بابری مسجد کی شہادت کا جرم، قبول اسلام کا سبب محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ بلبیر سنگھ کی پیدائش6 دسمبر1970ء کو پانی پت کے ایک گاؤں میں ایک راج پوت گھرانے میں ہوئی تھی ، ان کے والد ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ بہت اچھے انسان تھے او رانسانیت دوستی ان کا مذہب تھا۔ وہ کسی پر بھی ظلم کو برداشت نہیں کرسکتے تھے، وہ ہمیشہ مذہب سے اوپر اٹھ کر سب کی مدد کو تیار رہتے تھے ۔ بلبیر سنگھ نے اپنے گاؤں کے اسکول سے ہائی اسکول پاس کرکے انٹر میڈیٹ کے لیے پانی پت میں داخلہ لے لیا، جہاں اس کی دوستی کچھ شیو سینکوں سے ہو گئی اور وہ بھی شیوسینا میں شامل ہو گیا۔ بلبیر کے والدکو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اسے بہت سمجھایا، انہوں نے اسے تاریخ کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ نفرت سے بھری تاریخ انگریزوں نے ہمیں لڑانے کے لیے گھڑ کر تیار کی ہے ۔ شیوسینا نے اس کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھردی تھی، جس کی وجہ سے اس کی سمجھ میں اپنے والد کی کوئی بات نہیں آئی ۔ 1990ء میں ایڈوانی کی رتھ یاترا میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اوراس نے قسم کھائی کہ وہ ایودھیا میں رام مندر بنا کر رہے گا۔ بلبیر سنگھ خود بتاتے ہیں کہ ”ہم لوگ 4 دسمبر1992ء کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ، جس میں میرا دوست سونی پت کا یوگندرپال بھی تھا، جس کے والد سونی پت کے ایک بڑے زمین دار ہیں، وہاں ہم نے اومابھارتی کا بھاشن سنا، جس نے ہمارے اندر آگ بھردی، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا” دھکا ایک اور دو، بابری مسجد توڑ دو“ بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا تھا اور ہم لوگ کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور ”جے رام“ کے نعرے لگانے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد مسمار ہو گئی۔ اس کے بعد خوش خوشی ہم لوگ واپس پانی پت آگئے ، وہاں ہماری خوب پیٹھ تھپتھپائی گئی“ یہ بات جب بلبیر سنگھ کے والد کو معلوم ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے بلبیر سے کہا کہ وہ اس کا منھ دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا تم جیسے لوگ دیش کو توڑنا چاہتے ہو۔ بلبیر بھی غصے میں پانی پت واپس آگیا۔ |
|