مولانا محمد رئیس ندوی جوار رحمت میں
جامعہ سلفیہ بنارس کے سینئر استاداور مفتی، تقریبا دو درجن کتابوں کے مصنف و مولف، مولانا رئیس الاحرار ندوی بن سخاوت علی کا ۹مئی2009، بروز سنیچر رات ساڑھے دس بجے بنارس کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ موصوف طلبہ میں اپنے بلند اخلاق، بہترین عادات اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ آپ ایک بے باک قلم کار اور مصنف تھے۔ مسلک سلف کے دفاع میں آپ کا قلم بہت تیز تھا۔ آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں مگر آپ کو جس کتاب سے شہرت ملی وہ ”اللمحات إلی مافی انوار الباری من الظلمات“ ہے۔ یہ کتاب مولانا انور شاہ کشمیری کے داماد اور شاگرد سید احمد رضا بجنوری کی بخاری کی شرح انوار الباری کے جواب میں ہے۔ ولادت : موصوف اپنے آبائی گاؤ¶ں بھٹیا میں ۲جولائی ۷۳۹۱ءکو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ¶ں کے مدرسہ میں ہوئی۔ جونیئر ہائی اسکول مروٹھیا سے پاس کیا اور ہائی اسکول مدرسہ بدریہ پکابازار بستی میں پڑھائی کے دوران پاس کیا۔ ۷۵۹۱ءمیں ندوة العلماءلکھنو میں داخلہ لیا،جہاں ان کے اساتذہ میں علی میاں ندوی، عبد اﷲ عباس ، مولانا عبد الغفور رحمہم اﷲ جیسے لوگ تھے۔ مولانا رئیس الاحرار صاحب نے اگرچہ ندوہ میں تعلیم پائی مگر مسلک اہل سنت والجماعت سے لگاو¶ میں کمی نہ آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ سلفی فکر کے خلاف اٹھنے والی ہر تلوارکے خلاف ایک ڈھال بن گئے۔ ندوہ سے فراغت کے بعد مدرسہ بدریہ، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار اور ندوة العلماءمیں ۱۶۹۱ءسے ۵۶۹۱ءکے درمیانی سالوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۶۶۹۱ءمیں جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد مقرر ہوئے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس سے الگ نہ ہوئے۔ آپ مرکزی دار العلوم کے شیخ الحدیث اور مفتی تھے۔ مولانا رئیس صاحب کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند نام یہ ہیں: شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ وصی اﷲ عباس، عبد الباری فتح اﷲ، ڈاکٹر عبد الجبار پریوائی، ڈاکٹر رضاءاﷲ مبارکپوری وغیرہم۔ مولانا رئیس الاحرار صاحب کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں: ۱-اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات ۵ جلدوں میں۔ ۲-سیرت حضرت خدیجہ، دو جلدوں میں ۳- رسول اکرم کا صحیح طریقہء نماز ۴-سیرت ابن حزم ۵-تنویر الآفاق فی مسئلة الطلاق ۶- دیوبندی تحفظ سنت کانفرنس کا سلفی تحقیقی جائزہ مولانا کافی دنوں سے بیما رچل رہے تھے۔ دل کے مرض کے علاوہ ذیابیطس (شوگر)، بلڈ پریشر، خون کا پیلا ہونا جیسی بیماریاں آپ کو لاحق تھیں۔ چونکہ آپ چل نہیں پاتے تھے اس وجہ سے طلبہ آپ کے کمرے میں جاکر آپ سے پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے لکھنے کا انداز نرالا تھا۔ کہنیوں کے بل لیٹ کر یاچت لیٹ کرکاغذ کو پیٹ پر رکھ کر لیٹ کر لکھا کرتے تھے۔ ایک صفحہ ختم ہونے کے بعد دوسرے صفحہ کے لئے گوند سے اس صفحہ کو جوڑ لیا کرتے تھے، اس طرح مضمون ایک لمبی ریل کی مانند ہوجاتا تھا۔ آپ ایک زودنویس مصنف تھے۔ مضمون لکھنے کے بعد اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈالتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں تکرار ہے۔ خط اس قسم کا تھا کہ اس کو پڑھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ جب بھی کسی کا جواب لکھتے تو جواب بہت مسکت ہوتا۔ دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ مخالف کو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ دوسری بیوی بہار کی ہیں جو آخری عمر تک آپ کے ساتھ رہیں۔ اﷲ نے آپ کو دو لڑکے اور چھ لڑکیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکے کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے عبدالحق سلفی زندہ ہیں۔ لڑکیوں میں ایک غیر شادی شدہ اور دو مطلقہ ہیں ایک لڑکی کے علاوہ سبھی دوسری بیوی سے ہیں۔ مولانا رئیس الاحرار ندوی رحمہ اﷲ کی میت کو ان کے آبائی گاؤ¶ں بھٹیا لایا گیا جہاں مولانا مستقیم احمد سلفی استاد جامعہ سلفیہ، بنارس نے صلاة جنازہ پڑھائی۔ صلاة جنازہ میں مدارس کے طلبہ کے علاوہ قرب و جوار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اﷲ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی مقام دے۔ ادارہ غم کے اس موقع پر ان کے پسماندگان کے ساتھ ہے۔ شیخ الحدیث کی مسند پر جلوہ افروز رہے، انکا چار مئی ۲۰۰۹ کو انتقال ہوگیا۔آپ ایک مؤثر اور ماہر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنف بھی تھے۔ آپنے نے امت کے اردو داں طبقے کے لئے کئی کتابیں چھوڑیں جبکہ کئی عربی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا آپ کی مشہور تصنیفات یہ ہیں:۔ اللمحات إلى مافي أنوار الباري من الظلمات ، تنوير الآفاق في مسئلة الطلاق ، أحكام الجمعة ، أحكام الصلاة ، سيرة خديجة الكبرى آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کیا :حوار مع العلوي المالكي ، سيرة الإمام ابن حزم ، تراث المسلمين العلمي في نظر شيخ الإسلام ابن تيمية ، مصطلح الحديث في ضوء إفادات شيخ الإسلام ابن تيمية ، ان کے علاوہ بھی آپ نے کئی کتابیں تصنیفکیہیں۔شیخ کی متعدد شرعی علوم مثلا حدیث ، علل الحديث ،اصول حدیث ، فقه ، أصول فقہ ، سيرت ، تاريخ اور تعبير الرؤياء وغيره پر گہری نظر تھی۔ مجھے شیخ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے آپ ہمیں صحیح بخاری پڑھایا کرتے تھے دوران درس میں نے ہمیشہ دیکھا کہ شیخ جس موضوع پر بھی بول رہے ہوں کسی شخصیت یا علاقہ کا نام آتا تو اسکی سیرت اور تاریخ کا مختصر انداز میں تذکرہ ضرور کرتے گویا علم کا ایک سمندر تھا جس کا کنارہ نہ ہو۔جب مسائل کا تجزیہ کرنے بیٹھتے تو اپنی بات کو دلائل کی روشنی میں اس حزم و یقین سے بیان کرتے کہ سامنے والے کو کسی اشکال کا موقع نہ رہتا، یہی حال علل میں تھا آپ کی کتابیں پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آپ اپنے وقت کے دارقطنی تھے،روایات اور اسکی اسانید پر نہایت باریک بینی سے روشنی ڈالتے پھر نقد و تبصرے کے بعد اپنا موقف واضح کرتے تھے۔ سنت سے بے اندازہ محبت تھی جب بھی کسی کو قول و عمل سے سنت کی مخالفت کرتے ہوئے یا سنت پر ادنی سا اشکال کرتے ہوئے دیکھتے تو کسی کی پرواہ کئے بغیر فورا سنت کے دفاع پر اتر آتے۔شیخ رئیس نے اپنے پیچھے ایک بڑا علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، اور آپ کا وہ علمی ذخیرہ جو طلباء کی صورت میں آپ نے پوری دنیا میں پھیلا رکھا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں:۔دكتور صلاح الدين مقبول أحمد ، دكتور عبدالرحمن بن عبد الجبار فريوائي ، دكتور رضاء الله محمد إدريس مباركپوري ، شيخ عزير شمس سلفي ، دكتور محمد إبراهيم بنارسي ، شيخ أحمد مجتبى سلفي ، شيخ أصغر علي مدني ، شيخ رضاء الله عبد الكريم مدني ، شيخ عزيز الرحمن سلفي ، شيخ محمد جنيد بنارسي ، شيخ محفوظ الرحمن سلفي ، شيخ عبدالله عبد التواب مدني نیپالی ، شيخ عبد المتين مدني ، دكتور عبد الغني ثناء الله نيپالي ، شيخ آفتاب عالم محمد أنس سلفي نيپالي وغيره . اللہ شیخ رئیس ندوی کو جزائے خیر عطا فرمائے ،آپ کی مغفرت فرمائے اور اپنی وسیع جنت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آہ! عبد المتین راہ عمل کا بیباک راہی مشہور عالم درسگاہ ہماری مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کے ابنائے قدیم میں سے صرف انگلیوں کی تعداد کے مساوی فہرست مرتب کی جائے تو ایک نام جس کا ذکر کئے بغیر فہرست نا مکمل رہے گی، وہ ہے ہمارے فاضل دوست جناب مولانا عبدالمتین سلفی، کشن گنج ، بہار کا نام نامی، جنہوں نے گذشتہ تین عشروں میں جو تعلیمی، دعوتی اور رفاہی کارنامے انجام دیئے وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔ہمہ جہت خدمات کی بنا پرجنہیں محسن ملت کے لقب سے یاد کیا جانا چاہئے۔ جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد دانش کدۂ طیبہ۔ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ۔ کی فیض یابی اور پھر بنگلہ دیش کی دس سالہ مصلحانہ تگ ودو نے انہیں حرکت و عمل، جوش و نشاط اور فکر وتدبر سے معمور کردیا تھا،جہاں ان کی صلاحیتوں کو جلا ملی، شب وروز کی انتھک محنت کا حوصلہ ملا، اس حوصلہ مندی کا نتیجہ تھا کہ حکمراں کی قبوری بدعقیدگی ان کی نظروں میں کھٹکنے لگی، جس کا اظہار سخت الفاظ کے ذریعہ ہوا، جسے جنرل ارشاد کی فوجی وردی انگیز نہ کرسکی اور ایک موقع پر’’ حکم حاکم‘‘،’’ مرگ مفاجات‘‘ کا سبب بن گیا، یعنی ایک غریب الدیار مرشد کا جذبۂ ارشاد جنرل ارشاد کے جذبۂ باطل سے ٹکراگیا اور پھر چند لمحوں میں ڈھاکہ سے کلکتہ کا سفر اتنی سرعت سے طے ہوا کہ مال ومتاع کو سمیٹنے کی مہلت بھی نہ ملی۔ یہ ایک المیہ تھا اس ملک کے لئے جہاں کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان اور حکمراں کلمہ گو تھا، لیکن یہ تو ہماری چودہ سو سالہ تاریخ کا حصہ رہا ہے، حکمراں ہر دور میں اہل حق کی حق گوئی سے خائف ہوکر درپئے آزار ہوتے رہے ہیں۔ پھر گلہ کیسا؟ خدمت ملت کے عملی تجربات کی روشنی لے کر وہ ہندوستان آگئے، ان کی دوربیں نگاہیں اس خطۂ ارض پر جم گئیں جو دست ہنر مند کی فیض رسانیوں کا منتظر تھا، مولانا عبدالمتین رحمہ اللہ کے ذہن میں جو خاکہ تھا، اس سے علاقے کی تصویر بدلنے والی تھی، وہ اس میں رنگ بھرتے رہے، دیکھتے دیکھتے پورا علاقہ رشک چمن بن گیا۔بے نام ونشان گھرانوں کے نونہال ان کے قائم کردہ اداروں سے فیض یاب ہوکر ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کا پیکر بننے لگے۔ شیخ رحمہ اللہ کا امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ جماعتی غیرت سے سرشار تھے، گفتگو ہوتی تو مسلک کی ترقی اور بھلائی کی، اس کے لئے جو راہ اختیار کرتے ، دشواریوں سے بے نیاز ہوکر اس پہ چلتے ہوئے منزل پہ پہونچ کر ہی دم لیتے ۔ ان کا یہ وصف بھی قابل بیان ہے کہ کبھی بھی کسی بڑے کے مادی بڑکپن سے مرعوب نہیں ہوئے، وہ کسی بڑے سے بڑے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہنے اور اسے منوا لینے کے فن سے آگاہ تھے۔ مجھے ان کے ساتھ رہ کر علمی، سیاسی اور سماجی سطح کی بلند قامت شخصیات سے ملاقات کے مواقع میسر آئے، ہر مقام پر مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا یہ بھائی، ہمارا یہ دوست نگاہ بلند اور سخن دلنواز سے مخاطب کے دل میں گھر بنا کر اپنی شخصیت کی اہمیت بھی تسلیم کرالیتاتھا۔ انہیں اپنے وقت کی قدروقیمت کا احساس تھا، وہ ٹی وی اور اخبارات کو فضولیات میں شمار کرتے، اخبارات کی ورق گردانی کبھی کرلی توکرلی ورنہ بالعموم وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے، جبکہ ہم جیسے لوگ پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک خبریں ہی نہیں اشتہارات پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں، جس سے کبھی کبھی تضییع اوقات کا شبہ بھی ہونے لگتا ہے۔ وہ صبح فجر کے بعد گھر سے نکل پڑتے، جامعہ اور اس کے شعبہ جات کا جائزہ لیتے، تعمیری امور سے متعلق مشورے دیتے، ضروریات کی تکمیل کی ہدایت کرتے، مختلف مقامات پہ جاری تعمیرات پر ایک نگاہ ڈالتے، اس دوران ملک و بیرون ملک سے سمعی رابطہ بھی جاری رہتا، ملاقات کے لئے آنے والوں سے گفتگو بھی چلتی رہتی، اگر کوئی ذی علم مہمان ہمراہ ہوتا تو چلتے چلتے اپنے کسی ادارے میں استقبالیہ تقریب کا بھی وقت نکال لیتے، وقتاً فوقتاً خوردنوش کے لوازم سے ضیافت کا اہتمام بھی کرتے رہتے۔ ضیافت بھی ان کاوصف خاص تھی، احباب و زائرین کے لئے پر تکلف دستر خوان سجاتے، اپنے ہاتھوں سے مہمان کی پلیٹ درست ہی نہیں کرتے گاہ بہ گاہ پلیٹ میں ماکولات کا اضافہ بھی کرتے رہتے اور خوش ہوتے، ساتھ ہی اپنی بذلہ سنجی سے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتے۔یہ وہ فن ہے، جس کی نزاکت متقاضی ہے کہ آدمی بہت محتاط رہے،ورنہ وہ پھکڑپن سے بے وزن بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے بھائی شیخ سلفی رحمہ اللہ کو اس فن میں بھی مہارت حاصل تھی، وہ ایک زبان کے لطائف کو دوسری زبان میں منتقل کرکے اہل مجلس کو مسکرانے پر مجبور کردیتے،جلوت میں تفریح کا یہ وہ واحد ذریعہ تھا جسے انہوں نے اپنے لئے روا رکھا تھا۔ جب کبھی ایسا موقع آیا، میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ مختلف النوع ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک انسان اس طرح سے اپنی خوش طبعی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو چارج کررہا ہے، تاکہ دوبارہ فرض کی ادائیگی کی خاطر سر گرم عمل ہوسکے، جس کی بہرحال انہیں ضرورت تھی۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اپنے وقت کا درست استعمال کیا، زمانہ طالب علمی میں بھی وہ سنجیدہ رہے، حصول علم کے جو مواقع میسر آئے، ان سے بھرپور استفادہ کیا، علمی مسائل میں ان کی رائے باوزن ہوتی ، کبھی کبھی دوران بحث فرماتے: عبداللہ ٖ!اس موضوع پر مجھے چیلنج نہ کرو، میں نے بہت گہرائی سے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ ایک ماہر، مستند، معتبر،خوش بیان اور پختہ خیال خطیب تھے، کبھی اردو میں بھی خطاب کرتے تواسے عربی نصوص سے سنواردیتے کہ بیان کا لطف دوبالا ہوجاتا، ان کے سامعین عمومی طور پر بنگلہ زبان کے واقف کار ہوتے ، بنگلہ میں ان کے خطابات کی اثر پذیری سامعین کے دلوں پر دستک دیا کرتی، جس کا تجربہ مجھے باربار ہوا ہے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے، دوستی نبھانے کا ہنر جانتے تھے، تحائف سے نوازتے اور انہیں قبول کرکے جذبۂ امتنان کا اظہار بھی کرتے، میرے ان کے تعلقات گذشتہ بیس برسوں پہ محیط ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے لمحات ہیں، جو ہم نے ساتھ گذارے، وہ میرے لئے ایک برادر مشفق اور محب مخلص تھے، ان کی شفقت و عنایت کے رنگ و انداز اقرباء سے قطع نظر ان کے دائرہ احباب میں جومیں نے دیکھے ہیں، اب ان کی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہوں نے ایک بھائی کی طرح عزیز رکھا،وہ حقیقتاً میرے مہربان وقدردان تھے،کشن گنج شہر میں پہلی اہلحدیث مسجد کی تعمیر عمل میں آئی، وہ بڑے پرجوش تھے، ان کی مسرت ناقابل بیان ہے، اس تاریخی جامع مسجد کے افتتاح کے موقع پر اپنے اس بھائی راقم کو بڑی محبت سے پہلا خطبہ جمعہ دینے کی دعوت دی، اپنے یہاں منعقدایک اجلاس عام کے موقع پر بھی خطبہ جمعہ کے لئے مجھے ہی آگے بڑھایا، پٹنہ میں اسلامی مرکز قائم کیا، جس کی مسجد کا افتتاح جمعہ کے دن رکھا، خطبہ جمعہ کے لئے مجھے حکم فرمایا۔ جامعۃ الامام البخاری کی پہلی تقریب تقسیم اسناد منعقد کی، وہاں بھی حاضری کی دعوت ملی، بعض دوسرے اجتماعات اور گھریلو تقریبات میں بھی شرکت پہ آمادہ کرتے رہے، جن میں سے اکثر مجھے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، چند ایک میں کسی مجبوری کے تحت شرکت سے محروم بھی رہا، جس کے لئے خفگی کا اظہار ہوا، مگر میری معذرت قبول کرکے معاف بھی کردیا۔ وہ ایک اچھے منتظم کار تھے، تبھی ان کے قائم کردہ سبھی ادارے ٹھوس بنیادوں پر کھڑے نظر آتے ہیں، ان کے ساتھ ان کا عملہ بھی ہمیشہ مستعد رہا، کیا مجال کوئی سستی کا مظاہرہ کرسکے، اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو میں نے ان کی آنکھوں سے شعلے نکلتے ہوئے دیکھے ہیں، ان کی گرفت بہت سخت ہوتی تھی، مگر تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنی طبیعت کے اصل جوہر رفق ، ملائمت اور حسن سلوک کی طرف لوٹ آتے اور ماحول ساز گار ہوجاتا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کا انتظام وانصرام ہر طرح سے بے عیب رہا ہے، میں نے متعدد بار بعض خامیوں کی طرف توجہ دلائی، میرے نزدیک ایک بڑی کمی یہ تھی کہ سلفی صاحب جیسی عظیم و رفیع شخصیت کا دائرہ کار بہت وسیع ہوسکتا تھا، انہوں نے وسعت کی سعئ مشکور بھی کی، مگر ہمیشہ کھٹکنے والی کمی یہ تھی کہ جامعۃ الامام البخاری اور جامعہ عائشہ للبنات جیسے ادارے بہار میں ہوتے ہوئے بنگلہ زبان کے زیر اثر آگئے، میں نے عرض کیا آپ انہیں اس اثر سے آزاد کیجئے، ورنہ ہمہ گیری کے ساتھ قبولیت عام سے محروم ہوجائیں گے اور فارغین و فارغات کی معلمانہ و داعیانہ کارکردگی بنگال تک محدود رہے گی، اس جانب توجہ کی ضرورت آج بھی باقی ہے، کاش یہ کمی اب پوری کردی جائے اور عربی و اردو زبان کے ذریعہ خدمت دین کی شکل بھی پیدا ہوسکے، تاکہ جناب مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ کا لگایا ہوا یہ شجرۂ مبارکہ بار آور ہوتا رہے اور علمی دنیا بھرپور انداز میں فیض یاب ہوسکے۔ محترم سلفیؔ صاحب نے اپنی عملی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت اسلامیہ کی منفعت کے لئے کار خیر کی انجام دہی میں گذارا، موت سے چند ساعت قبل تک رفاہی عمل کی ادائیگی میں مشغول رہے، انہیں عیش و راحت کے اسباب میسر تھے، مگر حیات مستعار کا بیش تر وقت اللہ کے اس جلیل القدر بندے نے احساس ذمہ داری کے پیش نظر حالت سفر میں گذاردیا، وہ مستقل تگ ودو کے قائل تھے، انہیں اپنی کار کردگی کا صلہ بھی دنیا سے مطلوب نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ بہار اسمبلی کے ایک معزز ممبر نے ایک بڑے صاحب منصب کے سامنے ان سے ذاتی معلومات طلب کرتے ہوئے کہا : چچا! آپ اپنا بایوڈاٹا دیدیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ حکومت ہند آپ کو پدم شری کا ایوارڈ عطا کرے۔ جس کے آپ بجا طور پر مستحق ہیں، مگر بڑی بے نیازی سے آپ نے مسکرا کر ٹال دیا۔ یہ سطور رقم کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں،کویت سے رفیق گرامی قدر شیخ صلاح الدین مقبول کے ذریعے وفات کی پہلی خبر سے لے کراب تک گذشتہ پچاس دنوں میں کتنی بار قطرات اشک ٹپکے ہیں۔ جس میں برادرم مولانا عبدالوہاب خلجی اور محب مکرم مولانا محمد اشفاق سلفی (دربھنگہ)نے میرا ساتھ دیا ہے، آج جب کہ یہ اشاعت خاص پیش کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہے، اس امر کا غم بھی ہے کہ اپنے اس بے باک، طرح دار، خوش خلق، حساس، فعال اورنباض،خادم دین وملت دوست کی رفاقت کا حق ادا نہ ہوسکا، کاش ہم اس کی حیات و خدمات پہ مشتمل کوئی گراں قدر تصنیف پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ ناموافق حالات میں بھی مجاہدانہ سرگرمیاں کس طرح جاری رکھی جاسکتی ہیں۔ بار الٰہا! تیرا یہ مخلص بندہ جس کی آنکھیں ۱۶؍جنوری ۲۰۱۰ء بوقت ظہر۵۶؍سال کی عمر میں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں، تو اس کی قبر کو کشادہ کردے، جنت کی کھڑکیاں اس کے لئے کھول دے، میدان محشر میں تیرے عرش کے سائے میں اسے جگہ ملے، رحمۃ للعالمین کے ہاتھوں جام نصیب ہو اور جنت الفردوس ان کی جائے قیام قرار پائے۔مولائے کریم! ان کے اداروں کی حفاظت فرما، انہیں عروج و فروغ اور استحکام حاصل ہو۔ رب العالمین! ان کے جملہ پسماندگان کو سلامتی عطا فرما، خاندانی اتحاد و اتفاق ہمیشہ برقرار رہے، ان کے غمزدہ اہل و عیال،اولاد و احفاداور وفاشعار برادران کے دل میں خدمت دین کی وہی تڑپ پیدا کردے، جو سلفی صاحب رحمہ اللہ کا طرہ امتیاز تھی۔اوران سب کو اور ہم جیسے ان کے احباب کو صبر جمیل کی توفیق بخش۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ قارئین کرام! آخر میں میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ سلفیؔ صاحب رحمہ اللہ کے حق میں ملی خدمات کی قبولیت اور مغفرت کی دعا فرماتے رہیں، یہ مجھ راقم پر ذاتی احسان بھی ہوگا۔ |
|