صحیح بخاری
کتاب الاذان ( اذان کے مسائل کے بیان میں ) باب : امامت کرانے کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو علم اور ( عملی طور پر بھی ) فضیلت والا ہو حدیث نمبر : 680 حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك الأنصاري ـ وكان تبع النبي صلى الله عليه وسلم وخدمه وصحبه أن أبا بكر كان يصلي لهم في وجع النبي صلى الله عليه وسلم الذي توفي فيه، حتى إذا كان يوم الاثنين وهم صفوف في الصلاة، فكشف النبي صلى الله عليه وسلم ستر الحجرة ينظر إلينا، وهو قائم كأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم يضحك، فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلى الله عليه وسلم، فنكص أبو بكر على عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبي صلى الله عليه وسلم خارج إلى الصلاة، فأشار إلينا النبي صلى الله عليه وسلم أن أتموا صلاتكم، وأرخى الستر، فتوفي من يومه. ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی ، کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی .... آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ، آپ کے خادم اور صحابی تھے.... کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے ۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے ، ہماری طرف دیکھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ( حسن و جمال اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا ۔ آپ مسکرا کر ہنسنے لگے ۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لارہے ہیں ، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو ۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی ۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون ) صحیح بخاری کتاب الاذان ( اذان کے مسائل کے بیان میں ) باب : امامت کرانے کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو علم اور ( عملی طور پر بھی ) فضیلت والا ہو حدیث نمبر : 681 حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا عبد العزيز، عن أنس، قال لم يخرج النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، فأقيمت الصلاة، فذهب أبو بكر يتقدم فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم بالحجاب فرفعه، فلما وضح وجه النبي صلى الله عليه وسلم ما نظرنا منظرا كان أعجب إلينا من وجه النبي صلى الله عليه وسلم حين وضح لنا، فأومأ النبي صلى الله عليه وسلم بيده إلى أبي بكر أن يتقدم، وأرخى النبي صلى الله عليه وسلم الحجاب، فلم يقدر عليه حتى مات. ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرمنقری نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایام بیماری میں ) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے ۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجرہ مبارک کا ) پردہ اٹھایا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دکھائی دیا ۔ تو آپ کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ( قربان اس حسن و جمال کے ) پھر آپ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ نے پردہ گرادیا اور ا س کے بعد وفات تک کوئی آپ کودیکھنے پر قادر نہ ہو سکا ۔ صحیح بخاری کتاب الاذان ( اذان کے مسائل کے بیان میں ) باب : امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں وصلى النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي توفي فيه بالناس وهو جالس. وقال ابن مسعود إذا رفع قبل الإمام يعود فيمكث بقدر ما رفع ثم يتبع الإمام. وقال الحسن فيمن يركع مع الإمام ركعتين ولا يقدر على السجود يسجد للركعة الآخرة سجدتين، ثم يقضي الركعة الأولى بسجودها. وفيمن نسي سجدة حتى قام يسجد. اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے ۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے ، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے ۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے ۔ صحیح بخاری صفۃ الصلوٰۃ ( اذان کا بیان ( نماز کے مسائل ) ) باب : اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو یا نمازی کوئی بری چیز دیکھے یا قبلہ کی دیوار پر تھوک دیکھے ( تو التفات میں کوئی قباحت نہیں ) حدیث نمبر : 754 حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا ليث بن سعد، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني أنس، قال بينما المسلمون في صلاة الفجر لم يفجأهم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم كشف ستر حجرة عائشة فنظر إليهم وهم صفوف، فتبسم يضحك، ونكص أبو بكر رضى الله عنه على عقبيه ليصل له الصف فظن أنه يريد الخروج، وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم، فأشار إليهم أتموا صلاتكم، فأرخى الستر، وتوفي من آخر ذلك اليوم. ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، انھوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا ، انھوں نے ابن شہاب سے ، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں ) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے پردہ ہٹایا ۔ آپ نے صحابہ کو دیکھا ۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے ۔ آپ ( خوشی سے ) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آپ کو دیکھ کر ) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں ۔ آپ نے سمجھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ۔ صحابہ ( آپ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا ) نماز ہی چھوڑ دیں گے ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا ۔ اسی دن چاشت کو آپ نے وفات پائی مواقیت الصلوات ( کتاب اوقات نماز کے بیان میں ) باب : عصر کے بعد قضا نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا حدیث نمبر : 590 حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد الواحد بن أيمن، قال حدثني أبي أنه، سمع عائشة، قالت والذي ذهب به ما تركهما حتى لقي الله، وما لقي الله تعالى حتى ثقل عن الصلاة، وكان يصلي كثيرا من صلاته قاعدا ـ تعني الركعتين بعد العصر ـ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما، ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته، وكان يحب ما يخفف عنهم. ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا ، یہاں تک کہ آپ اللہ پاک سے جا ملے ۔ اور آپ کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ۔ پھر اکثر آپ بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو ، انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا ۔ صفۃ الصلوٰۃ ( اذان کا بیان ( نماز کے مسائل ) ) باب : اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو یا نمازی کوئی بری چیز دیکھے یا قبلہ کی دیوار پر تھوک دیکھے ( تو التفات میں کوئی قباحت نہیں ) حدیث نمبر : 754 حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا ليث بن سعد، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني أنس، قال بينما المسلمون في صلاة الفجر لم يفجأهم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم كشف ستر حجرة عائشة فنظر إليهم وهم صفوف، فتبسم يضحك، ونكص أبو بكر رضى الله عنه على عقبيه ليصل له الصف فظن أنه يريد الخروج، وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم، فأشار إليهم أتموا صلاتكم، فأرخى الستر، وتوفي من آخر ذلك اليوم. ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، انھوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا ، انھوں نے ابن شہاب سے ، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں ) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے پردہ ہٹایا ۔ آپ نے صحابہ کو دیکھا ۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے ۔ آپ ( خوشی سے ) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آپ کو دیکھ کر ) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں ۔ آپ نے سمجھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ۔ صحابہ ( آپ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا ) نماز ہی چھوڑ دیں گے ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا ۔ اسی دن چاشت کو آپ نے وفات پائی ۔ صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ ( نماز کے احکام و مسائل ) باب : مسجد میں کھڑکی اور راستہ بنانا حدیث نمبر : 467 حدثنا عبد الله بن محمد الجعفي، قال حدثنا وهب بن جرير، قال حدثنا أبي قال، سمعت يعلى بن حكيم، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه عاصب رأسه بخرقة، فقعد على المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال " إنه ليس من الناس أحد أمن على في نفسه وماله من أبي بكر بن أبي قحافة، ولو كنت متخذا من الناس خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ولكن خلة الإسلام أفضل، سدوا عني كل خوخة في هذا المسجد غير خوخة أبي بكر ". ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا مجھ سے میرے باپ جریر بن حازم نے بیان کیا ، انھوں نے کہا میں نے یعلی بن حکیم سے سنا ، وہ عکرمہ سے نقل کرتے تھے ، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے ۔ سر سے پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا ، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں جانی دوست بناتا تو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کو بناتا ۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے ۔ دیکھو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں ۔ |
|