|
|
روزے کی فرضیت و مشروعیت
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ(یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ) ''
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے' تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (البقرة : ١٨٤)ایک اور آیت میں ہے کہ ''جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔'' (البقرة : ١٨٥)
حدیث نبوی ہے کہ'' جب تم اسے (یعنی ہلال رمضان کو) دیکھ لوتو روزے رکھو۔'' (بخاری (١٩٠٠))
ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔(بخاری (٨))
فضائل روزہ ورمضان :
٭جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں ۔قیامت کے دن اس دروازے سے جنت میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔ان کے سوا اور کوئی اس میں سے داخل نہیں ہوگا ۔(بخاری (١٨٩٦))
٭جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔(بخاری (١٩٠١))
٭جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔(بخاری (١٨٩٨))
ایک روایت میں ہے کہ :جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں 'جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ (بخاری (١٨٩٩))
٭ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب )وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے )جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گاتو اپنے روزے کا ثواب حاصل کرکے خوش ہوگا۔(بخاری (١٩٠٤))
٭روزہ قیامت کے دن مومن بندے کی سفارش کرے گا ۔(صحیح الترغیب (٩٨٤))
٭رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہو جاتا ہے ۔(مسلم (١٢٥٦))
٭روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔(ترمذی (٣٥٩٨))
٭افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں ۔(ابن ماجة (١٦٤٣))
روزہ کے فوائد :
حدیث نبوی ہے کہ ''روزے رکھو صحت مند ہو جاؤگے ۔''(الترغیب والترھیب (٨٣٢)) عصرحاضر کی جدید سائنسی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جسم انسانی پر سال بھر میں لازما کچھ وقت ایسا آنا چاہیے جس میں اس کا معدہ کچھ دیر فارغ رہے ۔کیونکہ مسلسل کھاتے رہنے سے معدے میں مختلف قسم کی رطوبتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔لیکن روزے سے یہ رطوبتیں اور ان سے پیدا ہونے والے کئی مہلک امراض ختم ہو جاتے ہیں اور نظام انہضام پہلے سے قوی تر ہو جاتا ہے ۔روزہ شوگر 'دل اور معدے کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے اور مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ نرائیڈ کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہو جاتا ہے ۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سنت نبوی اور جدید سائنس (١٦٢١))
ڈاکٹر عبد الحمید دیان (Abdul-Hamid Dian)اور ڈاکٹر احمد قاراقز (Ahmad Qara Quz)اپنے ایک آرٹیکل "Medicine in the Glorious Qur'an."میں لکھتے ہیں کہ
''روزہ انسان کی جسمانی 'نفسیاتی اور جذباتی بیماریوں کے لیے مؤثر علاج ہے ۔یہ آدمی کی مستقل مزاجی کو بڑھاتا ہے ' اس کی تربیت کرتا ہے اور اس کی پسند اور عادات کو شاندار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔روزہ انسان کو طاقتور بناتا ہے اور اس کے اچھے اعمال کو پختہ عزم دیتا ہے ۔تاکہ وہ لڑائی وفسادات کے کاموں 'چڑچڑے پن اورجلد بازی کے کاموں سے اجتناب کر سکے ۔یہ تمام چیزیں مل کر اس کو ہوشمند اور صحت مند انسان بناتی ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کی ترقی 'قوت مدافعت اور قابلیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ وہ مشکل حالات کا سامنا کر سکے ۔روزہ انسان کو کم کھانے کا عادی بناتا ہے اور اس کے موٹاپے کو کنٹرول کرتا ہے جس سے اس کی شکل وشباہت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے ۔
روزے کی وجہ سے انسان کی صحت پر جو اثرات وفوائد مرتب ہوتے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہوتے بلکہ روزہ انسان کو بہت سی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے جن میں اہم و قابل ذکر نظام انہضام کی بیماریاں ہیں مثلاجگر کی بیماریاں 'بدہضمی وغیرہ ۔علاوہ ازیں موٹاپا 'بلڈ پریشر 'دمہ'خناق اور ان جیسی دیگر بہت سی بیماریوں کا علاج ہے ۔ روزے کی حالت میں بھوک کی وجہ سے انسان کے جسم میں موجود خون کے خراب خلیوں کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے او ران کی جگہ خون کے نئے خلیے بننے شروع ہو جاتے ہیں ۔''
ڈاکٹر شاہد اطہر (Shahid Athar)جو کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی''انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن'' کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں وہ فوائد رمضان کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل :"The Spiritual and Health Benefits of Ramadan Fasting"میں لکھتے ہیں کہ
''روزہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو نرم مزاج 'اعتدال پسند اور مثالی بننا چاہتے ہیں ۔1994ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ''رمضان اور صحت ''جو کہ' کاسابلانکہ 'میں منعقد ہوئی ۔اس میں طبی حوالے سے روزے کی وسعت و پھیلاؤ کے بارے میں 50اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ۔جس سے نظام طب کے حوالے سے بہت سے اچھے اثرات سامنے آئے حتی کہ یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ روزہ مریضوں کے لیے کسی بھی طریقے سے نقصان دہ نہیں ہے ۔جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس میں سکون اور صبر وتحمل کا درس لیتے ہیں ۔روزہ کی حالت میں انسان کی نفسانی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں اور انسان کئی اور دوسرے جرموں سے بچ جاتا ہے ۔''
چاند دیکھنے کے مسائل:
٭ماہِ رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے اور (عید کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنا چاہیے ۔(بخاری (١٩٠٦))
٭رسو ل اللہ ۖ جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے '' اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ أَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالِْیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالِْسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ رَبَّنَا وَیَرْضٰی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ '(ترمذی (٣٤٥١))
٭ماہِ رمضان کے چاند کے متعلق ایک دیانتدار مسلما ن کی گواہی کافی ہے۔(ابو داود (٢٣٤٢))
٭اگر چاند نظر نہ آسکے تو ماہِ شعبان کے دن مکمل ہونے پر روزے رکھنے چاہییں ۔(بخاری (١٩٠٩))
٭مشکوک دن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔(ابو داود (١٣٣٤))مشکوک دن سے مراد ماہ شعبا ن کا تیسواں روز ہے یعنی جب اس رات ابرآلودگی کے باعث چاند نظر نہ آئے اور یہ شک ہوجائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟ ۔
٭جب ایک علاقے والے چاند دیکھ لیں تو اسکے گردونواح کے علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں پر بھی روزے فرض ہوجائیں گے۔
٭اگر تیس دنوں تک شوال کا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے رکھ لینے چاہیں۔(بخاری (١٩٠٦))
آداب روزہ :
٭روزہ رکھنے والے پر فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے۔(ابو داود (٢٤٥٤))
٭نفلی روزے کے لیے زوال سے پہلے بھی نیت کی جاسکتی ہے ۔(مسلم (١١٥٤))
٭ہر روزے کے لیے الگ نیت کرنا ضروری ہے۔اور نیت محض دل کے ارادے کانام ہے' الفاظ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
٭ سحری کھانے میں برکت ہے۔ اور اہل کتاب کی مخالفت ہے ۔(بخاری (١٩٢٣))۔(مسلم (١٠٩٦))
٭صبح سحری کے لیے بیدار ہو جانے کے بعد صبح صادق کے خوب نمایاں ہو جانے تک سحری کا وقت ہے۔(البقرة : ١٨٧)
٭مومن کی بہترین سحری کھجور ہے ۔]ابو داود (٢٣٤٥))
٭تاخیر سے سحری کھانا اور جلد افطاری کرنا مستحب ہے ۔ (سلسلة الاحادیث الصحیحہ (٣٧٦٤))
٭جب سورج غروب ہو جائے تو افطاری کر لینی چاہیے اس کے لیے اذان کا انتظار نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔(بخاری (١٩٥٤))
٭اگر کوئی لاعلمی کے باعث وقت سے پہلے روزہ افطار کر لے تو اس پر نہ قضاء ہے اور نہ کفارہ کیونکہ بھول چوک کو معاف کیا گیا ہے۔
٭رسول اللہ کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے' اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ کھولتے۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔(بو داود (٢٣٥٦))
٭''نبی کریم ۖ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعاپڑھتے '' ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ ِنْ شَائَ اللّٰہُ '(ابو دواد (٢٣٥٧) )
٭روزہ دار کو چاہیے کہ وہ کثرت کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کے کام سرانجام دے اور ہر قسم کے ممنوع کام سے پرہیز کرے ۔اور اس پر واجب ہے کہ وہ فرائض کی پابندی کرے اور حرام کاموں سے دور رہے ۔پانچوں نمازیں وقت پر باجماعت ادا کر ے اور جھوٹ 'غیبت 'دھوکہ 'سودی معاملات اور ہر حرام قول وفعل چھوڑ دے ۔ نبی کریمۖ نے فرمایا ہے کہ ''جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل اور جہالت کے کاموں کو نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا اور پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔''
روزہ دار کے لیے مباح امور:
٭مبالغے کے بغیر کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا۔(ابو داود (٢٣٨٥))
٭تیل لگانااور کنگھی کرنا۔(بخاری :کتاب الصوم : باب اغتسال الصائم)
٭گرمی کی وجہ سے غسل کرنا۔(بو داود (٢٣٦٥))
٭حالت جنابت میں روزہ رکھنااور بعد میں غسل کرنا۔(بخاری (١٩٢٦))
٭سینگی یا پچھنے لگوانا۔(بخاری (١٩٣٨' ١٩٣٩))
٭سرمہ لگانا ۔(ابن ماجة (١٦٧٨))
٭ بیوی کا بوسہ لینا اور مباشرت کرنااُس کے لیے جو ضبطِ نفس کی طاقت رکھتا ہو۔(بخاری (١٩٢٧))
٭مسواک کرنا۔(ابو داود (٢٣٦٤))
٭ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا۔(بخاری :کتاب الصوم : باب اغتسال الصوم)
٭اپناتھو ک نگلنا۔(بخاری :کتاب الصوم : باب اغتسال الصائم)
٭مہندی لگانااور میک اَپ کرنا۔(مجموع الفتاوی لابن باز (٣٤٩١))
کھل گئے جنت کے دروازے اور دوزخ کے بندجنت میں جائیں گے جوہیں
روزے کے پابندیہ ہے بخشش کا سامانآیا ماہرمضان
اپنا یہ مہمان معظم آتا ہے ہر سالکرتے ہیں اہلایمان اس کا دلی استقبالاس کی بڑی ہے شانآیا ماہ رمضانماہ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت سے بھرپوردوسرے میں ہوتا ہے ہردم عفو و کرم کا ظہورآخری عشرے میں جنت کی پہچانآیا ماہرمضان
کئی درجے بڑھ جاتا ہے فرض کا اس میں ثوابنفلوں کا فرض کےبرابر اجر ہے عالی جنابخوب جلا پائے ایمانآیا ماہ رمضانروزے میرے لیے ہیں تو ہوں خوش اس جزاروزے دار کو اس کا بدلامیں خود کرونگا عطایہ ہے اللہ کا فرمانآیا ماہرمضان
روزے دار کے منہ کی بو رب کو بڑی محبوبیہ طالب ہےرب کا اور خود ہے رب کا مطلوباس سے ہے راضی سبحانآیا ماہرمضانجس دروازے سے جائیں گے خلد میں روزے دارہر اک قدم پہ آئے گیان کو خوشبو کی مہکاردل کے نکلیں گے ارمانآیا ماہرمضان
روزہ داروں پر خالق کا ہے یہ بڑا انعامجنت میں ان کےدروازے کا ہے حدیث میں یہ نامجو کہلائے باب الریانآیا ماہرمضانہر اک سمت سے آئیں نمازی جب ہو وقت نمازہے یہ حقیقت ماہرمضان کا ہے یہ اعجازہوگئے بے بس شیطانآیا ماہرمضانبھری بھری ہے ہر اک مسجد ہر لمحے انمولبندے ہیںمصروف عبادت کرو کھل کے غوراس سے راضی ہے رحمانآیا ماہ رمضاننفل ادا کرتا ہے کوئی ، کوئی فرض اداپڑھ رہا ہے درود نبیۖ پرکوئی کوئی کلام خداریل پے رکھا ہے قرآنآیا ماہ رمضانروحکی ہیں جتنی بیماریاں ، روزہ ہے ان کا علاجنفس کے سر پہ رکھ دیتا ہے یہ تقوے کیتارہے یہ روحانی ارمانآیا ماہ رمضان
گھر گھر رونق ہے اس کی ظاہر دن ہو یا راتہوئی ہے اس کی دیکھوہر جانب برکاتخیر کا ہے یہ تو عنوانآیا ماہرمضانافطاری اور سحری کے بیچ ہے دن کا منظرچہل پہل ہے ہرطرف ، مسجد ہو یا گھررحمتوں کی بارش ہے ہر آنآیا ماہرمضانجگہ جگہ ہوت ہیں شبینے ، مچتی ہے ہر سو دھوماور شبینوں میںلوگوں کا ہوتا ہے خوب ہجومیہ ہے مہینوں کا سلطانآیا ماہرمضان
ماہ میں اس کے تیس ہیں روزے اور شوال کے چھ
جس نے رکھے اس کو رب جزا سال کے روزوں کی دے
یہ ہے محمدۖ کا اعلان
آیا ماہ رمضان