لفظ موالد,مولِد کی جمع ہے ,اس کے معنی اورمطلب ہر اسلامی ملک میں ایک ہی ہیں ,البتہ یہ لفظ خاص "مولد" (مولود) ہر اسلامی ملک میں نہیں بولا جاتا ,کیونکہ مغرب اقصی یعنی مراکش کے لوگ اس کو "مواسم " کے نام سے یاد کرتے ہیں ,چنانچہ کہا جاتا ہے مولائی ادریس کا موسم , اور مغرب اوسط یعنی جزائر کے لوگ اس کو "زرد" کا نام دیتے ہیں جو "زردہ" کی جمع ہے ,چنانچہ کہا جاتا ہے "سیّدی ابو الحسن شاذلی کا زردہ" اور اہل مصر اورشرق اوسط کے لوگ اسکو "مولد" کہتے ہیں ,چنانچہ وہ کہتے ہیں "سیّدہ زینب کا مولد" یا "سید بدوی کا مولِد"
اہل مغرب اس کو "مواسم " اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اسے سال میں ایک مرتبہ کرتے ہیں, اوراہل جزائر اس کو "زردہ" اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس میں وہ کھانے کھائے جاتے ہیں جو ان مذبوح جانوروں سے پکتے ہیں جو وہاں ولی کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں یا اس کے اوپر چڑھائے جاتے ہیں , جیسی بھی اس چڑھاوا چڑھانے والے کی نیت ہوتی ہے, اوربعض لوگ اس کو "حضرۃ" کہتے ہیں یا تو اس وجہ سے کہ وہاں اس ولی کی روح آتی ہے ,خواہ توجہ اوربرکت ہی کے طورپر یا اس وجہ سے کہ وہاں یہ جشن منانے والے آتے ہیں اورقیام کرتے ہیں , یہ تو وجہ تسمیہ تھی , اب رہے وہ اعمال جو وھاں ہوتے ہیں ,تو وہ ہر ملک کے لوگوں کےشعور اورفقر وغناء کے اعتبار سے کیفیت اورکمیت میں مختلف ہیں , لیکن ان میں جو چیز قدرمشترک ہے وہ درج ذیل ہے:
1-جس ولي كے لئے یہ موسم یا زردہ یا مولد یا حضرۃ قائم کیا گیا ہے اس کے لئے نزو ونیاز اورجانور ذبح کرنا .
2- اجنبی مردوں اورعورتوں کا اختلاط
3-رقص و سرود اورمختلف دف ومزامیر وباجے بجانا .
4-خرید وفروخت کے لئے بازارلگانا ,لیکن یہ مقصود نہیں ہوتا ,مگر تاجرلوگ ایسے بڑے بڑے مجمعوں میں نفع اندوزی کرتے ہیں اوروہاں اپنا سامان تجارت لے جاتے ہیں جب سامان سامنے آتا ہے اورلوگ اس کو طلب کرتے ہیں تو اس طرح بازار قائم ہی ہوجاتا ہے ,مثال کے لئے منى اورعرفات کے بازار کا فی ہیں .
5-ولی یا سیّد سے فریاد طلب کرنا اوران سے استغاثہ کرنا اور شفاعت اورمدد طلب کرنا اوراپنی ہر وہ حاجت اورمرغوب چیز مانگنا جس کا حصول دشوار ہو حالانکہ یہ شرک اکبر ہے والعیاذ باللہ.
6-کبھی کبھی فسق وفجور اورشراب نوشی وغیرہ بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ ہر ملک اورہر مولد میں نہیں ہوتا .
7- حکومتیں ان مواسم کو قائم کرنے کےلئے سہولتیں فراہم کرتی ہیں , اور کبھی کبھی مال یا گوشت یا کھانا وغیرہ دے کربھی اس میں حصہ لیتی ہیں, حتى کہ فرانس بھی مغرب کے تینوں ملکوں میں اس سلسلے میں تعاون کیا کرتا تھا ,یہاں تک کہ ٹرین کے کرایہ میں تخفیف کردی جاتی تھی , اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ مصر بھی اسی طرح کرتی ہے , اورعجیب ترین بات اس سلسلہ میں جو ہم نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی یمن کی حکومت جو کہ خالِص کمیونسٹ نظریہ کی ہے وہ بھی ان موالد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے, اگر چہ یہ حوصلہ افزائی خاموشی اختیا ر کرکے ہو ,مجھے یہ بات خود جنوبی یمن کے لوگوں نے بتائی ,حالانکہ یہی وہ حکومت ہے جس نے تمام اسلامی عقائد ,عبادات اوراحکام کا انکارکردیا ,اوریہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ عرس میلا د صرف اسلام کو نقصان پہنچانے ہی کے لئے اوراسکا خاتمہ ہی کرنے کے لئے ایجادکئے گئےہیں ,اور اسی سبب ان موالدومواسم اورزردہ وحضرۃ کا حکم اسلام میں بالکل او رقطعی ممانعت اورحرمت ہے , اوریہ اس لئے کہ یہ بدعات عقیدہ اسلامیہ کوپامال کرنے اور مسلمانوں کے حالات کو تباہ کرنے کی بنیاد پر قائم ہیں , جس کی دلیل یہ ہے کہ اہل باطل ان بدعات کی نصرت اورتعاون کرتے ہیں اوراس کے ساتھ پوری ہمنوائی کرتےہیں , اوراگر اس میں کوئی ایسی چیز ہوتی جو روح اسلامی کو بیدار کرتی ہو یا مسلمانوں کے ضمیر کو حرکت میں لاتی ہو تو تم ان باطل حکومتوں کو دیکھتے کہ وہ ان سے جنگ اوران کے خاتمہ کے درپے ہوجاتیں.
کیا غیر اللہ سے دعا کرنا اورغیراللہ کے نام پر ذبح کرنا اوران کے لئے نزرونیاز ماننا شرک کے سوا کچہ اورہے جو باطل اورحرام ہے , اور ان عرس ومیلاد کی محفلوں کی ساری بنیاد ہی اس پر قائم ہے اورکیا رقص وسرود اورعورتوں مردوں کا اختلاط فسق وفجور اورحرام کے سوا اور کچہ ہے ؟ یہ عرس ومیلاد اورمواسم جب ان چیزوں سے خالی نہیں تو بھلا یہ حرام کیسے نہ ہو ں گے , اورکیا ان عرس وموالدکو رسول صلي الله عليه وسلماورآپ کے صحابہ اور صحابہ کے تابعین بھی جانتے تھے ؟جواب یہی ہے کہ نہیں نہیں!تو پھر جو چیزرسول صلي الله عليه وسلماور آپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہ رہی ہو کیا وہ اب دین ہو جائے گی ؟ اورجو چیز دین نہ ہوگی تو وہ بدعت ہوگی اورھربدعت گمراہی ہے اورہر گمراھی دوزخ میں لے جانے والی ہے , امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے اس گانے کے بارے میں دریافت کیا گیا جس کی بعض اہل مدینہ رخصت دیا کرتے تھے , تو آپ نے پوچھنے والے سے کہا کہ کیا گانا حق ہے ؟.تو اس نے کہا نہیں , تو آپ نے فرمایا حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں , پس یہ موالد ومواسم بشمول ان چیزوں کے جوان میں حق ہے , اورجو حق نہیں ہے ,باطل ہی ہیں , کیونکہ حق کے بعد گمراہی کے سوا کچہ بھی نہیں .
اور اب مولود نبوی شریف سے وہ اجتماعات مراد ہیں جو مسجدوں میں اورمالدار مسلمانوں کے گھروں میں ہوتے ہیں, جو اکثر پہلی ربیع الأول سے بارہ ربیع الأول تک ہوتے ہیں ,جن میں سیرت نبویہ کا کچہ حصہ پڑھا جاتا ہے ,مثلا نسب پاک ,قصہ ولادت اورحضورصلي الله عليه وسلمکے بعض جسمانی اوراخلاقی شمائل اورخصوصیات اورساتھ ہی بارہ ربیع الأول کو عید کا دن مناتے ہیں , جس میں اہل وعیال پر خرچ کرنے پر وسعت کرتے ہیں اورمدارس ومکاتب بند کردئے جاتے ہیں اوربچے اس دن طرح طرح کے کھیل کودکھیلتے ہیں , یہ مولود وہ ہے جو ہم بلاد مغرب میں جانتے تھے ,لیکن جب ہم بلا د مشرق میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں مولد سے مراد وہ اجتماعات ہیں جو مالداروں اورخوشحال لوگوں کے گھروں میں مولود نبوی شریف کی یاد گارکے طورپر منعقد ہوتے ہیں , اوروہ ان کے یہاںماہ ربیع الأول اوربارہ ربیع الأول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ,بلکہ موت وحیات یا کسی بھی نئی بات کے موقع پر یہ محفل قائم کرلیتے ہیں .
اسکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جانورذبح کئے جاتے ہیں کھانا تیار ہوتا ہے دوست واحبا ب ورشتہ دار اورتھوڑے سے فقیر ومحتاج لوگ بھی بلالئے جاتے ہیں , پھر سب لوگ سننے کے لئے بیٹھتے ہیں , ایک خوش آوازنوجوان آگے بڑھتا ہے , اوراشعار پڑھتا ہے اورمدحیہ قصیدے ترنم کے ساتھ پڑہتا ہے , اورسننے والے بھی اس کے ساتھ
صلوات پڑھتے ہیں(1) اس کے بعد ولادت مبارکہ کا قصہ پڑھتا ھے , اورجب یہاں پہنچتا ہےکہ حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے آپ مختون پیدا ہوئے ,تو سب لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اورکچھ دیررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے پیدائش کا تخیل باندہ کر تعظیم وادب کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں , پھر دھونی اورخوشبو لائی جاتی ہے , اور سب لوگ خوشبو لگاتے ہیں , اس کے بعد حلال مشروب کے پیالےآتے ہیں , اور سب لوگ پیتے ہیں پھر کھانے کی قابیں پیش کی جاتی ہیں , اس کو لوگ کھا کر اس اعتقاد کے ساتھ واپس ہوتے ہیں کہ انھون نے بارگاہ الہی میں بہت بڑی قربت پیش کرکے اللہ کا تقر ب حاصل کرلیا ہے .
یہاں اس بات پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ اکثر قصیدے اورمدحیہ اشعار جو ان محفلوں میں ترنم کے ساتھ پڑہے جاتے ہیں وہ شرک اورغلو سےنہیں خالی ہوتے ,جس سے رسول صلي الله عليه وسلمنے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے (لاتطرونی کما أطرت النصاری عیسی ابن مریم وإنما أنا عبداللہ ورسولہ ,فقولو ا عبداللہ ورسولہ )(بخاری ومسلم)
"تم مجھے حد سے نہ بڑھانا ,جس طرح نصارى نے عیسی بن مریم کو حد سے بڑھایا , میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں , پس اللہ کا بندہ اوراسکا رسول کہو" اسی طرح یہ محفلیں ایسی دعاؤں پر ختم ہوتی ہیں جس میں توسل کے غیر شرعی الفاظ اور شرکیہ حرام کلمات ہوتے ہیں , کیونکہ اکثر حاضرین عوام ہوتے ہیں ,یا اس باطل کی محبت میں غلو کرنے والے ہوتے ہیں جن سے علماء نے منع فرمایا ہے ,جیسے بجاہ فلاں اوربحق فلاں کہ کردعا کرنا والعیاذباللہ تعالی ,واللہم صل علی محمد وآلہ وصحیہ وسلم تسلیما کثیرا.
یہ ہے وہ مولدجو اپنے ایجاد کے زمانہ یعنی ملک مظفرکے عہد625ھ سے آج تک چلی آرہی ہے .
اب رہا شریعت اسلامیہ میں اس کے حکم کا سوال تو اس کا فیصلہ ہم قاری کے لئے چھوڑدیتے ہیں ,کیونکہ جب اس بحث سے یہ معلوم ہوگیا کہ میلاد ساتویں صدی کی پیداوار ہے , اورہر وہ چیز جورسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے عہد میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو , وہ بعد والوں کے لئے بھی دینی حیثیت اختیار نہ کرے گی , اورجو مولود آج لوگوں کے درمیان رائج ہے, _______________(1) مثلا یہ شعر :- صل علیک یا علم الہدی : ما حن مشتا ق الي لقاك.
یہ رسول صلي الله عليه وسلماورآپ کے صحابہ کے عہد میں اورقرون مشہود لہا بالخیر میں اورساتوں صدی کی ابتداء تک جو کہ فتنوں اورآزمائشوں کی صدی تھی نہیں موجود تھا , پھر بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ بلکہ یہ بدعت اورگمراہی ہے کیونکہ رسول صلي الله عليه وسلمکا ارشاد گرامی ہے (إیا کم ومحدثات الأمورفإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالہ ) (رواہ اصحاب السنن) "کہ تم (دین میں ) ہرنئی ایجاد کردہ چیز سے بچو کونکہ ہر بدعت گمراہی ہے "
حکم شرع کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دین میںنکالی ہو ئی نئی باتوں سے پرہیزکا حکم دیا ہے اوریہ بتایا ہے کہ ہر ایسی نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے , اوراما م مالک رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد اما م شافعی رحمہ اللہ علیہ ( اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ابن ماجشون رحمہ اللہ سے فرمایا ) سے فرمایا کہ :" کہ ہر وہ چیز جو رسول صلي الله عليه وسلم اورآپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہیں تھی , وہ آج بھی دین نہیں بنے گی " اورفرمایا کہ: "جس نے اسلام کے اندر کوئی بدعت نکالی اوراس کو اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلي الله عليه وسلمنے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے ﴿tPöqu‹ø9$# àMù=yJø.r& öNä3s9 öNä3oYƒÏŠ àMôJoÿøCr&ur öNä3ø‹n=tæ ÓÉLyJ÷èÏR àMŠÅÊu‘ur ãNä3s9 zN»n=ó™M}$# $YYƒÏŠ﴾المائدۃ :3] " آج کے دن تمہارے لئے ,تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا , اورمیں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اورمیں نے اسلام کوتمہارے لئے بطوردین پسند کرلیا "
اورامام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ " ہر وہ چیز جو کتاب وسنت اوراجماع کے خلاف کی جائے تو وہ بدعت ہے " توکیا مروجہ میلاد نبوی بدعت نہ ہوگا , جب کہ وہ رسول صلي الله عليه وسلماورخلفائے راشدین کی سنت نہ تھی , اورنہ سلف صالح کا عمل تھا , بلکہ تاریخ اسلام کے تاریک دور میں اس کی ایجاد ہوئی , جب کہ فتنے پیدا ہوچکے تھے , اورمسلمانوں میں اختلاف پھوٹ چکا تھا , پھر اگر ہم یہ تسلیم ہی کرلیں کہ میلاد قربت کی چیز ہے بایں معنی کہ وہ عبادت شرعیہ ہےجس سے آدمی اللہ تعالى کا قرب حاصل کرتا ہے تاکہ اللہ تعالى اس کو اپنے عذاب سے نجات دے کرجنت میں داخل کردے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس عبادت کو مشروع کس نے کیا , اللہ تعالى نے یا اس کے رسول صلي الله عليه وسلمنے ؟ جواب یہ ہے کہ کسی نے نہیں , پھر یہ عبادت کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ اللہ اور اسکے رسول نے اس کو مشروع نہیں کیا , یہ محال ہے , دوسرے یہ کہ عبادت کے لئے چار حیثیتیں ضروری ہیں یعنی کمیت ومقدار ,کیفیت اورزمان ومکان ,
اورکون ان حیثیات کو ایجاد اوران کی حدبندی کرسکتا ہے ؟ کوئی نہیں , اورجب یہ ہے تو پھر میلاد کسی بھی صورت نہ قربت ہے نہ عبادت , اورجب یہ نہ قربت ہے اورنہ عبادت توپھر بدعت کے سوا اورکیا ہوسکتا ہٍے00؟؟