آپ کا نام عبد القادر بن ابی صالح جنگی دوست بن عبد اللہ ہے۔
۴۳۹/۲۰]
۲۹۰/۱]
الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوہ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ابو محمد عبد القادر۔ ۴۳۹/۲۰]حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
۲۹۰/۱]البتہ آج کل آپ کو پیران پیر، غوث أعظم، غوث پاک، قطب الاقطاب جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہ القاب غیر شرعی بلکہ بعض تو قطعا جائز نہیں ہیں۔ جیسے غوث یاغوث اعظم وغیرہ۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ھ یا ھ میں صوبہ گیلان کے بشتیر نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ ۶۲۱/۱۱]آپ کا خاندان ایک علمی گھرانہ تھا، آپ کے نانا ابو عبد اللہ الصومعی مشہور صوفی بزرگ تھے حتی کہ آپ سبط ابی عبد اللہ الصومعی الزاھد کے نام سے جانے جاتے تھے۴۴۴/۲۰]یعنی ابو عبد اللہ الصومعی زاہد کے نواسے۔
کتابوں میں آپ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ میانہ قد، گندمی رنگ، چوڑا سینہ دبلا پتلا بدن، بھری داڑھی، بھنویں ایک دوسرے سے ملی ہوئی اور بارعب چہرہ۔ ۶۲۱/۱۱]تعلیم و تربیت
آپ کے شہر کے لوگ مذہب حنبلی پر قائم تھے اور آپ نے بغداد کے سفر سے پہلے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔
اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ھ ایام جوانی میں آپ بغداد وارد ہوئے اس وقت آپ کی عمر یا سال تھی۔ ۱۹۷/۱]بغداد میں آپ نے وہاں کے نامور اہل علم سے اپنی علمی پیاسی بجھائی، اساتذہ میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
آپ نے علم حدیث ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی متوفی ھ، جعفر بن احمد السراج متوفی ھ، ابو سعد محمد بن عبد الکریم بن حشیش بغدادی متوفی ھ اور احمد بن المظفربن حسن بن سوسن التمار متوفی ھ جیسے ائمہ فن سے لیا۔ ۴۲۰/۲۰]اساتذئے فقہ و اصول
ابوسعد المخرمی حنبلی متوفی ھ، ابوالخطاب الکلوباذی حنبلی متوفی ھ، اور ابو الوفا ابن عقیل حنبلی ھ۔ اس وقت بغداد میں یہ تینوں حضرات فقہِ حنبلی کے اساطین فن سمجھے جاتے تھے۔ حتی کہ مذہب حنبلی کے اصول و فروع اور علم خلافیات میں پوری دست رس حاصل کی بلکہ اپنے تمام ہم عصروں پر سبقت لے گئے۔ اور اپنے اساتذہ کے بعد آپ ہی بغداد میں فقہ حنبلی کے مرجع ٹھہرے۔ ۲۹۰/۱]ادب وقواعد کے اساتذہ
۵۰۲علم سلوک و تصوف
۵۲۵۵۹۶/۱۹۵۹۱/۱]عہد طالبِ علمی کی مشکلات اور اللہ کی خصوصی مدد
۴۴۴/۲۰۲۹۸/۱]ایام طالب علمی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں بیابان میں فقہ کے درس کا مراجعہ کر رہا تھا اس وقت مجھے سخت بھوک پیاس کا احساس ہوا جب میں بہت تنگ آگیا تو غیب سے ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی آواز دینے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا، آواز دینے والا کہہ رہا تھا کہ قرض لے کر علم فقہ حاصل کرنے پر مدد حاصل کرو، میں نے جواب دیا کہ قرض کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے، میں فقیر ہوں اگر قرض لیتا ہوں تو اس کی ادائیگی کیسے کر پاؤں گا۔ آواز دینے والے نے کہا: قرض لے لو ادائیگی میں کردونگا۔ چنانچہ میں ایک کرانہ کی دوکان پر آیا اور دکاندارسے کہا کہ تم مجھے روزانہ ایک روٹی اور کچھ حب رشاد اس شرط پر دے دیا کرو کہ جب میرے پاس ادائیگی کی طاقت ہوگی تو میں ادا کرودنگا اور اگر میں مرگیا تو مجھے معاف کردینا، میری یہ بات سن کر وہ رونے لگا اور کہا کہ آپ جس طرح چاہیں میں تیار ہوں، خلاصہ یہ کہ میں ایک مدت تک اس سے روٹی اور حب رشاد لیتا رہا اس طرح کافی دن گزر گئے تو مجھے بڑی الجھن محسوس ہوئی کہ میں کب تک اس سے اس طرح لے کر کھاتا رہوں گا، اس پر ابھی تھوڑی ہی مدت گزری ہوگی کہ مجھےمحسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے فلاں جگہ چلے جاؤ اور اس جگہ جو چیز بھی ملے تم اسے اٹھا لو اور دکاندار کا قرض ادا کردو، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہے اسے میں نے لے لیا اور دکاندار کا قرض ادا کردیا۔ ۴۴۵/۲۰۲۹۹/۱]اسی طرح شیخ رحمہ اللہ اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھاکر کھاتا رہا یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں، اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہوجاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لئے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لئے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لئے ایک مسجد میں جاکر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ [طالب فقہ] ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم اے بھائی میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہوگیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لئے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لئے مردار بھی حلال ہے اس لئے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی، یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے، شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ ۴۴۴۴۴۵/ ۲۰۲۹۸/۱]راہ سلوک میں مشقت
۴۴۶/۲۰]واضح رہے کہ صوفیوں کا یہ طریقہ تعامل اور بد کلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے یکسر خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلب علم کے لئے آنے والوں سے بہت ہی نرمی سے پیش آتے اور صحابہ کرام کو وصیت فرماتے کہ طالب علموں کے ساتھ حسن خلقی سے پیش آنا چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جب کسی طالب علم کو دیکھتے تو فرماتے: "مرحبا بوصیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوصینا بکم" الحدیث۔ اے اللہ کے رسول کی وصیت تمہیں خوش آمدید ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کے بارے میں ہمیں خصوصی وصیت کی ہے۔
"سیاتیکم اناس یفقھون فقھوھم و احسنوا الیھم"
۲۸۰]خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
۱۸۲]
خلاصہ یہ کہ صوفی حضرات میں اپنے شاگردوں اور ماننے والوں کے ساتھ اس طرح کا برا سلوک جو عام ہے وہ سنت رسول کے خلاف اور اسلامی آداب کے منافی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان حضرات کی علم دین سے دوری اور شاید کبر ہے چنانچہ انہیں حماد الدباس کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کم علم اور ان پڑھ تھے۵۹۳/۱۹]تدریس اور تزکیہ نفس کے لئے مسند نشینی
[السیر ، تاریخ دعوت و عزیمت ۔
[السیر ، ذیل الطبقات درج ذیل مشہور واقعہ بھی انہیں دنوں کا محسوس ہوتا ہے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض وہ ایام جن میں میدانوں میں سیاحت کے لئے نکلنا تھا ایک بار ایسا ہوا کہ کئی دن گزر گئے اور مجھے کھانے پینے کو کوئی چیز نہ مل سکی جب پیاس سخت محسوس ہوئی تو اچانک ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کرلیا اور اس میں سے شبنم جیسی کوئی چیز نازل ہوئی جس سے میری پیاس جاتی رہی پھر ایک بڑی عظیم الشان روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے دونوں کنارے روشن ہوگئے پھر اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی ، اس نے مجھ سے خطاب کرکے کہا: اے عبد القادر میں تمہارا رب ہوں، میں نے تمہارے لئے وہ تمام محرمات حلال کردئیے ہیں جو لوگوں پر حرام ہیں، میں نے کہا: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، اے ملعون دور ہو یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں میں تبدیل ہوگئ پھر وہی شخص مجھ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: اے عبد القادر اللہ تعالی نے تمہیں تمہارے علم و سمجھ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس طرح تو میں اب تک ستر صوفیوں کو گمراہ کرچکا ہوں، تو میں نے کہا کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا فضل اور اسکا احسان ہے ، کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے سمجھے کہ یہ شیطان ہے؟، فرمایا: اس کے کہنے سے کہ"میں نے حرام چیزوں کو تمہارے لئے حلال کردیا'۲۹۴/۱۲۰۳/۱]خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی کی تایید غیبی رہی کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے رہبانیت و صحرا نوردی کا خیال ترک کرکے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے اور مردہ دلوں کی مسیحائی کے لَئے تیار ہوئے اور اپنے استاد خاص ابو سعد المخرمی رحمہ اللہ بنائے ہوئے مدرسے میں درس و تدریس کے لئے ھ میں مسند نشین ہوئے۔
[السیر ، ذیل الطبقات ۔
[ذیل الطبقات ۔
۷۵حضرت شیخ عبد القادر کی زندگی ہی میں آپ کے فتووں اور علم فقہ میں باریک بینی کی شہرت بغداد اور اس کے اطراف اکناف میں پھیل گئی اہل علم آپ کے فتووں کو سنتے اور آپ کی علمی باریک بینی پر تعجب کرتے اور کہتے کہ سبحان اللہ کہ ان کے اوپر اللہ کا یہ فضل ہوا ہے ۔ آپ کی فقہی باریک بینی کا ایک واقعہ اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے یہ قسم کھالی کہ اگر میں کوئی ایسی عبادت نہ کرسکوں جس میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ ہو تو میری بیوی کو طلاق ہے اس وقت کے اہل علم حیرت میں پڑگئے لیکن جب یہ مسألہ جب شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: اس شخص سے کہا جائے کہ وہ مکہ مکرمہ جائے اس کے لئے مطاف کو خالی کرایا جائے اور سات چکر طواف کرکے اپنی قسم کو پوری کرلے۔ ۲۹۴/۱۶۲۲/۱۱]
اس طرح شیخ عبدا لقادر رحمہ اللہ تقریبا چالیس سال تک علم کے پیاسوں کو سیراب کرکے، اپنے ظاہری و باطنی کمالات سے ایک عالم کو مستفید کرکے، بہت سے مردہ دلوں کو زندگی بخش کرکے عالم آخرت کی طرف کوچ کرگئے۔ چنانچہ ربیع الاول ھ بروز ہفتہ دنیا کو روشن کرنے والا یہ چراغ خود بجھ گیا۔ اس وقت ان کی عمر سال کے قریب تھی، وفات کے وقت اپنے بیٹے عبد الوہاب کو آپکی آخری وصیت یہ تھی کہ تم ہمیشہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اس کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنا اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھنااپنی تمام ضروریات صرف اسی کے حوالے کرنا اسی سے طلب کرنا اس کے علاوہ کسی اور پر اعتماد و بھروسہ نہ رکھنا توحید کو لازم پکڑنا کیونکہ توحید ہر کام کی جامع ہے۔ ۳۷۳۲۲۲/۱]زندگی کے آخری لمحات کا منظر ان کے صاحبزادے عبد الجبار بیان کرتے ہیں کہ جب والد کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ کہنے لگے میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کا تعلق صحیح ہے ، پھر جب آخری وقت آگیا تو آپ فرمانے لگے میں اس اللہ سے مدد چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک و برتر ہے، زندہ ہے اور اس پر موت کے طار ی ہونے کا اندیشہ نہیں ہے وہ پاک ہے وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنی قدرت سے قوت ظاہر کی اور ہمیں موت دے کر بندوں پر اپنا غلبہ دکھایا ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، پھر تین بار اللہ، اللہ ، اللہ فرمایا اس کے ساتھ آواز غائب ہوگئی آپ کی زبان تالو سے چپک گئ اور روح جسم سے رخصت ہوگئ ۔ رحمہ اللہ و رضی عنہ۔ ۲۷۳۲۲۳/۱]آپ کی وفات ہفتہ کے دن شام کو ہوی اور اسی رات تغسیل و تکفین کے بعد اسی مدرسہ کے ایک گوشے میں نماز جنازہ کے بعد دفن کردیا گیا۔
[شذرات الذھب ۔تدریس اور تزکیہ نفس کے لئے مسند نشینی
[السیر ، تاریخ دعوت و عزیمت ۔
[السیر ، ذیل الطبقات درج ذیل مشہور واقعہ بھی انہیں دنوں کا محسوس ہوتا ہے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض وہ ایام جن میں میدانوں میں سیاحت کے لئے نکلنا تھا ایک بار ایسا ہوا کہ کئی دن گزر گئے اور مجھے کھانے پینے کو کوئی چیز نہ مل سکی جب پیاس سخت محسوس ہوئی تو اچانک ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کرلیا اور اس میں سے شبنم جیسی کوئی چیز نازل ہوئی جس سے میری پیاس جاتی رہی پھر ایک بڑی عظیم الشان روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے دونوں کنارے روشن ہوگئے پھر اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی ، اس نے مجھ سے خطاب کرکے کہا: اے عبد القادر میں تمہارا رب ہوں، میں نے تمہارے لئے وہ تمام محرمات حلال کردئیے ہیں جو لوگوں پر حرام ہیں، میں نے کہا: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، اے ملعون دور ہو یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں میں تبدیل ہوگئ پھر وہی شخص مجھ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: اے عبد القادر اللہ تعالی نے تمہیں تمہارے علم و سمجھ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس طرح تو میں اب تک ستر صوفیوں کو گمراہ کرچکا ہوں، تو میں نے کہا کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا فضل اور اسکا احسان ہے ، کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے سمجھے کہ یہ شیطان ہے؟، فرمایا: اس کے کہنے سے کہ"میں نے حرام چیزوں کو تمہارے لئے حلال کردیا'۲۹۴/۱۲۰۳/۱]خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی کی تایید غیبی رہی کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے رہبانیت و صحرا نوردی کا خیال ترک کرکے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے اور مردہ دلوں کی مسیحائی کے لَئے تیار ہوئے اور اپنے استاد خاص ابو سعد المخرمی رحمہ اللہ بنائے ہوئے مدرسے میں درس و تدریس کے لئے ھ میں مسند نشین ہوئے۔
[السیر ، ذیل الطبقات ۔
[ذیل الطبقات ۔
۷۵حضرت شیخ عبد القادر کی زندگی ہی میں آپ کے فتووں اور علم فقہ میں باریک بینی کی شہرت بغداد اور اس کے اطراف اکناف میں پھیل گئی اہل علم آپ کے فتووں کو سنتے اور آپ کی علمی باریک بینی پر تعجب کرتے اور کہتے کہ سبحان اللہ کہ ان کے اوپر اللہ کا یہ فضل ہوا ہے ۔ آپ کی فقہی باریک بینی کا ایک واقعہ اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے یہ قسم کھالی کہ اگر میں کوئی ایسی عبادت نہ کرسکوں جس میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ ہو تو میری بیوی کو طلاق ہے اس وقت کے اہل علم حیرت میں پڑگئے لیکن جب یہ مسألہ جب شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: اس شخص سے کہا جائے کہ وہ مکہ مکرمہ جائے اس کے لئے مطاف کو خالی کرایا جائے اور سات چکر طواف کرکے اپنی قسم کو پوری کرلے۔ ۲۹۴/۱۶۲۲/۱۱]
اس طرح شیخ عبدا لقادر رحمہ اللہ تقریبا چالیس سال تک علم کے پیاسوں کو سیراب کرکے، اپنے ظاہری و باطنی کمالات سے ایک عالم کو مستفید کرکے، بہت سے مردہ دلوں کو زندگی بخش کرکے عالم آخرت کی طرف کوچ کرگئے۔ چنانچہ ربیع الاول ھ بروز ہفتہ دنیا کو روشن کرنے والا یہ چراغ خود بجھ گیا۔ اس وقت ان کی عمر سال کے قریب تھی، وفات کے وقت اپنے بیٹے عبد الوہاب کو آپکی آخری وصیت یہ تھی کہ تم ہمیشہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اس کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنا اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھنااپنی تمام ضروریات صرف اسی کے حوالے کرنا اسی سے طلب کرنا اس کے علاوہ کسی اور پر اعتماد و بھروسہ نہ رکھنا توحید کو لازم پکڑنا کیونکہ توحید ہر کام کی جامع ہے۔ ۳۷۳۲۲۲/۱]زندگی کے آخری لمحات کا منظر ان کے صاحبزادے عبد الجبار بیان کرتے ہیں کہ جب والد کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ کہنے لگے میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کا تعلق صحیح ہے ، پھر جب آخری وقت آگیا تو آپ فرمانے لگے میں اس اللہ سے مدد چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک و برتر ہے، زندہ ہے اور اس پر موت کے طار ی ہونے کا اندیشہ نہیں ہے وہ پاک ہے وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنی قدرت سے قوت ظاہر کی اور ہمیں موت دے کر بندوں پر اپنا غلبہ دکھایا ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، پھر تین بار اللہ، اللہ ، اللہ فرمایا اس کے ساتھ آواز غائب ہوگئی آپ کی زبان تالو سے چپک گئ اور روح جسم سے رخصت ہوگئ ۔ رحمہ اللہ و رضی عنہ۔ ۲۷۳۲۲۳/۱]آپ کی وفات ہفتہ کے دن شام کو ہوی اور اسی رات تغسیل و تکفین کے بعد اسی مدرسہ کے ایک گوشے میں نماز جنازہ کے بعد دفن کردیا گیا۔
[شذرات الذھب ۔
شیخ عبد القادر جیلانی کی شخصیت
بادشاہ ہر دو عالم شیخ عبد القادر ہست
سرور اولاد آدم شیخ عبد القادر ہست
آفتاب و ماہ تاب و عرش کرسی و قلم
زیر پائے شیخ عبد القادر ہست
بدقسمتی سے آج یہ اشعار شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے مزار پر لکھے ہوئے ہیں۔ [الشیخ عبد القادر جیلانی ص ، سعید مسفر]۔
بلاد اللہ ملکی تحت حکمی سے ہے یہ ظاہر
گئے اک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا
یہ پورا قصیدہ جو تفسیر احسن البیان کے ضمیمہ پر موجود ہے اسے پڑھیں اور عبرت حاصل کریں، نیز دیکھیں کہ اس شاعر نے اللہ کے لئے کیا چیز باقی چھوڑی ہے، اس قصیدہ کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایسا شرک ہے جس کا ارتکاب عرب کے جاہلی مشرکین نے بھی نہیں کیا تھا۔
ہے باب الشیخ کا دیوان خانہ خلد سے بڑھ کر
اس جماعت نے غلو میں حضرت شیخ کی طرف ایسے اقوال و کرامتیں اور تصرفات منسوب کئے ہیں جو حد بیان سے باہر ہیں ،کہیں ملک الموت سے اپنے مرید کی روح چھین لے رہے ہیں تو کہیں اللہ تعالی سے زبردستی ایک ایسے شخص کو سات بیٹے دلوادے رہے ہیں جس کی تقدیر میں اللہ تعالی نے ایک بیٹا بھی نہیں رکھا تھا حتی کہ کہیں انکے غوث پاک صاحب میدان محشر میں اپنے مریدوں کو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
[ذیل الطبقات ۔
تیسری جماعت اہل سنت وجماعت یا اہل حدیثوں کی ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی کو اپنے اماموں میں سے ایک امام تسلیم کرتی ہے، انہیں امت محمدیہ کا ایک بڑا عالم مانتی ہے، اعمال قلوب اور اصلاح باطن میں انہیں اپنے وقت کا مجدد تسلیم کرتی ہے، ان کی سچی کرامات کا اعتراف کرتی ہے، ان کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیتی اور نہ ہی ان کی حق تلفی کرتی ہے بلکہ افراط و تفریط کی درمیانی راہ پر رہ کر شیخ عبد القادر جیلانی کو احترام و تقدیر کی نظر سے دیکھتی ہے البتہ انہیں عام اماموں، عالموں، فقیہوں اور بزرگوں کی طرح ایک انسان لیکن عام انسانوں سے بہت اونچا تسلیم کرنے کے باوجود خطا ونسیان سے بری نہیں سمجھتی۔
"الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوۃ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ۔۔۔شیخ بغداد<="" span="">۔
خلاصہ یہ کہ شیخ عبدا لقادر بڑی شان والے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ان کے بعض اقوال و دعوے قابل گرفت ہیں۔ حاضری اللہ کے پاس ہے۔ ان کی طرف منسوب بعض اقوال ان پر الزام تراشی ہے۔ ۴۵۱/۲۰]امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
۔ [البدایہ ۔
الزاھد شیخ العصر وقدوۃ العارفین سلطان المشائخ وسید اھل الطریقۃ فی وقتہ محی الدین ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاصول المشہورۃ ۔ ۱/۲۹۰]ان تعریفی القاب کے بعد ان کے تذکرہ میں ان کی طرف منسوب ایک قول کی تردید و تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس قسم کے اقوال کے بارے میں سب سے اچھی بات وہ ہے جو ابو حفص السہروردی نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں کہی ہے کہ شیوخ کی یہ وہ لفاظیاں ہیں جن میں ان کی اقتداء نہ کی جائے گی اور نہ ہی ان سے ان کے مقامات و درجات میں فرق پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی ہو ہر ایک کی بات مانی بھی جائے گی اور رد بھی کردی جائے گی سوائے معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے {ہر بات مانی جائے گی کوئی بات رد نہ کی جائے گی}۔ ۱/۲۹۵]شیخ عبد القادر کی تعلیمات
چنانچہ انہیں کے مذہب پر فقہ کی تعلیم دیتے تھے ،جیسا کہ مشہور حنبلی امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم شیخ عبد القادر کی خدمت میں ان کی زندگی کے آخری ایام میں پہنچے شیخ نے ہمیں اپنے مدرسے میں ٹھہرایا وہ ہمارا خاص خیال رکھتے تھے کبھی تو وہ اپنے بیٹے یحی کو بھیجتے کہ ہمارے لئے چراغ جلائے، کبھی وہ خود اپنے گھر سے ہمارے لئے کھانا بھیجتے، فرض نمازوں میں وہی ہماری امامت کرتے، صبح کے وقت میں انکے سامنے زبانی مختصر خرقی {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب} پڑھتا {جسکی وہ شرح کرتے} اور شام کو حافظ عبد الغنی ہدایہ نامی کتاب {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ہدایہ مولفہ ابو الخطاب} پڑھتے۔ ۲۰/۴۴۲۴/۱۹۹]عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ اصولا و فروعا کٹر حنبلی تھے حتی کہ عقائد کے بارے میں مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ ۱/۲۹۸۴/۱۰۰]اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آج جو لوگ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو غوث و قطب مانتے ہیں ان کو قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کرتے ہیں وہ حضرات سعودی عرب کے علماء کو جو اصولا و فروعا حنبلی ہیں انہیں بے دین، وہابی اور برے برے القاب سے کیوں نوازتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ انکا طریقہ ان کے اپنے غوث کے طریقہ سے کس قدر مختلف ہے۔ ہم یہاں شیخ کی تعلیمات پر بڑے اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔
توحید
اللہ تعالی کو پہچاننے کے بارے میں خلاصہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا یقین رکھے، نیز یہ بھی یقین رکھے کہ وہ تنہا اور بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ خود کسی سے جنا گیا، نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی مثل، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اپنی صفات و ذات میں یکتا ہے، کوئی اس کا مددگار نہیں، شریک اور وزیر نہیں، کوئی اسے طاقت نہیں پہنچا سکتا، کوئی اس کا ہمتا اور مشیر نہیں، الخ ۔ ۱۵۰اپنے ایک اور درس میں لوگوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
[الفتح الربانی ص ۔
اسی کتاب کی مجلس نمبر ص ، پر ہے کہ:
اس قسم کے درزنوں توحیدی کلمات حضرت شیخ کی کتابوں میں موجود ہیں بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام دروس میں قلبی عبادات میں توحید و توحید خالص پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو توحید پر جمے رہنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تقوی اور طاعت الہی کو لازم پکڑو کسی سے نہ ڈرو اور کسی سے امید نہ رکھو، تمام ضروریات کو اللہ کے حوالے کرو اسی سے ضروریات طلب کرو، اس کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرو، صرف اللہ تعالی پر اعتماد رکھو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، اس لئے کہ ہر چیز کی جامع توحید ہے۔ ۳۷۳]اسی کتاب میں اپنے ایک شاگرد کو کامیابی کا ایک نسخہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں:
[مجلس ۔
دوسری طرف ان حضرات کے طریقے پر ماتم کیجئے جنہوں نے شیخ کی ان تمام تعلیمات کو لیجا کر انہیں کے ساتھ ان کی قبر میں پر دے مارا اور خود انہیں کو معبود بنا لیا۔ الامان والحفیظ۔
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
اتباع سنت
ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا [اس طرح کہ] آپ کی شریعت کو ایک ہاتھ سے پکڑے اور آپ پر نازل شدہ کتاب کو دوسرے ہاتھ میں لے تو وہ اللہ تعالی تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہ ہلاک ہوگا ہلاک ہوگا، گمراہ ہوگا گمرہ ہوگا۔ یہ دونوں [کتاب و سنت] اللہ تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں، قرآن اللہ تک پہنچنے کے لئے تمہارا رہنما ہے اور سنت رسول اللہ تک پہنچنے میں تیرا رہنما۔ ۱۱۷۲۵الفتح الربانی کی انتیسویں مجلس ص پر اپنے ایک شاگرد کو وصیت کرتے ہیں : علیک بموافقۃ الشرع فی جمیع احوالک۔ ہر حال میں شریعت کی موافقت کو لازم پکڑو۔
۱۶۰جب تک تو کتاب و سنت کی اتباع نہ کرے گا کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
بعض اہل علم نے کہا کہ جس کا کوئی استاد نہ ہو اس کا استاد ابلیس بن جاتا ہے اس لئے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اور عمل کرنے والے علماء و مشائخ کی پیروی کرو، ان کے بارے میں حسن ظن رکھو، ان سے سیکھو، ان سے اچھے ادب کے ساتھ پیش آؤ ، اس طرح تم کامیاب ہوجاؤگے اگر تم نے کتاب و سنت کی اتباع نہ کی اور نہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہل علم کا ساتھ کیا تو تم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کو درست کرو، جو اللہ کے رسول کی اتباع میں درست رو ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی نسبت بھی درست ہوگی البتہ بغیر اتباع کے تمہارا یہ کہنا کہ میں رسول اللہ کا امتی ہوں تمہارے لئے یہ کسی بھی طرح مفید نہیں ہوسکتا، جب تم اللہ کے رسول کی اتباع ان کے اقوال و افعال میں کروگے تو آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا، کیا تم لوگوں نے یہ فرمان الہی نہیں سنا :
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
<="" span="">
[الفتح الربانی ص مجلس ۔
حضرت شیخ نے جہاں توحیدخالص خصوصا عبادات قلبیہ پر توحید کو لازم پکڑنے پر زور دیا ہے وہیں شرک سے لوگوں کو سختی سے متنبہ کیا ہے بلکہ اپنے عام درسوں میں شرک اصغر سے اس سختی اور خوف ناک انداز میں متنبہ فرماتے تھے گویا کہ وہ شرک اکبر ہے۔ ذرا آپ حضرات حضرت شیخ کی عبارات پر غور کریں۔
[الفتح الربانی ص مجلس ۔
۲۰آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنے دیناروں پر، درہموں پر، اپنی خرید و فروخت پر، اپنے شہر کے حاکم پر، ہر چیز کہ جس پر تو اعتماد کرے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے، یا توقع رکھے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس پر نفع و نقصان سے متعلق تیری نظر پڑے اور تو یوں سمجھے کہ اللہ تعالی اس کے ہاتھوں اس کا جاری کرنے والا ہے تو وہ تیرا معبود ہے۔ ص ۔
۲۶اے وہ شخص جو اپنے مصائب کا شکوی مخلوق سے کرتا ہے، مخلوق سے تیرا شکوی تیرے کس کام آئے گا یہ لوگ نہ تجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، جب تو ان پر اعتماد کریگا تو گویا تو نے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا۔ وہ اللہ تعالی کے دروازے سے دور لے جاکر اس کے غضب و ناراضگی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گے اے جاہل تو علم کا دعوی کرتا ہے حالانکہ دنیا کو اللہ کے علاوہ کسی اور سے طلب کرنا تیرے جاہل ہونے کی دلیل ہے۔ [صفحہ ۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ
الفتح الربانی صفحہ ، ، دسویں مجلس۔
خلاصہ یہ کہ شیخ رحمہ اللہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل کے عقیدے پر تھے اور امام احمد رحمہ اللہ کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے عین مطابق تھا۔ ہمارے ہند و پاک کے لوگ کئی جگہوں میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے اس عقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
استوی علی العرش
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الغنیۃ میں لکھتے ہیں:
[الغنیہ ۔
الفتح الربانی میں کہتے ہیں کہ :
[الفتح الربانی صفحہ ، مجلس ۔
۲- اہل سنت و جماعت کا عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی عظیم صفتیں ہیں اور اس کی تمام صفتیں اعلی و عمدہ ہیں جیسے ہاتھ، چہرہ، قدم، ہنسنا، غصہ ہونا، سننا، دیکھنا، اترنا وغیرہ۔ یعنی اللہ تبارک و تعالی کا ہاتھ ہے جیسا کہ وہ قرآن مجید میں فرماتا ہے : ید اللہ فوق ایدیھم ۔ اس کا چہرہ بھی ہے ، جیسے فرمایا : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ، لیکن اس ہاتھ اور چہرے کی کیفیت کیا ہے اسے اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ہاتھ ہیں اور حقیقی ہاتھ ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ ہاتھ سے مراد قدرت ہے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کسی مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے کیونکہ اس نے ہمیں یہ تو بتلایا ہے کہ اس کے ہاتھ ہیں، چہرہ ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا ہاتھ کیسا ہے لہذا اس کے ہاتھ کی کیفیت و مثال کے بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں، اسی پر دوسری تمام صفات کو قیاس کرنا چاہئے ۔ اس کا ارشاد ہے: لیس کمثلہ شیء وھو السمیع العلیم۔ اسکے مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
نفی کرو، پھر ثابت کرو اس طرح کہ ہر وہ صفت جو اللہ کے لائق نہ ہو اس کا انکار کرو اور جو صفات اللہ کے لائق ہوں انہیں ثابت مانو اور یہ وہی صفات ہیں جنہیں اللہ نے اپنے لئے پسند کیا ہے اور اس کے رسول نے اس کے لئے پسند کیا ہے۔ الخ ۔ ۸۰]غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں کہ [اللہ تعالی کی اسمائ و صفات میں} ہم کتاب اللہ اور سنت رسول سے تجاوز نہیں کرتے ہم آیت و حدیث پڑھتے ہیں اور جو کچھ {صفات} اسمیں بیان ہوئی ہیں ان پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کو اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ ۵۷/۱]
[الفتح الربانی صفحہ ، مجلس ۔
۳۰۶۴۸۰۸۸
اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایمان دل کے اعتقاد زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کا نام ہے طاعت کے کام سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں نقص واقع ہوتا ہے ، شیخ جیلانی رحمہ اللہ کا یہی عقیدہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں:
۶۳/۱
اور اس کے فورا بعد لکھتے ہیں کہ :
ایمان طاعت کے عمل سے بڑھتا ہے اور نافرمانی کے عمل سے گھٹتا ہے۔
"کسی کے لئے ایسا کہنا جائز نہیں ہے کہ میں یقینی مومن ہوں بلکہ واجب ہے کہ یہ کہے میں ان شاء اللہ مومن ہوں۔ ۶۳/۱]
بلکہ حضرت شیخ اور علمائے اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ مومن اپنے ایمان میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں بطور استدلال شیخ نے غنیۃ الطالبین میں کئی آیتیں نقل کی ہیں۔ جیسے
{التوبة:124}
<="" span="">
پھرمزید چند آیات نقل کرنے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس، ابو ہریرہ اور ابو درداء رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایمان میں کمی و زیادتی ہوا کرتی ہے ، مگر ابو الحسن اشعری کے پیروکاروں نے ایمان کے گھٹنے سے انکار کیا ہے۔ ۱۵۳]اور شیخ اس مسئلہ میں اس قدر سخت تھے کہ حنفیہ کو باطل و گمراہ فرقوں میں شمار کیا ہے ۔ دیکھئے غنیۃ الطالبین اردو ص ۔
۱۵۵۶۳/۱
کسی نیک و صالح اور متبع سنت شخص سے اگر کوئی خارق عادت امر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں۔ اگر یہی چیز کسی نبی سے ظاہر ہو تو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی فاسق و فاجر اور کافر و مشرک سے ظاہر ہو تو اسے استدراج کہا جاتا ہے۔
ثانیا:لیکن چونکہ بعد کے لوگوں نے ولی و کرامت سے متعلق ان اصول و ضوابط کو سامنے نہیں رکھا، یا یہ کہا جائے کہ وہ انہیں جانتے ہی نہیں ہیں لہذا بہت سے ایسے کام جو کرامت نہیں ہیں بلکہ استدراج و امتحان اور اتفاق ہیں انہیں اپنے خود ساختہ ولیوں کی کرامت شمار کرلیا۔
یہ امر بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو کرامتوں سے نوازا تھا بلکہ اس میں اللہ تعالی کی کوئی بہت بڑی حکمت ہی ہے کہ دوسرے ولیوں و بزرگوں کے مقابلے میں انہیں زیادہ کرامتوں سے نوازا تھا چنانچہ انکے تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ سے بارہا کرامات کا ظہور ہوا ہے ۔ چنانچہ سلطان العلماء حضرت العز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے فرمایا: بنقل تواتر جسقدر ہم تک شیخ عبد القادر کی کرامات پہنچیں ہیں کسی اور کی نہیں پہنچی ۔ ۴۴۳/۲۰۲۰۰/۴۲۹۲/۱]مشہور حنبلی امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں جس قدر کرامات حضرت شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کی بیان کی جاتی ہیں اسقدر کرامات کسی اور کی ہمیں سننے میں نہیں آئیں۲۹۲/۱۱۹۹/۴]اسی طرح امام ذہبی اور ابن رجب رحمہہما اللہ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ ۴۴۹/۲۰۲۹۷/۱]حتی کہ بعض لوگوں نے یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ شیخ کی کرامات اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں اعداد و شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔ ۱۹۹/۴]شیخ کی کرامات کے سلسلے میں جہاں بہت سے لوگ حد اعتدال کو پار کر گئے ہیں وہیں کچھ لوگوں نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی کھلی حق تلفی کی ہے۔
اس جماعت کے برخلاف ایک دوسری جماعت نے شیخ کے بارے میں غلو سے کام لیا اور ان کی طرف بعض ایسی کرامتیں بھی منسوب کردیں ہیں جو شیخ کے مقام و مرتبہ سے مناسبت نہیں رکھتیں۔ حتی کہ اسمیں سے بعض ایسی کرامتیں ہیں جو شریعت سے کھلے طور پر ٹکراتی ہیں سچ کہا ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہ مشائخ میں جس قدر کرامات و احوال شیخ عبد القادر کے بیان کئے جاتے ہیں کسی اور کے نہیں بیان کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ ان میں سے بہت سی کرامتیں جھوٹی ہیں اور بعض کرامتوں میں تو محال چیزوں کا ذکر ہے۔ ۲۵۰/۲۰]یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ کے تذکرہ اور کرامات سے متعلق وہ کتاب جو ابو الحسن الشطنوفی المصری نے لکھی ہے اس پر علماء نے سخت نکیر کی ہے حتی کہ بعض علماء نے اس کتاب کی بنیاد پر خود شطنوفی کو متہم اور جھوٹا قرار دیا ہے۔ ۲۹۳/۱۱۴۲/۳]مثال کے طور پر دو ایک ایسی کرامتیں ملاحظہ کر لیں جسے لوگوں نے جھوٹ اور غلط شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے۔
[بھجۃ الاسرار ۔
ابو حفص عمر الکیسانی بیان کرتے ہیں کہ شیخ عبد القادر لوگوں کے سامنے ہوا میں چلا کرتے تھے اور کہتے تھے سورج طلوع ہونے سے قبل مجھ سے سلام کرتا ہے ، کوئی بھی نیا سال آنے سے پہلے مجھ سے سلام کرتا اور مجھے یہ بتلادیتا ہے کہ سال بھر میں کیا کیا ہونے والا ہے، کوئی بھی نیا مہینہ آنے سے قبل مجھ سے سلام کرکے پورے مہینہ میں پیش آنے والے واقعات کی خبر دے دیتا ہے ، اسی طرح ہفتہ آنے سے قبل مجھ سے سلام کرکے ہفتہ بھر پیش آنے والے واقعات کی خبر دے دیتا ہے اور دن آنے سے پہلے مجھ سے سلام کرتا ہے اور پورے دن میں پیش آنے والے واقعات کی مجھے اطلاع دیتا ہے۔ نیز فرماتے : میرے رب کے عزت کی قسم نیک بختوں اور بدبختوں کے نام جو لوح محفوظ میں درج ہیں میری آنکھوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں میں علم الہی اور اس کے مشاہدات کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہوں میں تم تمام لوگوں میں اللہ کی حجت اور اس کے رسول کا نائب اور وارث ہوں۔ صفحہ ۳- ایک مرتبہ شیخ عبد القادر جیلانی لوگوں کے سامنے بڑے ہی حضور قلب سے تقریر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا: میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے یہ سن کر شیخ علی الھیثمی کھڑے ہوئے اور کرسی پر چڑھ کر شیخ کے قدم کو اپنی گردن پر رکھ لیا اور ان کے دامن میں داخل ہوگئے یہ دیکھ کر تمام حاضرین نے اپنی گردن جھکا دی۔ صفحہ اسی پر بس نہیں بلکہ اس مولف نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ جب شیخ عبد القادر نے یہ کلمات کہے تو ان کے دل میں حق تعالی کی تجلی نازل ہوئی اور مقرب فرشتوں کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خلعت خلافت لیکر آئی اور تمام گزرے ہوئے اور آنے والے ولیوں کی موجودگی میں زندہ ولی اپنے جسموں سمیت حاضر تھے اور مردہ ولیوں کی روحیں حاضر ہوئیں سب کے سامنے خلعت خلافت پہنادیا ، اس وقت فرشتے اور رجال غیب ہوا میں صفیں باندھے کھڑے تھے حتی کہ ان سے سارا افق بھرا ہوا تھا۔ صفحہ ان تینوں کرامتوں پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ان کا توحید کے خلاف ہونا بالکل ظاہر ہے، ہر شخص جو معمولی علم بھی رکھتا ہے وہ ان کے کذب و دجل ہونے کے بارے میں شبہ نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی اور ابن رجب رحمہمااللہ وغیرہ نے شیخ کی طرف منسوب بہت سی کرامتوں کے جھوٹے ہونے کی صراحت کی ہے۲۹۳/۱۴۵۰/۲۰]
۵۷۵البتہ شیخ رحمہ اللہ کی جو کرامات ثابت ہیں ان سے انکار کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی عقیدہ اہل سنت و جماعت کے خلاف ہے ان میں سے بعض کرامات کا ذکر امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے ذیل طبقات حنابلہ میں کیا ہے ۔
شیخ رحمہ اللہ چند نصیحتی کلمات کے بعد فرماتے ہیں:
[الفتح الربانی صفحہ مجلس ۔
اس مجلس نمبر کے آخر میں ہے کہ شیخ مجلس کی ابتداء میں یہ دعا پڑھتے پھر اپنی بات شروع کرتے۔
عالمينعدد خلقه وزنة عرشه ورضا نفسه ومداد كلماته ومنتهى علمه وجميع ما شاء خلق و ذرأ و برأ ، عالم الغيب والشهادة الرحمن الرحيم الملك القدوس العزيز الحكيم وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو على كل شيء قدير وإليه المصير وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أرسله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره الكافرون .
اللهم وأنت العالم بسرائرنا فأصلحها وأنت العالم بحوائجنا فاقضها وأنت العالم بذنوبنا فاغفرها وأنت العالم بعيوبنا فاسترها ، لا ترنا حيث نهيتنا لا تفقدنا حيث أمرتنا ، لا تنسنا ذكرك ولا تؤمنا مكرك لا تحوجنا إلى غيرك ، لا تجعلنا من الغافلين . اللهم ألهمنا رشدنا وأعذنا من شر أنفسنا ، اشغلنا بك عمن سواك ، اقطع عنا كل قاطع يقطعنا عنك ، ألهمنا ذكرك وشكرك وحسن عبادتك
لا إله إلا الله ما شاء الله ، لا حول ولا قوة لنا إلا بالله العلي العظيم
لا تبدأ أخبارنا ولا تهتك أستارنا ولا تؤاخذنا بسوء أعمالنا ، لا تحينا في غفلة ولا تأخذنا على غرة: