شعبان کے آخر میں روزے رکھنا :
صحیحن میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوفرمایا : کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم روزے ختم کرو تواس کے بدلے میں دو روزے رکھو ۔ اورمسلم کی ایک روایت میں ہے کہ : کیا تو نے شعبان کے آخر میں روزے رکھیں ہیں ؟ دیکھیں صحیح بخاری ( 4 / 200 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1161 ) ۔ مندرجہ بالاحدیث میں کلمہ ( سرر ) کی شرح میں اختلاف ہے ، مشہور تویہی ہے کہ مہینہ کے آخر کو سرار کہاجاتا ہے ، سرار الشھر سین پر زبر اورزير دونوں پڑھی جاتی ہيں ، لیکن زبرپڑھنا زيادہ فصیح ہے ، مہینہ کے آخر کوسرار اس لیے کہا جاتا ہےکہ اس میں چاندچھپا رہتا ہے ۔ اگر کوئي اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ صحیحین میں ابوھریرہ رضي اللہ تعالی تعالی سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ نہ رکھو ، لیکن جوشخص عادتا روزہ رکھتا ہواسے روزہ رکھنا چاہیے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1983 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1082 ) ۔ توہم ان دونوں حدیثوں میں جمع کس طرح کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ : بہت سے علماء کرام اوراکثر شارحین احادیث کا کہنا ہے کہ : جس شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا اس کی عادت کے بارہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم تھا کہ وہ روزے رکھتا ہے ، یاپھر اس نے نذر مان رکھی تھی جس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قضا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا ۔ اس مسئلہ میں اس کے علاوہ اوربھی کئي اقوال پائے جاتے ہيں ، خلاصہ یہ ہے کہ شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے کی تین حالتیں ہیں : پہلی حالت : رمضان کی احتیاط میں رمضان کےروزے کی نیت سے روزہ رکھے ، ایسا کرنا حرام ہے ۔ دوسری حالت : نذر یا پھر رمضان کی قضاءیا کفارہ کی نیت سے روزہ رکھے ، جمہور علماء کرام اسے جائز قرار دیتے ہيں ۔ تیسری حالت : مطلقا نفلی روزے کی نیت کرتےہوئے روزہ رکھاجائے ، جو علماء کرام شعبان اوررمضان کے مابین روزہ نہ رکھ کران میں فرق کرنے کا کہتے ہیں ان میں حسن رحمہ اللہ تعالی بھی شامل ہیں وہ ان نفلی روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ شعبان کے آخر میں نفلی روزے نہیں رکھنے چاہیيں ، لیکن اگر وہ عادتا پہلے سے روزہ رکھ رہا ہو تو وہ ان ایام میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالی اوران کی موافقت کرنے والوں نے شعبان کے آخر میں نفلی روزے رکھنے کی اجازت دی ہے ، لیکن امام شافعی ، امام اوزاعی ، امام احمد وغیرہ نے فرق عادت اورغیر عادت میں فرق کیا ہے ۔ مجمل طور پریہ ہے کہ مندرجہ بالا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث پر اکثر علماء کرام کے ہاں عمل ہے ، کہ رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ رکھنا مکروہ ہے لیکن جس شخص کی عادت ہووہ رکھ سکتا ہے ، اوراسی طرح وہ شخص جس نے شعبان میں مہینہ کے آخر تک کوئي روزہ نہیں رکھا توآخر میں وہ بھی روزہ نہیں رکھ سکتا ۔ اگرکوئي اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ ( جس کی روزہ رکھنے کی عادت نہیں اس کے لیے ) رمضان سے قبل روزہ رکھنا کیوں مکروہ ہے ؟ اس کا جواب کئي ایک طرح ہے : پہلا نقطہ : تا کہ رمضان کے روزوں میں زیادتی نہ ہوجائے ، جس طرح عیدکے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گيا ہے یہاں بھی اسی معنی میں منع کیا گيا ہے کہ جوکچھ اہل کتاب نے اپنے روزوں میں اپنی آراء اورخواہشوں سے اضافہ کیا اس سے بچنے کی تنبیہ کی گئي ہے ۔ اوراسی لیے یوم شک کا روزہ بھی رکھنا منع ہے ، حضرت عمار کہتے ہيں کہ جس نے بھی یوم شک کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ، یوم شک وہ دن ہےجس میں شک ہوکہ رمضان میں شامل ہے کہ نہيں ؟ مثلا کوئی غیر ثقہ شخص خبر دے کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے تواسے شک کا دن قرار دیا جائے گا ۔ اورابر آلود والے دن کو کچھ علماء کرام یوم شک شمار کرتے ہیں اوراس میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے ۔ دوسرامعنی : نفلی اورفرضی روزوں میں فرق کرنا چاہیے ، کیونکہ نوافل اورفرائض میں فرق کرنا مشروع ہے ، اسی لیے عید کے دن روزہ رکھنا منع کیا گيا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بھی اس سے منع کیا ہے کہ ایک نماز کو دوسری کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس میں سلام یا کلام کے ذریعہ فرق کرنا چاہیے ، خاص کر نماز فجر کی سنتوں میں ، کیونکہ سنتوں اورفرائض کے مابین فرق کرنا مشروع ہے ، اسی بنا پر نماز گھر میں پڑھنی اورسنت فجر کےبعد لیٹنا مشروع کیا گيا ہے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے اسے فرمایا : کیا صبح کیا نماز چار رکعات ہے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 663 ) ۔ بعض جاہل قسم کے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان سے قبل روزہ نہ رکھنے کا معنی ہے کہ کھانے پینے کوغنیمت سمجھا جائے تا کہ روزے رکھنے سے قبل کھانے پینے کی شھوت پوری کرلی جائے ، لیکن یہ گمان غلط ہے اورجو بھی ایسا خیال رکھنے وہ جاہل ہے ۔ واللہ اعلم . بشکریہ : الاسلام سوال وجواب |
|