تراویح آٹھ رکعت
سے زیادہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہیں عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا(متفق علیہ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1887) ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوسلمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو رمضان میں کے مہینے میں (تراویح ) آٹھ نماز پڑھائی اِس کے بعد وتر پڑھا دوسرے روز جب رات ہوئی تو ہم لوگ پھر مسجد میں جمع ہوگئے امید کہ آپ نکلیں گے اور نماز پڑھائیں گے مگر آپ نہ نکلے ہم صبح تک مسجد میں رہ گئے پھر ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بات بیان کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہو ا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہوجائے (اس لئے میں گھر سے نہیں نکلا) (ابنِ حبان ،ابنِ خزیمہ،طبرانی فی الصغیر،محمد بن نصر مروزی فی قیام اللیل ص ۹۰) ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسو ل ﷺ رات کو میں نے ایک کام کیا (یہ رمضان کے مہینے کا واقعہ ہے) رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم عورتوں کو قرآن یاد نہیں ،لہذا تراویح کی نماز آپ (ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ )گھر ہی پڑھئیے ہم عورتیں بھی آپ (ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ)کے پیچھے پڑھ لیں گی چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر کی نماز پڑھادی آپ خاموش رہ گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ نے ان کو پسند فرمایا(ابو یعلی ،طبرانی ،محمد بن نصر مروزی فی قیام اللیل،ہیثمی فی مجمع الزوائد) نبی ﷺکی صحیح مرفوع غیر متکلم فیہ حدیثوں سے صرف آٹھ رکعت تراویح ثابت ہے بیس یا اس سے زیادہ سنتِ رسول سے ثابت نہیں ہے۔ جن تین راتوں میں نبی ﷺ نے با جماعت نمازِ تراویح پڑھائی تھی اس سلسلہ میں علامہ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح بخاری میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے صحیح ابنِ خزیمہ اور صحیح ابنِ حبان کے حوالہ سے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں غرض جتنی بھی صحیح حدیثیں اس سلسلہ کی ملتی ہیں سب سےیہی ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نےصرف ۸رکعتیں ہی پڑھی ہیں اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ صحیح نہیں۔ آٹھ ۸ رکعات تراویح پر علمائے احناف کی شہادت امام محمد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد خاص ایوان حنفیت کے صدر نشیں جن کی کتابوں سے آج حنفیت زندہ ہے ، دیکھئے موطاامام محمد کے ایک عنوان ‘‘باب قیام شہر رمضان ومافیہ من الفضل ’’اس مولانا عبد الحئی رحمہ اللہ صاحب لکھنوی حنفی قیام شہر رمضان پر حاشیہ لکھتے ہیں کہ یسمی التراویح یعنی قیام شہر رمضان ہی کا نام تراویح ہے امام محمد رحمہ اللہ اس باب کے ذیل میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت لائے ہیں جس میں آٹھ ۸رکعت تراویح مع وتر گیارہ رکعت سے زیادہ سنت نہ ہونے کا ذکر ہے آپ حنفی مذہب کے موسسین میں سے ہیں۔ ابن الہمام نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کی بنا پرمع وتر گیارہ رکعت ہی سنتِ رسول ﷺ تسلیم کیا ہے اور بیس رکعت والی مرفوع روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(فتح القدیر۔ج اول ص ۔۳۳۴طبع مصر) ابن نجیم نے بھی بحر الرائق میں ابن ہمام کی بات کی تائید کی ہے اور بلا انکار مانا ہے کہ وتر کے ساتھ گیارہ رکعت ہی سنتِ نبویﷺ ہے جیسا کہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے۔( البحر الرائق۔ج ۲) علامہ طحطاوی نے بھی شرح در مختار میں یہی لکھا ہے کہ مع وتر گیارہ رکعت ہی تراویح سنتِ رسول اللہﷺ ہے۔ ‘‘نفحات رشیدی’’ میں ہے کہ تراویح کی رکعتوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کی کتنی تعداد مختار ہے اس بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر کسی کی اقتدا کرنا ضروری ہے توپھررسولﷺکی اقتدا کیوں نہ کی جائے اور رسول اللہﷺ سے صحیح طور سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مع وتر گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی۔(نفحات رشیدی مسک الختام ص۲۸۸) علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ بخاری کی ان روایتوں جن میں رسول اللہﷺکے تراویح پڑھانے کاذکر ہے تعداد بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ صحیح ابنِ خزیمہ اور صحیح ابنِ حبان کی روایتوں میں اس کا ذکر آگیا ہے کہ رسول اللہﷺنے ان راتوں میں صحابہ کرام کو وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔(عمدۃ القاری ج ۳ ص۵۹۷) ملا علی قاری رحمہ اللہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام بلا کسی ردّوانکار کے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے تراویح کا کوئی خاص عدد قولا تو مقرر نہیں فرمایا لیکن عملا گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور علامہ ابنِ ہمام کے اس قول پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا کہ تراویح تو اصل میں رسول اللہﷺ کے فعل سے مع وتر گیارہ رکعت ہی ثابت ہے۔(مرقاۃ ص ۱۷۵) مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ نے آثار السنن ج اول ص ۵۱ میں ایک عنوان قائم کیا ہے کہ باب التراویح بثمان رکعات اس کےذیل میں سب سے پہلی حدیث وہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ۸ رکعت والی ذکر کی ہے معلوم یہ ہوا کہ وہ یہ مان رہے ہیں کہ رسول اللہﷺسے آٹھ رکعت بلا وتر اور مع وتر گیارہ رکعت تراویح باسناد ثابت ہے۔( آثار السنن ج اول ص ۵۱) مولانا عبد الحئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ۸ رکعتیں اور تین رکعت وتر با جماعت رسول اللہﷺسے تین راتوں میں ثابت ہے اور امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے رسول اللہﷺ نے اس کا اہتمام نہیں کیا اور ان تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں۔(مجموعہ فتاوی ۳۵۴)اور عمدۃ الرعایۃ میں لکھتے ہیں کہ ابنِ حبان وغیرہ نے رو ایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے ان تین راتوں میں ۸رکعت اور۳ رکعت وتر پڑھا ہے(شرح وقایۃ) مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں الحاصل قولا کوئی عدد معین نہیں مگر رسول اللہﷺ کے فعل سے مختلف اعداد معلوم ہوتے ہیں،چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے ایک شب میں گیارہ رکعت تراویح باجماعت پڑھی( الرائ النجیح ص۱۳) مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ کتنا ہی باتیں بنائیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ تسلیم کئے بغیر ہمارے لئے کوئی راستہ نہیں ہے کہ رسول اللہﷺکی تراویح تو ۸ ہی رکعت تھی۔ اسی زمانہ کے مشہور عالم مولانا زکریا صاحب حنفی کاندھلوی رحمہ اللہ اوجز المسالک شرح موطا امام مالک رحمہ اللہ ج اول ص ۳۹۷ میں لکھتے ہیں کہ یقیناً محدثین کے اصول کے مطابق بیس رکعت تراویح کی تعداد رسول اللہﷺسے مرفوعاً ثابت نہیں ہے( اوجز المسالک شرح موطا امام مالک رحمہ اللہ ج اول ص ۳۹۷) بانئ مدرسہ دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اپنی کتاب لطائف ِ قاسمیہ مکتوب سوم ص ۱۸ میں فرماتے ہیں کہ ‘‘یازدہ’’از فعل سرورعالم ﷺ واکد از بست’’یعنی رسول اللہﷺ سے جو گیارہ رکعت تراویح مع وتر کے ثابت ہیں وہ بیس سے زیادہ معتبر ہیں طحاوی شرح معانی الآثار جلد اول ص ۱۷۲ میں ہے کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت مع وتر پڑھائیں ۔یہ روایت موطا امام مالک رحمہ اللہ ص ۴۰ میں موجود ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب المصابیح فی صلٰوۃ التراویح میں امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےلوگوں کو جتنی رکعت تراویح پڑھنے پر جمع کیا تھا وہی گیارہ رکعت مجھے بھی پیاری ہیں اور یہی رسول اللہﷺ کی نمازِ تراویح تھی کسی نے پوچھا کہ مع وتر کے گیارہ رکعت ہیں؟ امام مالک رحمہ اللہ نے فر مایا ہاں! یہ بہت سی رکعتیں نہ معلوم لوگوں نے کہاں سے نکال لی ہیں۔ بیس۲۰ رکعات تراویح والی روایتوں پر بحث! ابنِ ابی شیبہ ۔طبرانی ۔بیہقی۔ابنِ عدی اور بغوی رحمہم اللہ نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی ہے کہرسول اللہﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے محدثین اور علماء نے اسے ضعیف کہا ہے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر ص۱۱۹ میں ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح بخاری ص۳۱۷ میں علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ نے فتح القدیر شرح ہدایہ ج۱ ص۲۹۳ میں علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری شرح بخاری ج ۲ ص ۳۵۸،۳۵۹ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب ص ۱۴ میں علامہ حافظ صفی الدین احمد عبداللہ خزرجی انصاری رحمہ اللہ نے خلاصۂ تہذیب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ۲۱ میں ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے تدریب الراوی شرح تقریب النواوی مطبوعہ مصر ص۱۲۷ ، مذکورہ بالا تمام حضرات لکھتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے تو یہ (ابنِ شیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی شہر واسط کا قاضی ابو بکر بن شیبہ کا دادا ہے )ضعیف ہے شعبہ رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اور یحی ابن معین رحمہ اللہ نے اور امام بخاری رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ ،ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہم نےاسے ضعیف اور متروک الحدیث کہا ہے اور ابن عدی رحمہ اللہ نے اپنی‘‘ کامل’’میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی منکر حدیثوں میں ذکر کیاہے ۔حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے متروک الحدیث لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ ساتویں طبقہ سے ہے اور بیس رکعت والی حدیث صحاح ستہ میں کہیں نہیں آئی ہےاور بخاری ومسلم وغیرہ کی عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ۔ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں سائب بن یزید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی ا للہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ حوالہ ملاحظہ کریں:عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً (موطاامام مالک جلد نمبر1حدیث نمبر 249 ) امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب معرفۃ السنن والآثار ج ۱ ص ۴۴۷ میں فرمایا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی انہوں نے محمد بن یوسف سے روایت کی انہوں نے سائب بن یزید سے روایت کی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کے حوالہ سےعمر رضی اللہ عنہ کا حکم جو لوگ نقل کرتے ہیں وہ بالکل غلط ہے مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں کسی جگہ یہ نہ ملے گا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت پڑھی ہے یا بیس کا حکم دیا ہے اور جو یزید بن رومان کی روایت ہے اس میں یہ نہیں ذکر ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ بیس رکعت پڑھتے تھے یا بیس رکعت حکم دیا ہے بلکہ یہ ہے کہ لوگ عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیئیس(۲۳) رکعت پڑھتے تھے ۔لیکن واضح رہے کہ یہ روایت سندًا صحیح نہیں ہے بلکہ منقطع السند ہے اس لئے کہ یزید بن رومان جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کو عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ملا ہی نہیں یہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیدا ہوئےاور عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں معلوم ہوا کہ بو جہ انقطاع کے متصل السند اور صحیح نہیں ، علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری شرح بخاری ج ۲ ص ۸۱۴ میں یہی فرمایا کہ یزید بن رومان کو عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں ملا۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کی ایک روایت نقل کی ہےاس کی سند میں ایک راوی ابو الحسناء ہےجو علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے قرار دئیےگئے ہیں معلوم نہیں یہ کون بزرگ ہیں اگر یہ وہی ابو الحسناء ہیں جو تقریب التہذیب میں مذکور ہیں تو علی رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہی نہیں ہے،اس لئے یہ ابو الحسناء طبقۂ سابعہ میں سے ہیں جو کبار اتباع تابعین کا طبقہ ہے جس کو کسی بھی صحابی سے لقاء نہیں ہے۔چہ جائیکہ علی رضی اللہ عنہ سے لقاء ہو اور جب علی رضی اللہ عنہ سے ان کی لقاء ثابت نہیں تو بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہیں اور یہ ابو الحسناء مجہول بھی ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ ان کا نام حسن ہے اوربعض کہتے ہیں حسین ہےمجہول اور طبقہء سابعہ میں سے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عبدا للہ مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی بیس رکعت منقول ہونے کی ایک روایت امام محمد بن نصر مروزی کے حوالہ سے نقل کی ہے وہ بھی منقطع السند ہے اس میں اعمش نے عبداللہ ب مسعود رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۳۲ھ ،۳۳ھ میں وفات پاچکے جبکہ اعمش رحمہ اللہ ۶۰ھ کے بعد پیدا ہوئے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ص ۴۰۶ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت منقول ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں ۔وہ روایت یہ ہے کہ حمید بن عبدالرحمن نے ہ کو خبر دی انہوں نے حسن سے روایت کی انہوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے کہ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ میں ماہِ رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرتے تھے اس روایت میں عبدالعزیز بن رفیع نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا اس لئے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ۳۳ھ میں یا اس سے قبل وفات پاچکےتھے اور عبدالعزیز بن رُفیع ۵۰ھ کے بعد پیدا ہوئے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰غرض اس مسئلہ میں بخاری ،مسلم نیز حدیث کی دوسری کتابو ں سے صرف یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی اور خلفائے راشدین کا عمل بھی اس کے خلاف نہ ہمیں ملتاہے نہ ہی رہا ہے عمر رضی اللہ عنہ پر الزام لگانا کہ انہوں نے بیس رکعت پڑھی یا حکم دیا بالکل غلط اور جسارت ہے ۔اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو اتباع رسول اللہ ﷺ کی توفیق دے۔ ۰۰۰آمین ۰۰۰تقبل یا رب العالمین۔ |
|