آج
دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے کہ روز ایک نئی ایجاد اور ایک نئی تھیوری سامنے آ رہی
ہے
ہر روز ہمیں کوئی نہ کوئی تحقیق سننے میں آتی ہے
کبھی کوئی نیا سیارہ دریافت ہوتا ہے تو کبھی ستارہ..
ہر چیز پر تحقیق کر کے اس کے بارے میں نئے نئے نظریات
پیش کئے جا رہے ہیں
مگر یہ سب نظریات جو سائنس آج بتا رہی ہے آج سے چار سو سال پہلے قران میں بیان کر دی گئی تھی میں آج آپ کو چند وہ سائنسی تحقیقات بتاؤں گا جنھیں آج کی سائنس ثابت کر
چکی ہےدنیا کی تخلیق
ایک مقبول نظریہ دنیا کی تخلیق کے بارے میں بگ بینگ ہے ۔
اسکے مطابق تمام دنیا شروع میں ایک بڑی کمیت تھی یعنیPrimary Nebula
پھر بگ بینگ ثانوی علیحدگی وقوع پذیر ہوئی ۔ پھر یہ ستارے سورج اور دنیا وجود میں آئى ۔ دنیا کی ابتدا کسی خاص مقصد کے تحت ہوئی۔ یہ اتفاقیہ نہیں تھی ۔ اس کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے کہ
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ بے شک آسمان اور زمیں
دونوں ملے ملے ہوے تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا ۔
(سورة الانبیاء ،۳۰)
ذرا سا اگر ہم غور کریں تو قرآن کی یہ آیت بگ بینگ کے نظریے سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ بات عرصہ پہلے ہی چلا ہے ۔ ١۴۰۰ سال پہلے قرآن میں آچکی تھی مگر اس کا پتہ ہمیں کچھ
اس تصدیق سے یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ قرآن بر حق ہے ۔ اور یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔کہکشاؤں سے پہلے دھوئیں کا تصور
فلکیاتی سائنسدان اس بات پہ متفق ہیں کہ کہکشاؤں کے وجود میں آنے سے پہلے فلکیاتی مادہ گیس کی شکل میں تھا ۔
موزوں ہے اس فلکیاتی مادہ کے لیے دھویں کا لفظ زیادہ
قرآن کی درج ذیل آیت اس حالت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ، وہ آسمان دھواں تھا ، اس ﴿اللہ ﴾ نے آسمان و زمیں سے کہا کہ وہ حاضر ہوں چاہے خوشی سے یا نا خوشی سے ، دونوں نے کہا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں ،
سورة حٰم السّجدہ ، ١١
اس آیت میں بیان کی گئى حقیقت ثابت ہو چکی ہے اور ایک بار پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن برحق ہے ۔۔زمین بیضوی ہے
پرانے لوگ یہ سوچتے تھے کہ زمین چپٹی ہے ۔ اس لیے وہ طویل سفر کرنے
سے ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ زمین کے کنارے سے گر پڑیں۔
سر فرانسس ڈریک وہ پہلا شخص تھا جس نے١۵۹۷میں بحری سفر کرنے کے بعد ثابت کیا کہ زمیں بیضوی ہے
۔ یہاں قرآن کی یہ آیت ملاحظہ ہو
کیا تونے نہیں دیکھا بے شک اللہ رات کو دن میں اور دن کو
رات میں تبدیل کرتا ہے یا داخل کرتا ہے
(سورة القمان ، ۲۹)
اس آیت میں دن رات کے بدلنے سے مراد یہ ہے کہ رات آہستہ آہستہ اور بتدریج دن میں بدلتی ہے اور دن رات میں ۔ یہ عمل صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب زمین بیضوی ہو ۔ اگر زمین چپٹی ہوتی تو رات و دن کی تبدیلی فوراَوقوع پذیر ہوتی ۔ مندرجہ ذیل آیت بھی زمین کے بیضوی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
اسی نے آسمانوں اور زمیں کو پیدا کیا تدبیر کے ساتھ
رات کو دن اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ وہی
(سورة الزمر ، ۵)
اس آیت میں عربی لفظ ؛ کور ؛ استعمال ہوا ہے جسکا مطلب لپیٹ لینے کا ہے جس طرح پگڑی کو سر کے
گرد لپیٹا جاتا ہے ۔
یہ عمل صرف اور صرف اس وقت ممکن ہے جب زمین بیضوی ہو ۔ اگر
زمین چپٹی ہوتی تو رات و دن کی تبدیلی فوراَ وقوع پذیر ہوتی ۔
زمین بالکل انڈے کی طرح گول نہیں بلکہ بیضوی ہے جس طرح شتر مرغ کا انڈہ ہوتا ہے
زمین کی شکل گیند سے ملتی ہے ۔
لہذا قرآن پاک زمین کی شکل کی درست درست وضاحت کرتا ہے عاؤں کا طالب عبدالحنان خان ابو الکلام خان