مسئلہ میلاد اسلام کی نظر میں ******** عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت *** میلاد نبوی اسلام کی نظرمیں *** مسئلہ بشریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم *** سنت اوربدعت کا بیان *** محفل مولود اسلام کی نظرمیں *** دین میں بدعت اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عید میلادالنبی کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام نے مسلمانوں کو صرف دو عیدیں ہی عطا کی ہے عیدالفطر اور عیدالاضحی ان عیدوں میں نماز پڑھنے او ر تکبیر وتہلیل کی تعلیم دی گئی ہے اسلام ہر عبادت شریفانہ ا ور پروقار انداز میں عاجزی وانکساری کے ساتھ ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے چراغاں کرنا گلی کوچے سجانا آرائشی دروازے اور محرابیں بنانا مخلوط جلوس نکالنا فلمی گانوں کے طرز پر نعتیں گانا وغیرہ یہ کیسی نیکی وعبادت ہے ؟ جس میں کوئی شریف آدمی حصہ ہی نہ لے سکے پھر مصنوعی پہاڑیاں بنانا خانہ کعبہ اور روضہ رسول کی شبیہیں بنا بناکر ان کا طواف کرنا پھر اپنے ہی ہاتھوں سے بیت اللہ اور روضہ رسول کو توڑ پھوڑ دینا کیا یہ حرمین شریفین کی توہین نہیں ہے ؟ گویا بیت اللہ کو گرانے کا جوکام ابرہہ نہ کرسکا ا ور روضہ رسول کو مٹانے کاجوکام مکار یہودی نہ کرسکے آج کے کچھ بے عقل مسلمان وہی کام ثواب دارین کی نیت سے اپنے ہاتھوں سرانجام دے رہے ہیں العیاذ باللہ صدافسوس کہ جس طرح ایران میں مجوسیوں کی جاری کردہ عید نوروز منائی جاتی ہے ا ور جس طرح شیعہ حضرات عیدغدیرخم مناتے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے بھی عید میلادالنبی ﷺ کی بدعت کو اپنا رکھا ہے جبکہ ١٨ذی الحجہ حضرت عثمان غنی کی شہادت کا دن ہے ا وردشمنان صحابہ ؓان کی شہادت کی خوشی میں عیدمناتے ہیں او ر اسے عیدغدیر کا نام دیتے ہیں بعینہ ١٢ربیع الاول نبی کریم ﷺ کی وفات کا دن ہے اور کچھ لوگ آپ ﷺکی وفات کے دن جشن مناتے ہیں اور اس کا نام عید میلادالنبی رکھتے ہیں میلادالنبی کے موقع پر اس قسم کے جشن منانا اور محفلیں منعقد کرنا شرعاناجائز اور سراسر بدعت اور دین میں نئی ایجاد ہے کیونکہ نہ تو رسول اللہ ﷺ نے خودایساکیا اور نہ خلفاءراشدین اور دوسرے صحابہ کرام ؓ نے ایسا کیا اورنہ قرون اولی میں تابعین وتبع تابعین ؒ نے اس کام کو سرانجام دیا حالانکہ وہ سب کے سب سنت کو زیادہ جاننے والے اور رسول اللہ ﷺ سے محبت میں زیادہ کامل او ر اتباع شریعت میں پیش پیش تھے اگر محفل میلاد منعقدکرنا دین کا حصہ ہوتا جس کو اللہ تعالی پسندکرتا تو یقینا رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لئے بیان کرجاتے یا اپنی زندگی میں محفلیں منعقدکرتے یا صحابہ کرام ؓ ان کا اہتمام کرتے چونکہ ایسا نہیں ہوا تو اس سے معلوم ہوا کہ محفل میلاد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ بدعات میں ہے اسی وجہ سے علمائے امت نے واشگاف الفاظ میں محافل میلاد پر ردوقدکی ہے دین میں اس قسم کی محفلوں کی ایجاد سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ نے اس امت کے لئے دین کو مکمل نہیں کیا ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے امت کو قابل عمل چیزیں بتائی ہیں اب بعد میں آنے والے لوگوں نے اللہ کی شریعت میں ایسی ایسی نئی بدعات شروع کردی جن کی اللہ نے قطعا اجازت نہیں دی ہے ا ن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ عمل ان کو اللہ کا مقرب بنادے گا ایسا ہرگز نہیں بلاشبہ بدعات پر عمل کرنے میں امت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے او ر اس طرز عمل سے اللہ وسول ﷺ پر بڑا حرف آتا ہے کیونکہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے دین کو مکمل او ر نعمت اسلام کو پورا کردیا ہے اور رسول ﷺ نے دین کی ہرایک بات امت تک پہنچادی اور جنت کی طرف لے جانے ا ور دزخ سے بچانے کا کوئی راستہ امت سے اوجھل نہیں رکھا اور اگر اس مسئلہ کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی طرف لوٹاتے ہیں تو ہمیں اس میں اس بات کا قطعا ذکر نہیں ملتا نہ آپ نے خود اہتمام کیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی دینی کام نہیں بلکہ ایجاد بندہ ہے یعنی بدعت ہے او ر یہ عید میلادالنبی دراصل یہود ونصاری کی عید میلاد (کرسمس ڈے) کے مشابہ ہے جبکہ قرآن وحدیث نے ہمیں ان کی مشابہت اختیارکرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے(ابوداﺅد) میلاد کی محفلوں میں بدعت ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر سب سے بڑا گناہ شرک اکبر کا ارتکاب بھی ہوتا ہے اکثرلوگ محفل میلاد النبی اور دیگر اولیاءکے میلاد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اور دوسرے اولیاءکی مدح میں غلو کرجاتے ہیں مشکلات کے دفع کے لئے ان کو پکارتے فریاد کرتے ہیں اور ان کے بارے میں عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو درحقیقت کفریہ امور ہیں جیسے بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ بذات خود تشریف لاتے ہیں اسی بناپر وہ لوگ صلوة وسلام اور خوش آمدید کہنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ اعتقاد انتہائی غلط ا ور بدترین جہالت ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت سے پہلے اپنی قبر سے نہیں نکلیں گے اور نہ کسی سے مل سکتے ہیں او ر نہ ہی لوگوں کے اجتماعات میں حاضر ہوسکتے ہیں بلکہ آپ روز قیامت تک اپنی قبر شریف میں آرام فرما ہیں اسلام کو دنیا میں آئے ہوئے تقریبا ساڑھے چودہ سو سال ہوگئے کہیں بھی عیدمیلاد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ ہی کتب فقہ میں محفل عید میلادالنبی ﷺ کی اس بدعتی رسم کو ساتویں صدی ہجری سے پیشتر کوئی جانتا بھی نہیں تھا کیونکہ اس رسم کی ایجاد ٦٠٤ھ میں ہوئی ہے (ابن خلکان ٣٨١)اور اس رسم میلاد کا موجد اول ملت اسلامیہ کا سامری ملک معظم مظفرالدین ابوسعید کوکپوری ترکمانی ابوالحسن علی بن بکتین بن محمد ہے جو عراق میں موصل کا ایک علاقہ اربل کا مالک تھا (الانصاف فیما قیل فی المولد ٣٤) اس کی وفات ١٨رمضان ٦٣٠ھ میں ہوئی ہے یہ بادشاہ جشن میلاد کا اہتمام بڑے دھوم دھام سے کرتا اور خود بنفس خبیث اس مجلس میں شریک ہوکر بھانڈوں اور گویوں سے گانا سنتا اور وجد ومستی میں آکر خوب جھوما اور ناچاکرتا تھا (فتاوی رشیدیہ ١٣٢)اورسب سے پہلے اس بدعت کے جواز کا فتوی دینے والااور اس کے لئے مواد جمع کرنے والااور اس کی ترویج واشاعت پر سعی بلیغ کرنے والا ایک درباری وسرکاری اور کاروباری دنیا دار شکم پرست جھوٹا اور بے دین ملا تھا جس کا نام عمر ابن الحسن ہے جو ابن دحیہ کلبی کے نام سے مشہور ہے جو گستاخ سلف کذاب معلن الفسق والنفاق بدخصلت وبدقماش تھا (لسان المیزان ج٢٩٥/٤میز ان الاعتدال ٢٢٨قرة العیون ج٥٠/١) اس بدعتی نے اس بدعت کی تائید میں التنویر فی مولد البشیروالنذیر نامی ایک کتاب بھی لکھ ماری اور مجلس میلاد کا موجد اول ملک مظفر کی خدمت میں پیش کرکے سرخروئی بھی حاصل کرلی بادشاہ نے اس کے صلہ میں اس کو ایک ہزار اشرفی بطور انعام عطاکیا (ابن خلکان ٣٨١(الانصاف فیما قیل فی المولد ٣٥) لمحہ فکریہ دوستو ! سوچو تو سہی کملی والے مصطفے کی ولادت باسعادت آج نہیں آج سے تقریبا پونے پندہ سوسال پیشتر ہوئی تھی اور آپ نے اس دارفانی میں تریسٹھ سال تک زندگی بھی گذاری چالیس سال منصب نبوت ورسالت سے پہلے اور تئیس برس سرفرازی منصب ختم نبوت کے بعد لیکن کہیں بھی اس کا سراغ نہیں ملتا کہ رسالت مآب ﷺ نے کبھی بھی اس طرح کی سالگرہ یا برسی منائی ہو یا آپ کے بعد صحابہ کرام ؓ تابعین عظامؒ ائمہ ذی احترام ؒ محدثین باوقارؒ اس نوع کا جنم دن منایا ہو اگر آپ کا برتھ ڈے جنم دن منانا کوئی دینی کام ہوتا سالگرہ اور جشن میلاد کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو کیوں نا خود بنفس نفیس ختم نبوت کے منصب پر فائز شخصیت اپنی جشن ولادت رچائے کیوں نا شمع رسالت کے پروانے صحابہ کرامؓ آپ کی پیدائش کی خوشی میں محافلسجائے خصوصا خلفائے راشدین ؓ صدیق اکبرؓ فاروق اعظمؓ عثمان غنیؓ علی حیدرؓ جیسے محبان رسول کیوں نہ اس اظہار محبت کو اپنائے ائمہ اربعہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام شافعیؒ امام مالکؒ امام احمد بن حنبلؒ جیسے ائمہ مجتہدین کیوں نہ اسے اختیار کئے جب خود ماہ رسالت شمع ہدایت ﷺ اور ان سے بے پناہ الفت ومحبت رکھنے کے باوجود صحابہ کرامؓ تابعین عظام ؒ علمائے امتؒ امامان دین وشریعتؒ کبار اولیائے کرامؒ سلف صالحین عظام ؒنے آپ کی ولادت کی مسرت میں جشن عید میلاد نہیں سجائی تو کیا ان کے بعد والوں کے لئے محفلیں رچانا زیب دیتا ہے ؟ کیا ہم ان (رسول ﷺ) سے فائق ہیں جن کی دیدار کے لئے حور وملک جن وبشر شائق ہیں کیا ہم ان (صحابہ کرام ؓ) سے افضل ہیں ؟جو دربار الہی سے رضا مندی کی سند حاصل کرچکے ہیں کیا ہم ان (تابعینؒ) سے بڑھ کر ہیں ؟جن کی زندگی کے اوقات کو خیرالقرون کہا گیا ہے کیا ہم ان (مجتہدینؒ) سے برتر ہیں ؟جو بارگاہ ذوالجلال سے اجتہادی لغزشوں پر بھی ثواب سے ہمکنار ہوتے ہیں کیا ہم ان (علمائؒ) سے بہتر ہیں جن کے پاس انبیاءکی وراثت ہے کیا ہم ان (محدثینؒ ) سے اعلی ہیں جن کی نگاہ کے تروتازہ رہنے کی بشارت ہے کیا ہم ان (اولیائؒ) سے ارفع ہیں جن سے عداوت رکھنے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے اعلان جنگ ہے نہیں ہرگز نہیں بالکل ہی نہیں اکدم نہیںسرے سے نہیں تو پھر کیا وجہ ہے ؟کہ جن امور سے وہ کوسوں دور تھے ہم انہیں اعمال خیر خیال کرکے بجالانے کو عز وشرف گمان کرتے ہیں جب ان نفوس قدسیہ نے عید میلاد النبی کی محفلیں نہیں منعقد کی تو اس کی علت کیا ہے ؟ اور اس کی وجہ کیا ہے ؟ یا تو یہ باور کرناہوگا کہ اس وقت ماہ ربیع الاول آتا ہی نہیں تھا یا یہ تصور کرنا ہوگا کہ مہینہ تو آتا تھا لیکن نویں یا بارہویں تاریخ نہیں آتی تھی یا یہ ماننا ہوگا کہ صحابہ کرامؓ خصوصا خلفائے راشدین کو شمع ہدایت ماہ رسالت ﷺ سے ہم جیسی عقیدت ومحبت اور والہانہ الفت نہیں رہی ہوگی یا یہ تصور کرنا ہوگا کہ ان فرشتہ صفت انسانوں کو جشن میلاد منعقد کرنے کا ڈھنگ ہی نہ رہاہو وہ جانتے ہی نہ ہو کہ عقیدت ومحبت کا اظہار کس طرح کیا جاتا ہے اس لئے وہ حضرات اس نیک کام سے محروم رہ گئے ہوں یا یہ خیال کرنا ہوگا کہ ذات نبوی اور بات رسول پر اپنی پاک جانوں کو قربان کرنے والے صحابہ کرام بخیل وکنجوس تھے (نعوذباللہ) اور اسی کنجوسی وبخیلی کی وجہ سے اس کار خیر سے اعراض کئے ہوں یا پھر یہ یقین کرنا ہوگا کہ مکی ومدنی تاجدار محبوب کردگا رکے ایک ایک نقش پا کا تتبع وتلاش کرنے والے پاکباز نفوس اس کام کو صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ بدعت وخلاف سنت باور کئے ہوں اور اس دن اور اس تاریخ کے آنے کے باوجود بخیلی وعدم ڈھنگ نہ ہونے کے باوجود اس عمل سے قصدا وعمدا پرہیزکئے ہوں اور اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے ہوں اوپر والی تمام وجوہات کالعدم ہیں کیونکہ ان کا بطلان روز روشن کی طرح عیاں ہے ان وجوہات کے غلط ہونے میں شکوک وشبہات کی کوئی گنجائش نہیں اگر کوئی شک کرے تو اس کی عقل میں فتور ہے اور رہی آخری وجہ تو یہی صحیح ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود مہینہ وتاریخ کی آمد کے باوجود بخیلی وعدم علم نہ ہونے کے باوجود ہمارے بالمقابل نبی رحمت سے بہت زیادہ تعلق ولگاﺅ ہونے کے باوجود الفت ومودت میں غرق ہونے کے باوجود انہوں نے اس کام کو کارخیر نہیں سمجھا بلکہ بدعت وخلاف سنت جان کر قصدا وعمدادیدہ ودانستہ اس سے احترازکیا جب ان پاکباز ہستیوں نے ایسے مجالس منعقد نہیں کئے تو ہم ایسی محفلیں کیوں رچائیں گے جبکہ اس فتنہ کو جس کی آندھی وطوفان میں موجودہ دور کے علمائے سوءاور عصر حاضر کے عوام کالانعام ذرات ریت کے مانند اڑگئے اور اڑرہے ہیں نہ متقدمین میں سے کسی نے اس رسم کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا نہ متاخرین میں سے کسی نے اچھی نظر سے دیکھا بلکہ ہر زمانہ اور ہردور میں اس کی روک تھام کی کوشش کی گئی اور اس کے سد باب کے لئے ہر ایک نے بڑی شد ومد کے ساتھ تحریری وتقریری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر زبانی وقلمی جہاد کا فریضہ سرانجام دیا اور اس کے بدعت وخلاف سنت ہونے پر متفقہ طور سے اپنی مہر تصدیق ثبت فرمادی جزاھم اللہ خیرالجزائ سب مسلمان جانتے ہیں عید کے دن روزہ رکھنا قطعا حرام ہے جبکہ نبی ﷺ سے سوموارکو روزہ رکھنا ثابت ہے (مسلم) معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے ولادت کے دن کو عید کی طرح نہیں بلکہ یوم تشکر کے طورپرہرہفتہ منایا ہے لہذا آج بھی اگر رسالت مآب کی میلاد منانا ہو تو ہر ہفتہ سوموار کو منایا جا ئے اور اس کا وہی طریقہ ہو جو آپ ﷺکا طریقہ تھا حدیث رسول ﷺمیں میلاد منانے کا طریقہ ملتا ہے ہمیں اسی طریقہ پر میلادمناناچاہئے چنانچہ صحابہ کرام نے نبی رحمت سے سوال کیا کہ آپ سوموا رکو روزہ کیوں رکھتے ہےں ؟ تو آپ نے جوابا فرمایا فیہ ولدت وفیہ انزل علی (مسلم ج٣٦٨/١) میں اسی سوموار کے دن پیدا کیا گیا ہوں اور اسی دن نبی بنایا گیا ہوں پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب بھی مجلس میلاد رچانے کا ارادہ ہو تو صاحب شریعت نبی رحمت ﷺ کا طریقہ اپناکر ہر سوموار کو روزہ رکھیں اور مہینہ وتاریخ کے قید وبند سے دور رہیں یہی آپ کا طریقہ ہے اور اسی میں اللہ ورسول کی رضامندی ہے الہی ! تمام مسلمانوں کو بدعات وخرافات سے دور رہنے کی توفیق مرحمت فرما اور قرآن وحدیث کا شیدائی وفدائی بناکر شفیع المذنبین ﷺکی شفاعت بروز قیامت نصیب فرما*** ***