہ کی بنا پرصرف انہيں ذکر کیا ہے ۔ 5 - اللہ تعالی نے اس راتکوسلامتی کا وصف بھی دیا ہے ، یعنی یہ رات شیطان سے سلیم رہتی اورشیطان اس میں کچھبھی اذیت پہنچانے اوربرائي کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، جیسا کہ امام مجاھد رحمہاللہ تعالی کابھی یہی قول ہے دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 531 ) ۔اسی طرحاس میں سزا اورعذاب سے بھی سلامتی کثرت سے ہوتی ہے کیونکہ بندہ اللہ تعالی کی اطاعتمیں مشغول رہتا ہے ۔ 6 - اس رات میں ہر حکمت والا کام تقسیم ہوتا ہے : الدخان ( 4 ) یعنی ہرکام لوح محفوظ سے لکھنے والے فرشتوں کی طرف منتقلہوجاتا ہے کہ سارے سال میں اموات اوررزق اورجوکچھ سال کے آخر تک ہوگا وہ سب لوحمحفوظ سے منتقل ہوجاتا ہے ، اورہرامر محکم ہوتا ہے اس میں کسی بھی قسم کا تغیروتبدل نہيں ہوتا ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 137 - 138 ) ۔اوریہ سب کچھپہلے ہی اللہ تعالی نے لکھا ہوا ہے اوراس کا علم بھی پہلے سے ہی اس کے پاس ہے ،لیکن جوکچھ وقوع پزیر ہونے والا ہے وہ فرشتوں پر ظاہر ہوجاتا ہے اوراللہ تعالیانہیں اسے سرانجام دینے کا حکم دیتا ہے اورفرشتوں کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اللہتعالی کے احکامات پرعمل کریں ۔دیکھیں : شرح صحیح مسلم للنووی ( 8 / 57 ) ۔ 7 - لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرنے والے شخصکےپچھلے تمام گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتاہے ، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں بھیاس کا ثبوت پایا جاتا ہے : ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے بھی ایمان اوراجروثواب کینیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ،اورجوشخص بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پچھلےتمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) متفق علیہ ۔قولہ : ( ایمانا واحتسابا ) یعنی اللہ تعالی کے وعدہ اجروثواب کی تصدیق اوراجرحاصل کرنے کے لیے قیام کرے ، نہکہ کسی اورغرض اوریا پھر ریاءوغیرہ کے لیے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 4 / 251 ) ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی شان میں ایک سورۃ نازل فرمائي جوقیامت تکپڑھی جاتی رہے گی ، اس سورۃ میں اللہ تعالی نے اس رات کی قدرومنزلت اورشان کا تذکرہکرتے ہوئے فرمایا : { یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل فرمایا ہے ،توکیا سمجھا کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدر والی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،اس میں ہرکام کوسرانجام دینے کے لیے فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ،یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے} القدر ( 1 - 5 ) ۔لھذا اللہ تعالی کا فرمان : { توکیا سمجھا کہ قدروالی رات کیا ہے } اس راتکی عظمت اورشان بیان کرنے کے لیے ہے ۔قولہ : { قدر والی رات ایک ہزار راتسے بہتر ہے } یعنی اس رات میں کی گئي عبادت تراسی 83 برسوں کی عبادت سے بھی زيادہبہتر ہے ، یہ بہت ہی بڑا فضل ہے جس کی قدر صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے۔اوراس میں مسلمان کے لیے اس رات کی عبادت کرنے میں ترغیب اوراس میں قیامکرنے پرتشجیع بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا کے لیے عبادت کرے ، اسی لیے نبی صلیاللہ علیہ وسلم بھی خاص کراس رات کوبہت زيادہ تلاش کیا کرتے تھے ، اوروہ خیروبھلائيمیں سبقت لےجانے والے اوراپنی امت کے لیے قدوہ و اسوہ اورآئڈیل تھے جنہوں نے اعتکافکرکے اس رات کوتلاشکیا ۔اس رات کو رمضان اورخاص کراس کے آخری عشرہ میںتلاش کرنا مستحب ہے ، اس کا ذکر حدیث میں بھی ملتا ہے : ابوسعید خدری رضیاللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کےپہلے عشرہ کا ایک ترکی قبے ( خیمہ اورگول عمارت کوقبہ کہا جاتا ہے )میں اعتکاف کیااورپھردوسرے عشرے کا اعتکاف کیااس کے دروازے پرچٹائي تھی ۔ابوسعید رضي اللہتعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے چٹائي پکڑ کرقبے کےکی ایک طرف کی اوراپناسرنکال کرلوگوں سے کلام تولوگ ان کے قریب ہوئے توآپ نے فرمایا : ( میں نے یہ رات تلاش کرنے کے لیے پہلا عشرہ اعتکاف کیا پھر درمیانہ عشرہبھی اعتکاف کیا پھرمیرےپاس نیندمیں گئي اورکہا گيا یہ رات آخری عشرہ ميں ہے ، لھذاتم میں سے جوبھی اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف جاری رکھے تولوگوں نے بھی نبی صلی اللہعلیہ سلم کے ساتھ اعتکاف کیا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہطاق رات میں دکھائي گئي ہے اورمیں اس رات کی صبح پانی اورکیچڑ میں سجدہ کرہا ہوں ،اکیسویں رات صبح تک قیام کرتے رہے اورآسمان سے بارش بھی نازل ہوئي تومسجدٹپکنا شروعہوگئي ، میں نے پانی اورکیچڑ دیکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازفجر سے فارغ ہونےکے بعد نکلے توان کی پیشانی اورناک پانی اورکيچڑ میں لتھڑا ہوا تھا ، اوریہ آخریعشرہ میں اکیسویں رات تھی ) صحیح مسلم حدیث نمبر (1167) اورایک روایت میں ہےکہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں : ( اکیسویں رات ہمپربارش برسی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھانے والی جگہ سے مسجد ٹپکنے لگی ،جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھا کرنکلے تومیں میں آپ کا چہرہ مبارک پانیاورکيچڑ میں لتھڑا ہوا دیکھا ) متفق علیہ ۔اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نےعبداللہ بن انیس رضي اللہ تعالی عنہ بھی ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ جیسی حدیث ہیروایت بیان کی ہے لیکن اس میں وہ کہتے ہیں کہ : ( ہم پر تئیسویں رات بارش برسی ) ۔اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہعلیہ وسلم نے فرمایا : ( اسے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ،باقینو رہ جائيں تو، باقی سات رہ جائيں ، باقی پانچ رہ جائيں تو ) صحیح بخاری ( 4 / 260 ) ۔لیلۃ القدر آخری عشرہ میں ہی آتی ہے جیسا کہ اوپروالی حدیث میں بیان ہوااوراسی طرح عائشہ اورابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں بھی ہے کہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( رمضان المبارک کے آخري عشرہ میں لیلۃ القدرتلاش کرو ) ۔دیکھیں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا صحیح بخاری ( 4 / 259 ) اور حدیث ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما صحیح مسلم ( 2 / 823 ) اورمندرجہ بالا الفاظحدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے ہيں ۔اورآخری عشرہ میں بھی طاق راتوںمیں یقینی ہے کیونکہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلیاللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاشکرو ) صحیح بخاری ( 4/ 259 ) ۔اوربالذات طاق راتوں میں یعنی اکیسویں ،تئیسویں ، پچیسویں ، ستائسویں ، اورانتیسویں رات ، صحیحین میں حدیث وارد ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اس رات کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میںتلاش کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1912 ) اور ( 1913 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1167 ) اور ( 1165 ) ۔اورحدیث ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما میں ہے کہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو،باقی نو رہ جائے تو، باقی سات رہ جائيں تو، باقی پانچ رہ جائیں تو ) صحیح بخاریحدیث نمبر ( 1917 - 1918 ) ۔ لھذا لیلۃ القدر کا طاق راتوں میں پایا جانا زيادہیقینی اورلائق ہے ۔اورصحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالی عنہ سےمروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کا بتانےنکلے تومسلمانوں میں سے دو شخص تنازع کرنے لگے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( میں توتمہيں لیلۃ القدر کا بتانے نکلاتھا لیکن فلاں فلاں شخص تنازعاورجھگڑا کرنے لکے تویہ اٹھا لی گئي ، اورہوسکتا یہ تمہارے لیے بہتر ہو ، لھذا تماسے نویں ، ساتویں ، پانچویں میں تلاش کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1919 ) یعنیطاق راتوں میں تلاش کرو ۔اوراس حدیث میں تنازع اورجھگڑے کی نحوست کا بیانملتا ہے ، اورخاص کردین کے معاملہ میں تنازع کرنا ، اوریہ خیروبھلائي میں کمی اوراسکےاٹھ جانے کا سبب ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : ( لیکن طاق ماضي کے اعتبار سے ہوتواس طرح اکیس ، تئيس ، پچیس ، ستائيساورانتیس کی رات بنے گی ، اوربقیہ کے اعتبارسے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے : ( نوباقی رہنے ، سات باقی رہنے ، پانچ باقی رہنے ، تین باقی رہنےمیں ) ۔تواس بنا پراگر مہینہ تیس کا ہوتویہ راتیں طاق کی بجائے دھائی والیراتیں ہونگی اوربائيسویں رات نوباقی بچنے ميں ہوگي اورسات باقی بچنے میں چوبیسویںرات بنے گی ، ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ نےصحیح حدیث میں یہی تفسیر کی ہے۔اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مہینہ میں ایسے ہی قیام کیا لھذا جبمعاملہ ایسا ہی ہو تومومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ لیلۃ القدر کو پورے آخری عشرہ میںہی تلاش کرے ) شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے کلام کا مقصود ختم ہوا ۔دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 25 / 284 - 285 ) ۔اورلیلۃ القدر کی آخری سات راتوںمیں زيادہ امید کی جاسکتی ہے ، اسی لیے ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہےکہ کچھ صحابہ کرام کوخواب میں لیلۃ القدر آخری سات دنوں میں دکھائي گئي ، تورسولاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( میرے خیال میں آخری سات راتوں کےبارہ میں تمہاری خوابیں متفق ہیں ، لھذا جوبھی لیلۃ القدر تلاش کرنا چاہے وہ آخریسات راتوں میں تلاش کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1911 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1165 ) اورمسلم شریف کی روایت میں ہے کہ : ( اسے آخری عشرہ ميں تلاشکرو ، اگر تم میں سے کوئي ایک عاجز آجائے یا کمزور جائے تواسے آخری سات راتوں میںلازمی تلاش کرنی چاہیے ) ۔اورستائسویں رات میں تواس کی اوربھی زيادہ امیدکی جاسکتی ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے : امام احمد نے ابنعمررضي اللہ تعالی عنہ اورامام ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے معاویہ رضي اللہ تعالیعنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدرستائسویں رات ہے ) مسند احمد ، سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1386 ) ۔اکثر صحابہاورجمہور علماء کرام کا مذھب یہی ہے کہ لیلۃ القدر ستائسویں رات ہی ہے ، حتی کہ ابیبن کعب رضي اللہ تعالی عنہ استثناء کے بغیر حلفا کہا کرتے تھے کہ لیلۃ القدرستائسویں رات ہی ہے ، زر بن حبیش رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اےابومنذر آپ ایسے کس وجہ سےکہتے ہیں ؟وہ کہنے لگے : اس نشانی اورعلامت کیبنیاد پرجونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائي تھی ، وہ یہ ہے کہ : اس دن سورجطلوع ہوگا تواس میں شعاع اور تمازت نہيں ہوتی ۔ اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نےروایت کیا ہے دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 268 ) ستائیسویں کی تعیین میں بہت ساریمرفوع احادیث مروی ہيں : اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے بھی یہی کہاہے کہ : ( یہ ستائیسویں رات ہی ہے ) اورکچھ امور سے ایک عجیب وغریب استنباط کیا ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ عمررضي اللہ تعالی نے صحابہ کرام کوجمع کیا اوران کے ساتھابن عباس رضي اللہ تعالی عنہم کوبھی جمع کیا جوکہ ابھی بچے یعنی چھوٹی عمر کے تھےتو صحابہ کرام کہنے لگے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ توہمارے بچوں کی طرح ہے آپ اسےہمارے ساتھ کیوں جمع کررہے ہیں ؟توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جواب میںفرمایا : اس نوجوان کا دل عقلمندوں کا اور زبان سوال والی ہے ، پھر صحابہکرام رضی اللہ عنہم سے لیلۃ القدر کے بارہ میں سوال کیا تو وہ سب کہنے لگے رمضان کےآخری عشرہ ميں ہے ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اس کے متعلق ابن عباس رضي اللہتعالی عنہما سے پوچھا تو وہ کہنے لگے : مجھے علم ہے کہ یہ کونسی ہے ، یقینایہ ستائیسویں رات ہے ، توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا؟تووہ کہنے لگے : اللہ تعالی نے سات آسمان بنائے ، اورزمینیں بھی سات ہیبنائيں ، اور دن بھی سات ہی بنائے ، اورانسان کو بھی سات سے پیدا فرمایا ، اور طوافبھی سات چکر بنائے ، اورسعی بھی سات چکر ہی ہیں ، اوررمی جمرات بھی سات کنکریاں ہیں۔توان استنباطات کی بنا پرابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہی خیال کرتے تھےکہ لیلۃ القدر ستائيسویں رات ہی ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے یہ باتثابت ہے ۔اوران امورمیں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدرستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے : { تنزلالملائکۃ والروح فیھا } اس میں فرشتے اورروح اترتے ہیں ۔ یہ سورۃ القدر کاستائیسواں کلمہ ہے ۔لیکن اس پرکوئي شرعی دلیل نہیں ، اس لیے اس طرح کےحسابات کی کوئي ضرورت نہيں ہے ، اس لیے کہ ہمارے پاس شرعی دلائل ہيں جوہمیں اس سےمستغنی کردیتے ہيں ۔لیکن غالبا یہی ہے کہ ستائسویں رات لیلۃ القدر ہوتی ہےواللہ اعلم ، لیکن یہ مستقل نہيں بلکہ اس میں تبدیلی ہوتی ، بعض اوقات اکیسویں راتہوتی ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ہے۔اور بعض اوقات تئيسویں رات ہوتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن انیس رضي اللہتعالی عنہ کی روایت میں ہے اس کا بیان ہوچکا ہے ، اورابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر کورمضانالمبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، باقی نو رہ جائيں ، باقی سات رہ جائيں ، باقیپانچ رہنے پر ) صحیح بخاری ( 4 / 260 ) ۔اوربعض علماء کرام نے تواسے راجحقرار دیا ہے کہ لیلۃ القدر ہرسال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقلہوتی رہتی ہے ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ( اس میں صحیح احاديثکے تعارض کی بنا پر ظاہر ، صحیح اورمختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے ، اورانتقالکے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں ) دیکھیں المجموع للنووی ( 6 / 450 ) ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے لیلۃ القدر کو چھپایا اورمخفی اس لیے رکھا ہے کہ اسکے بندے اسے تلاش کرنے کی تگ ودو کریں اور عبادت کرنے کی کوشش کریں ، جیسا کہ جمعہکے دن اس گھڑی کوخفیہ اورپوشیدہ رکھا گيا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے ۔لھذامسلمان پرواجب اور ضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے انآخری دس دن اوررات لیلۃ القدر کی تلاش کے لے عبادت کریں اوراللہ تعالی سے دعا اوراسکی جانب التجائيں کریں ۔عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ میں نےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول مجھےکیا کہنا ہے ؟تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعفعني ) اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے لھذا مجھےمعاف کردے ۔مسند احمد ، سنن ترمذی حدیث نمیر ( 3513 ) سنن ابن ماجہ حدیثنمبر ( 3850 ) اس کی سند صحیح ہے ۔سوم : اس میں اعتکاف کی خصوصیت پائی جاتیہے سال کے باقی دنوں میں نہ ہونے کے باعث اسےزیادہ فضیلت حاصل ہے ، اوراللہ تعالیکی اطاعت فرمانبرداری کے لیے مسجد میں ٹھرنے کا نام اعتکاف ہے ، اورنبی صلی اللہعلیہ وسلم تواس آخری عشرہ کااعتکاف بھی کیا کرتے تھے ۔جیسا کہ ابوسعید خدریرضی اللہ تعالی عنہ کی سابقہ حدیث میں ہے کہ : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےعشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا ، اورپھر انہیں بتایا کہ وہلیلۃ القدر تلاش کررہے تھے ، اوریہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری عشرہ میں لیلۃالقدر دکھائی گئي ہے ) ۔اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ بھی فرمان ہے : ( جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسےچاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھیکرے ) ۔اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہوسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے انہیں فوت کردیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔متفق علیہ ۔اس کےعلاوہ بخاری ومسلم نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بھی اس جیسی حدیث بیان کی ہے۔عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جباعتکاف کرنا چاہتے تو نماز فجر کے بعد اپنی خاص اعتکاف والی جگہ میں داخل ہوجاتے ۔صحیح بخاری ومسلم ۔آئمہ اربعہ وغیرہ رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ : نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم غروب شمس سے قبل داخل ہوتے تھے ، انہوں نے حديث کی تاویل یہ کیہے کہ نمازفجر کے بعد داخل ہونے کا معنی یہ ہے کہ : وہ اپنے اعتکاف والی جگہ میںداخل ہوئے اورانقطاع اورخلوت اختیارکرلی ، یہ نہیں کہ اعتکاف کے وقت کی ابتداء ہے ۔دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 8 / 68 - 69 ) اورفتح الباری ( 4 / 277 ) ۔اعتکافکرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ اطاعات میں مشغول رہے ، اوراس پراعتکاف کی حالتمیں بیوی سے جماع اوربوس وکنار کرنا حرام ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانہے : { اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیحالت میں ہو } البقرۃ ( 177 ) ۔اوراعتکاف کرنے والے کوبغیرکسی ضرورت کےمسجد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اورضرورت بھی ایسی ہوجس کے بغیررہا نہ جاسکے۔لیلۃ القدر پہچاننے کی علامات اورنشانیاں : پہلی علامت : صحیح مسلم شریف میں ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ لیلۃ القدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورجطلوع ہو تو اس میں تمازت نہيں ہوتی ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 762 ) ۔دوسریعلامت : صحیح ابن خزیمہ اورمسند طیالسی میں صحیح سند کےساتھ مروی ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر معتدل نہ توگرم اورنہ ہی سردہوتی ہے ، اس دن صبح سورج کمزور اورسرخ طلوع ہوتا ) یعنی تمازت نہیں ہوتی ۔ صحیحابن خزيمہ حدیث نمبر ( 2912 ) مسند الطیالسی ۔تیسری علامت : امامطبرانی نے حسن سند کے ساتھ واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہےنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لیلۃ القدر روشن رات ہوتی ہے نہتوگرم اورنہ ہی سرد ہوتی اوراس میں کوئي ستارہ نہيں پھینکا جاتا ، یعنی شہاب ثاقبنہيں گرتا ) اسے طبرانی کبیر میں روایت کیا گيا ہے ، دیکھیں مجمع الزوائد ( 3 / 179 ) مسند احمد ۔لیلۃ القدر کی نشانیوں میں یہ تین احادیث صحیح ہيں ، اس سے یہلازم نہيں آتا کہ جس نے بھی لیلۃ القدر کوپالیا اوراس میں قیام کیا وہ اسے حاصل بھیگئي ہے ، بلکہ اس میں معتبرتواخلاص نیت اورکوشش ہے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ،اوربعض اوقات ہوسکتا ہے کہ جنہیں اس کا علم بھی نہیں ہوسکا وہ اپنے اجتھاد اورکوششکی بنا پر اللہ تعالی کے ہاں لیلۃ القدر کوجاننے والوں سے کئي درجہ افضل اوربہترہوں ۔ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمارے روزے اور قیام قبول منظورفرمائے ، اوراپنے ذکر وشکر اورحسن عبادت پر معاونت فرمائے ۔ آمین ۔اوراللہتعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ، آمین یارب العالمینبشکریہ الاسلام سوال وجواب |
|