جوبادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
آہ!نمونۂ سلف مولانا محمد عمر سلفیؔ رحمہ اللہ
تحریر۔عبدالمنان سلفیؔ
جماعتی ،علمی اوردعوتی حلقوں میں یہ خبر بڑے رنج وغم کے ساتھ سنی گئی کہ نمونۂ سلف اورعالم باعمل جناب مولانا محمدعمر سلفیؔ رحمہ اللہ سابق شیخ الجامعہ وشیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم بونڈیہار ضلع بلرام پور ایک طویل علالت کے بعد ۹؍مارچ ۲۰۱۰ء بوقت ظہرانتقال فرماگئے،انا للہ واناالیہ راجعون۔
معروف عالم دین مولانا ابوالعاص وحیدی ؍حفظہ اللہ(جنھیں جامعہ سراج العلوم بونڈیہار میں طویل عرصہ تک مولانا محمدعمر سلفیؔ رحمہ اللہ کے ساتھ تدریسی و دعوتی فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا اور اسی دوران تاریخ جامعہ مرتب کرتے وقت مولانا کے حالات زندگی قلمبند فرماچکے ہیں) کے مطابق مولانا محمدعمرصاحب کا آبائی وطن ٹیرا ٹکرا، ضلع بارہ بنکی تھا،مولانا کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والد نے ترک مکانی کرکے کرنیل گنج ضلع گونڈہ کے قریب سِسْئی گاؤں میں سکونت اختیارکی، اسی بستی میں مولانا محمد عمر صاحب کی پیدائش ۱۹۲۰ء میں ہوئی۔ بعد میں اس بستی کو بھی ان کے والد نے چھوڑ دیا اوراولاً دال ڈیہہ دھاری گھاٹ میں آباد ہوئے اور بالآخر اوسانی فیروزضلع گونڈہ نزد گوراچوکی میں مستقل سکونت پذیر ہوگئے۔
ابتدائی تعلیم دال ڈیہہ کے قریب پرائمری اسکول میں پائی، تقریباً ۱۹۳۲ء میں جامعہ سراج العلوم ، بونڈیہار میں داخلہ لیا اورجماعت ادنیٰ کی تعلیم مکمل کی، اور۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۷ء تک جامعہ عالیہ عربیہ مؤمیں رہے اوروہاں جماعت رابعہ تک تعلیم مکمل کی،اس کے بعدمدرسہ سعیدیہ دہلی تشریف لے گئے اورشیخ الحدیث مولانا احمداللہ پرتاب گڈھی اور مولاناابوسعید شرف الدین دہلوی رحمہمااللہ سے بطورخاص استفادہ کیا اور ۱۹۴۰ء میں وہیں سے فراغت حاصل کی۔
فراغت کے بعد ایک برس تک قصبہ بارا،ضلع غازی پورمیں تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دیا اورپھر ریاست پٹیالہ میں تعلیم کی خدمت پر مامورہوئے اور۱۹۴۷ء تک وہاں رہے،ایک برس ناگ پورمیں بھی رہے، پھرشمس الہدیٰ دِلال پور مغربی بنگال میں کئی برس تک تدریسی فرائض انجام دئے، ۱۹۶۴ء میں ایک سال جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر(نیپال) میں تدریس فرمائی اوراس کے بعد ۱۹۶۵ء سے ۲۰۰۴ء تک پورے تسلسل کے ساتھ جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار میں تدریسی خدمت انجام دیتے رہے۔
مولانا اخلاق ومعاملات اور عقائد وعبادات میں سلف صالحین کا نمونہ تھے،پوری زندگی تعلیم وتدریس اوردعوت وتبلیغ میں گذاردی،مولانا ایک کہنہ مشق اورمنجھے ہوئے استاد اورمشفق مربی تھے ساتھ ہی آپ دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی بڑے سرگرم رہے،آپ کا وعظ کتاب وسنت کے نصوص سے مدلل اوربڑا موثرہوتاتھا ،علاقائی جلسوں اورکانفرنسوں کے علاوہ دوردراز کے دعوتی پروگراموں میں آپ کوشرکت کی دعوت دی جاتی تھی،جمعیت وجماعت سے بھی ہمیشہ وابستہ رہے ،ایک زمانہ تک ضلعی جمعیت اہل حدیث ضلع بلرام پورکے صدر اورامیررہے، نیز صوبائی اورمرکزی جمعیتوں کے ساتھ بھی تعاون کرتے رہے،مولانا شبِ زندہ دار عالم تھے موجودہ زمانہ میں آپ جیسی بزرگ شخصیت کا وجود عنقا ہے،مولانانے بونڈیہار کے طویل قیام کی مدت میں تدریس کے ساتھ افتاء کابھی کام کیاہے اور شرعی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے،افتاء کے لئے اکثر آپ شروحات حدیث اورفتاویٰ ابن تیمیہ نیز المغنی لابن قدامہ کامطالعہ فرماتے تھے،مولاناکی طویل ترین تدریسی ودعوتی خدمات کے اعتراف کے طورپر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ (جھارکھنڈ) میں آپ کو ایوارڈ اور انعام سے نواز کر آپ کی قدر دانی کی کوشش کی گئی۔
بلاشبہ مولاناکی وفات سے زبردست علمی ودعوتی خلاپیداہواہے اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اور آپ کے جملہ پسماندگان ،تلامذہ اور محبین و معتقدین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔(آمین)
۱۰؍مارچ کو تقریباً ۱۱؍بجے قبیل ظہرمولاناعبدالسلام رحمانی؍حفظہ اللہ(وکیل الجامعہ، جامعہ سراج العلوم، بونڈیہار) کی امامت میں نماز جنازہ اداکی گئی اورآپ کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیاگیا، تقریباً ڈیڑھ ہزارعلماء ،طلبہ اورعقیدتمند نماز جنازہ میں حاضر رہے،خاص شرکاء میں مولاناعبداللہ مدنی جھنڈانگری، مولاناشہاب الدین مدنی (امیرصوبائی جمعیت اہل حدیث مشرقی یوپی) مولاناابوالعاص وحیدی،مولانا تبارک حسین قاسمی، مولانا ڈاکٹر عبدالرحمن لیثی، مولانامحمدابراہیم مدنی، مولاناعبدالعلیم ماہربستوی، وغیرہم قابل ذکرہیں، راقم کو بھی مولانا کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ وامطر علیہ شأبیب رحمتک۔