الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلا م على نبینا محمد وعلى آلہ وصحبہ أجمعین وبعد:
محترم قارئين! اسلام کی آمد سےقبل زمانہ جاہلیت میں لوگ مختلف قسم کے شرک وبدعات ,باطل خیالات,غلط رسم و رواج , نحوست وبدشگونی اور توہم پرستی وغیرہ میں مبتلا تھے , چنانچہ پرندوں کواڑاکرسفرکے جاری اورمنقطع کرنے کا فیصلہ کرتے تھے ,اگرپرندہ دائیں سمت کی طرف جاتا تو اس کام یاسفرکو اچھا فال تصورکركے جاری رکھتے , اوراگربائیں سمت کو جاتا تو اس کا م یا سفرسےنحوست اور بدشگونی سمجھ کر رک جاتے .اسی طرح بعض ایا م اور مہینوں کو بھی نحوست وبد شگونی کی نظرسے دیکھتے تھے. رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربی صلي الله عليه وسلمکو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م شرکیہ اعتقادات ,فاسد خیالات اورتوھمّات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح عقیدۃ اوردرست منہجع عطا کیا ,اور آ پ صلي الله عليه وسلمکے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وأفکار اورتوہمات وخرافت اورباطل پکڈنڈیوں سے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے ,کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیں, اوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی, اورآپصلي الله عليه وسلمنے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ:" لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑےجا رہا ہوں جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ,ایک کتاب اللہ, دوسری میری سنت " اور دوسری جگہ فرمایا کہ " میں تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند ہیں,اس سے وہی شخص انحراف وروگردانی کریگا جسکی مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ دی گئی ہو آپ صلي الله عليه وسلم کے انتقا ل کے بعد لوگ کچہ صدیوں تک دین اسلام پر صحیح طریقے سےقائم رہے یہان تک کہ خیرالقرون کا زمانہ گزرگیا, پھر مختلف قسم کے باطل فرقے جنم لینا شروع ہوگئے, اعداء اسلام خاص کریہود ونصاری نے اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز کردیا ,عہدرسالت سے دوری ہوتی گئی, دین سے بے توجہی اورجہالت عام ہوتی گئی, اور لوگوں میں شرک وبدعات ,باطل اعتقادات, غیردینی رسم ورواج, اور مختلف قسم کے اوہام وخرافات پیدا ہونے لگے , اور وہ دین اسلام جسکو محمدعربی صلي الله عليه وسلمنے ہرطرح کی گند گیوں ا ور خرافات سے پاک وصاف کردیا تھا وہ مکدر اورگدلا ہوتا نظرآنے لگا , چنانچہ انہیں باطل اعتقادات ,اوہام وخرافات اوربدعات میں سے ماہ صفر کی نحوست وبدعات ہیں , جو موجودہ دورمیں بعض نام نہاد مسلمانوں میں دین سے جہالت اور اندہی تقلید کی وجہ سے درآئیں , جبکہ اسلام نے دورجاہلیت کے اس عقیدہ کوباطل قراردیا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ اسلام میں کوئی مہینہ نحوست وبدشگونی کا نہیں,اورزمانے اورمہینے یہ اپنے اندرکوئی تاثیرنہیں رکھتے,نہ ہی تقدیرالہی میں انکا کچہ دخل ہے جیسا کہ آپصلي الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :(لا عدوي ولا طيرة ولا ھامۃ ولاصفر)اخرجاہ وزاد مسلم (ولانوء ولاغول )(بخاری ک/الطب 10/265مسلم باب لاعدوة007/471) "حضرت ابوهريرة رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسولصلي الله عليه وسلمنے فرمایا کہ ایک کی بیماری د وسرےکو نہیں لگتی,نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے,نہ ألّو کا بولنا کوئی أثر کھتا ہے,نہ صفر کوئی چیز ہے , یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے اورصحیح مسلم میںیہ بھی ہے کہ" نچھتر نہ بھوت کوئ چیز " اس حدیث کے ذریعے نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے اہل جا ہلیت کے اس فاسد عقیدےکی تردید کی ہے جو وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں بذات خود تاثیر کا اعتقاد رکھتے تھے اور یہ ثابت کیا کہ مؤثر حقیقی تو صرف اللہ کی ذات ہے اوراسلام میں کسی دن اورمہینہ کو منحوس نہیں قراردیا گیا ہے اورنہ ہی کسی دن اورمہینے کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیر ہے . صفرکی وجہ تسمیۃ اور مفہوم صفر كي وجہ تسمیہ میں مختلف أقوال ذکرکئے گئے ہیں ان میں سے چند مشہور یہ ہیں : 1- صفر ايك بيماري هے جس میں آدمی کھا تا چلا جاتا ہے مگراسکی بھوک ختم نہیں ہوتی –جسے جوع البقرکہا جاتا ہے 2-بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صفرپیٹ میں ایک کیڑہ یا سانپ ہوتا ہے ,یا ایک خطرناک بیماری ہوتی ہے اور جس کو یہ بیماری لا حق ہوجاتی ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے ,اوریہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے. اس عقیدہ کی آپ صلي الله عليه وسلمنے تردید کی اور فرمایا "ولاصفر" صفر کی کوئی حقیقت نہیں اوریہ بیماری بھی اللہ کے حکم کے بغیر متعدی نہیں ہوتی. 3-كہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں عموما عربوں کے گھرخالی رہتے تھے مسلسل تین حرمت والے مہینوں کے بعد یہ مہینہ آتا تو جنگ وجدال کے یہ عادی عرب , لڑائی اور لوٹ مارکے لئے نکل پڑتے ,اور اس طرح انکے مکان خالی ہوجاتے,اورجب مکان خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ "صفر المکان"مکان خالی ہوگیا . حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتےہیں : (وصفر سمّي بذالك لخلوّ بيوتهم منهم حين يخرجون للقتال والأسفاريقال صفر المكان إذا خلا ويجمع على اصفاركجمل وأجمال(تفسير ابن كثير2/345) بعض لوگ کہتےہیں کہ صفر کے معنی خالی ہونا(اورچونکہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی ہوتا ہے ,اس واسطے اسے صفر کہتے ہیں حالانکہ یہ ان کے غلط اعتقاد پرمبنی توجیہ ہے جو درست نہیں . 4-"ولاصفر"كا ايك معني تو يه ہے کہ عرب کبھی ماہ صفر کو ماہ محرم سے بدل لیتے تھے ,یعنی ماہ محرم کے بجائے ماہ صفر کو حرمت والا مہینہ ما ن لیتے تھے,اوراسکے بدلےمحرم میں لڑائی اورلوٹ مار,قتل وغارتگری وخوں ریزی کو حلال کرلیتے,اورکبھی ایسا نہ کرتے,بلکہ محرم ہی کو حرمت والا مہینہ مانتے-رسولصلي الله عليه وسلمنے اسں عمل کو باطل قرار دیا اور"ولا صفر"سے اسکی تردید کی . 5-"اورایک قول یہ بھی ہے کہ :"اس ماہ میں قبائل کے خلاف چڑھائی کی جاتی تھی اورجو بھی انھیںملتا اسے مال سے خالی کردیتے ( یعنی اسکا سارا سامان چھین لیتے تو وہ بغیر کسی سامان کےرہ جاتا ) ( لسان العرب 4/462) 6-عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ,کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جگھڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے ,لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہے لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا –رسولصلي الله عليه وسلمنے اس کی تردید فرمائی ,اوربتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے ,اس میں جو کچہ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال,قتل وخونریزی اورلوٹ مار کیوجہ سےہے (فتح المجید ص/308) شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اسی قول کوراجح قرار دیا (مجموع فتاوىالشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:/113) ب- ماہ صفر کے سلسلے میں اہل جا ہلیت کا اعتقاد 1- تقدیم وتاخیر(نسیئی) 2 - نحوست وبد شگونی أ- ماہ صفر کو آگے پیچھے کرنا (نسیئ) ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالى نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں جن کی حرمت وپاس اورشان وعظمت کی وجہ سے جنگ وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے جیساکہ اللہ تعالى کا ارشاد ھے "بے شک مہینوں کی تعداداللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہیں ,اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ,یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو,اورتم تما م مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں,اور جان رکھو کہ اللہ تعالى متقیوں کے ساتہ ہے ". [التوبۃ ] اسی بات کو نبی کریمصلي الله عليه وسلمنے اس طرح فرمایا ہے کہ "زمانہ گھوم گھما کرپھر اسی حالت پے آگیا ہے جس حالت پر اسوقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی –سال بارہ مہینوں کا ہے ,جن میں چار حرمت والے ہیں ,تین پے درپے –ذوالقعدہ ,ذوالحجہ ,محرم اور چوتھا رجب مضر ,جو جمادی الأخری اورشعبان کے درمیان ہے "(بخاری ک/تفسیرباب سورہ توبہ, ومسلم ک/القسامۃ باب /تغلیظ تحریم الدماء) اور"زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے" اس سے مراد یہ ہے کہ "مشرکین عرب مہینوں میں جو تقدیم وتأخیر کرتے تھے جسے (نسیئ) کہا جاتا ہے اللہ نے اسے باطل قراردے دیاہے اورمہینوں کی وہی صحیح ترتیب ہے جس کو اللہ نے ابتدائے آفرینش سے رکھی ہے جیساکہ اللہ نے فرمایا کہ "مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں ,ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اورایک سال اسی کو حرمت والا کرلیتے ہیں ,کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں,پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے,انہیں ان کے برے کام بھلے دکھا دئیے گئے ہیں اور قوم کفارکی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا " التوبۃ ] "نسیئ "کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں . عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال وجدال اورلوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا ,لیکن مسلسل تین مہینے ا ن کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے,قتل وغارتگری سے اجتناب کرنا ,ان کے لئے بہت مشکل تھا- اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکا ل رکھا تھا کہ جس حرمت والے مہینے میں وہ قتل وغارتگری کرنا چاہتے ,اس میں وہ کرلیتے اوراعلان کردیتے کہ اسکی جگہ فلان مہینہ حرمت والا ہوگا –مثلا محرم کے مہینے کی حرمت توڑکر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے ,اس طرح حرمت والے مہینوں میں وہ تقدیم وتاخیر اور اُدَل بدَل کرتے رہتے تھے ,اور انکا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالى نے جو چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں ان کی گنتی پوری رہے ,یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے لیکن اللہ نے جوقتال و جدال اور غارتگری سے منع کیا تھا , اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی ,بلکہ انہیں ظالمانہ کارروائیوں کے لئے ہی وہ تقدیم وتاخیر اور أُدَل بد ل کرتے تھے, یعنی مشرکین ان چاروں مہینوں کی حرمت کو جانتے ہوئے اپنی من مانی خواہشات سے"نسیئ "کا عمل کرتے تھے , اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سب سے بڑا فجورکا کا م ہے جیساکہ بخاری ومسلم میں ہے:(عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:كانوا يرون أن العمرة في أشهر الحج من أفجر الفجور في الأرض , ويجعلون المحرّم صفراً,ويقولون : إذا برأ الدَّبر ,وعفا الأثر , وإذا انسلخ صفر :حلّت العمرة لمن اعتمر )(بخاري (1489) ومسلم (1240) "ابن عباس رضي الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ : وہ یہ سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں بہت بڑا فجور کا کا م ہے اوروہ محرم کو صفر بنا لیتے اوریہ کہتے : جب اونٹوں کی پشت صحیح ہوجائے اوراسکے اثرات مٹ جائیں ,اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے ,تو عمرہ کرنے والےکیلئے عمرہ حلا ل ہوگیا " اسی کو"نسیئی"کہا جاتا ہے . اللہ تعالى نے اس کی بابت فرمایا کہ:یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس اُدَل بدل سے مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچہ نہیں -اورنبی کریمصلي الله عليه وسلمنے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہ کر فرمادیا کہ"زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پے آگیا ہے "یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ تر تیب اسی طرح رہے گی جسطرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے. اہل جاہلیت کے نزدیک " نسیئ " کی کیفیت 1 –(تأخیر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جنادہ بن عوف بن امیہ کنانی ھر سال موسم (حج) میں آتا اوریہ اعلان کرتا كہ:"خبردار! أبوثمامہ کو نہ تو کوئی عیب لگایا جائیگا اورنہ ہی اسکی بات مانی جائیگی ,خبردار! سال کے شروع میں صفر حلال ہے , توہم اسے ایک سال حرام قراردیتے ہیں,ا ورایک سال حلال ,اور وہ (ان دنوں) ہوازن وعطفان اوربنوسلیم کے ساتہ تھے . اورایک لفظ میں اس طرح ہےکہ " ہم نے محرم کو پہلے اور صفر کو بعد میں کردیا ہے ,پھر دوسرے سال آتا اورکہتا کہ ہم نے صفر کو حرام قراردیا ہے اورمحرم کو موخر کردیا ہے تووہ یہی تاخیر اور"نسیئی" ہے 2-زیادتی : قتاده رحمه الله كہتے ہیں کہ :"گمراہ لوگوں میں سے ایک قوم نے صفر کو اشہر الحرام یعنی حرمت والے مہینوں میں شامل کردیا ,ان لوگوں کا سردارموسم (حج) میں کھڑا ہو کریہ کہتا :خبردار!تمهارے معبودوں نے اس سال محرم کو حرام کردیا ہے ,تو وہ اس سال محرم کو حرمت والا قراردیتے , پھر وہی شخص اگلے سال یہ اعلان کرتا کہ :تمہارے معبودوں نے صفر کو حرام کیا ہے تو وہ اس سال صفرکو حرمت والا قرار دیتے ,اور یہ کہتے "صفران" یعنی دوصفر ". اورابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایسا ہی روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ "اہل جاہلیت دو صفر بنا لیتے تھے اسی لئے نبیصلي الله عليه وسلمنے فرمایا "لا صفر " اوراسی طرح اشہب نے بھی امام مالک سے ایسا ہی بیان کیا ہے 3-حج کی تبدیلی : ايك دوسري سند كے ساتہ مجاہد رحمہ اللہ , اللہ کے اس قول }إنما النسيئ زيادة في الكفر{ "کہ نسیئ تو کفرمیں زیادتی ہے " کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : "یعنی دوبرس وہ ذوالحجہ میں حج کرتے , پھر دوسال محرم میں حج کرتے ,پھر دو سال صفر میں حج کرتے ,تواسطرح وہ ہرسال ہر ما ہ میں دوسال حج کرتے تھے ,حتى کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ کے مہینہ کے موافق آیا, اور پھر نبی کریمصلي الله عليه وسلمنے ذوالحجہ میں حج کیا ,تویہی نبی£ کا فرمان ہے جسکو اپنے خطبہ میں بیان کیا تھا "بے شک زمانہ گھوم گھما کراسی حالت پے آگیا جس پر وہ زمین وآسمان کی خلقت کے وقت تھا " جیسا کہ ابن عباس وغیرہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے .کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :" لوگو !میری بات غورسے سنو ,ہوسکتا ہے آئندہ آپ لوگوں سے ملاقات نہ کرسکوں, لوگو! بلاشبہ تمہارے خون اورمال تم پر قیامت تک حرام کردئے گئے ہیں جیسے اس دن ,اس مہینے اوراس شہر کی حرمت ہے ,بے شک تم سب عنقریب اپنے رب سے ملاقات کروگے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سؤال کرے گا ,بے شک میں نے رب کے پیغام کو پھنچا دیا ,لہذا جس کسی کے پاس بھی کسی کی کوئی امانت ہووہ اسے لوٹا دے , اور بلا شبہ ہر قسم کے سود کو ختم کردیا گیا اورتمہارے اصل مال کو باقی رکھا گیا ہے ,نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ ہی تم پر کوئی ظلم کیا جائیگا , اللہ تعالى کا فیصلہ ہے کہ سود (جائز)نہیں اور ابن عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط اورختم کردیا گیا ہے اورجاہلیت کا ہرخون ختم کردیا گیا ہے, اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ابی ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے جو بنو لیث میں دودہ پیتا تھا تواسے بنو ہذیل قبیلہ نے قتل کردیا تھا , اوریہ جاہلیت کے خون میں سے پہلا خون ہے جسے میں ختم کرتا ہوں . أما بعد: اے لوگو!بلاشبہ شیطان اس بات سےنا امید ہوچکا ہے کہ تمہاری سرزمیں میں اسکی اب پوجا کی جائیگی ,لیکن اسکے علاوہ جن کاموں کو تم حقیر سمجھتے ہو اگر اس میں اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس پر راضی ہوگا ,لہذا تم اپنے دین کے سلسلے میں شیطان سے بچ کر رھو ,اوریہ "نسیئ"کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں ,ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا قراردیتے ہیں , کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں ,پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے "اورزمانہ اسی حالت پر لوٹ گیا جس پر وہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت تھا اوربے شک مہینے اللہ کے نزدیک بارہ ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں,تین پے درپے اوررجب مضر جو جمادی اورشعبان کے درمیان ہے اسکے بعد ساری حدیث ذکرکی . . (أحکام القرآن لابن العربی :2/503-504) ب- ماہ صفرسے نحوست وبدشگونی -عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ,کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جگھڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے ,لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتےہی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا –رسولصلي الله عليه وسلمنے اپنے اس قول(ولاصفر) کے ذریعےاس کی تردید فرمائی,اور بتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے – اس میں جو کچہ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے (فتح ص/308) اوردنوں اور مہینوں کو گالی یا برا بھلا کہنے کو اللہ کو سب وشتم کرنے کے مترادف قراردیا جیسا کہ حدیث قدسی ہے :(يقول الله عزوجل يؤذيني ابن آدم يسب الدهر وأنا الدهر بيدي الأمر أقلب الليل والنهار ) (بخاري ك/التفسير,8/738) " يعني الله تعالى فرماتا هے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں میرے ہی ہاتہ میں سارے امورہیں میں ہی رات اوردن کوپھیرتا ہوں " شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ رسولصلي الله عليه وسلمکے قول " ولاصفر" کی توجیہ میں فرماتے ہیں "اوروقت اورزمانے کواللہ تعالى کی تقدیر پر کوئی تاثیر نہیں ,لہذا یہ بھی باقی اوقات اورزمانوں کی طرح ہے جن میں خیر وشر مقدرکیا جاتا ہے اوراس میں "صفر" کے وجودکی نفی نہیں ہے بلکہ اسکی تاثیرکی نفی مراد ہے اسلئے کہ موثرحقیقی توصرف اللہ تعالى ہے, لہذا جوسبب معلوم ہو وہ سبب صحیح ہے اور جو سبب صرف وہم پر ہو وہ سبب باطل ہے اور بنفسہ اس کی سببیت اورتاثیر کی نفی ہو گئی . (مجموع فتاوىالشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:/113-115) ماہ صفر کی نحوست و بدعات اورموجوده مسلمان : قائين كرام! كتا ب وسنت كي روشني ميں کچہ مہینے ایام اور راتیں ایسی ہیں جنکو دوسرے مہینوں, ایام اور راتوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت حاصل هيں,جیسے یوم عرفہ, شب قدراور یوم عاشوراء وغیرہ ,مگرکسی ماہ یا دن یارات کے بارےمیں صحیح أحادیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ منحوس ہے اور اس سے بدشگونی لینی جائزہے لیکن أفسوس کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ما ہ صفر کے بارے میں بڑی بد عقیدگی کا شکار ہیں اوراہل جاہلیت کی روش پر ابھی بھی قائم ہیں , وہ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ: 1- اس ماہ میں مصائب وآلام کی ہوائیں پوری تیزی کے ساتہ چلنے لگتی ہیںاور غم وتکلیف کے دریا تندی وروانی کے ساتہ بہنے لگتے ہیں –یعنی سال میں دس لاکہ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف ایک مہینہ (صفر) میں نولاکہ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں . 2-بعض بد عقیدہ مسلم خواتین اس مہینے کو(طیرۃ طیری )یا(تیرۃ تیری) کے نام سے موسوم کرتی ہیں چنانچہ وہ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتی ہوئیں چنے ابال کر اس مہینہ میں صدقہ کرتی ہیں تاکہ اس نحوست سے محفوظ رہیں . 3-بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی رہتا ہے اسی لئے اس سے نحوست پکڑتے ہیں . 4-بعض لوگ جب صفرکی پچیس تاریخ کو اپنے کسی کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اسکی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں :"خير كے مہینہ پچیس تاریخ کو یہ کا م ختم ہوا ,(یہ بدعت کا علاج بدعت کےذریعے ہے ,یہ مہینہ نہ تو خیرکا ہے اور نہ ہی شر کا) . 5-بعض لوگوں کے یہاں نئے شادی جوڑوں کو اس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں میں ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے, انھیں ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھنے دی جاتی ہے,حتی کہ عام شوہر اور بیوی کو بھی تین دن تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے , تاکہ وہ نحوست کا شکار نہ ہوجائیں . 6-بعض مسلمان ماہ محرم میں اورصفر میں اس بنا پر شادی اورکوئی خوشی کا کا م نہیں کرتے کہ محرم میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے اورصفر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا- ان دونوں واقعات کی بنا پر دونوں مہینوں کو شادی اورخوشی کیلئے غیر مناسب اورمنحوس سمجھتے ہیں , حالانکہ کسی کی وفات اور شہادت کا دنوں اور مہینوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا , ورنہ ما ہ ربیع الأول اس بنا پر منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں رسولصلي الله عليه وسلمکی وفات ہوئی – جمادی الأول کو اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ اول, یار غاررسول ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا – اور ذی الحجہ اسلئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اور خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت ہوئی ,اورماہ رمضان اس واسطے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی – اس طرح تما م انبیاء علیہم السلام, صحابہ کرام اورائمہ اسلام کی وفات اور شہادت کے ایام ومہینوں کو منحوس قراردیں , تو کوئی مہینہ, بلکہ کوئی دن نحوست سے خالی نہ رہے , اس واسطے حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے محرم کو اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے صفر کو منحوس سمجھنا اور ان میں شادی بیاہ نہ کرنا سراسر باطل اورغلط ہے . کوئی مہینہ اور دن منحوس نہیں ہوتا منحوس آدمی کا اپنا نا جائز عمل اور غلط عقیدہ ہوتا ہے . 7- ماہ صفر کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس ماہ کے آخر میں مغرب وعشاء کے درمیان مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں , اور ایک ایسے کاتب کے پاس حلقہ بناکر بیٹھتے ہیں جو انھیں کاغذ پرانبیاء علیہم السلام کے اوپر سلام والی آیتوں کو لکھ کر دیتا ہے وہ آیا ت یہ ہیں : 1- سلام ٌقولاًمن رب رحيم 2- سلامٌ على نوحٍ في العالمين 3-سلامٌ على إبراهيم 4-سلامٌ على موسى وهارون 5-سلامٌ على المرسلین 6-سلامٌ عليكم طبتم فادخلوها خالدين 7-سلامٌ هي حتى مطلع الفجر اسکے بعد یہ اسے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں اورپھراسے اس اعتقاد کے ساتہ پیتے ہیں کہ اس سے انکی تمام مصیبتیں دورہوجاتی ہیں ,اسی طرح وہ اس پانی کو ایک دوسرے کو ہدیہ کے طور پر بھی بھیجتے ہیں. بدہ کےدن سےنحوست, اورماہ صفر کے آخری بدہ کی تاریخی حیثیت أ- بده كے دن سےعمومی نحوست دمشق ميں بعض لوگ بدہ کے روز مریض کی عیادت کو منحوس اور بد فال سمجھتے ہیں ,چنانچہ بدہ کے دن عوام اور خواص اوررشتہ داروں کے لئے عیادت مریض ممکن نہیں – بظاہر ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے کہ : (يوم الأربعاء يوم نحس مستمر ) "بده كا دن مسلسل نحوست کا دن ہوتاہے "اس روایت کے بارے میں امام صاغانی اور امام ابن جوزی میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے –امام سخاوی فرماتے ہیں کہ "بدہ کے دن کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں مگر سب کی سب ضعیف اور ساقط الإعتبار ہیں –(المقاصد الحسنۃ للسخاوی 1/574) اسی طرح لوگوں میں رائج خرافات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ کچہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے بدہ کے روزکسی مریض کی عیادت کی تو جمعرات کو وہ اس مریض کی عیادت کرے گا – انکا مطلب یہ ہے کہ بدہ کے روز اگر مریض کی عیادت کی جائے گی تو وہ مریض اس کے بعد دوسرے دن جمعرات کو مرجائے گا جس کی زیارت جمعرات کو قبرستان میں ہوگی –" شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سےپوچھا گیا کہ کیا بدھ جمعرات یا سنیچر کے روزسفر کرنا مکروہ ہے ؟ یا ان ایام میں کپڑوں کی کانٹ چھانٹ اور کپڑوں کی سلائی سوت کی کتائی یا اس قسم کے کاموں کا کرنا مکروہ ہے یافلان فلان تاریخوں کی راتوں میں وطی اور جماع کرنا مکروہ ہے , کیونکہ ایساکرنے سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خوف وخطرہ لگا رہتا ہے – اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا :" كہ سؤال میں مذکورہ عقائدوخیالات باطل اوربے اصل ہیں اورآدمی جب استخارہ کرکے کوئی مباح عمل کرے جس وقت بھی کرنا آسان ہو قطعی طورپر وہ کام کرسکتا ہے – کسی دن بھی کپڑے کی کاٹ چھانٹ یا سلائی یا سوت کی کتائی مکروہ نہیں ہے رسولصلي الله عليه وسلمنے بدفالی سے منع فرمایا ہے :(عن معاويةبن الحكم السلمي قال قلت يارسول الله صلى الله عليه وسلم ان منا قوما يأتون الكهان ؟ فلاتأتوهم قال منا قوم يتطيرون ؟ قال وذالك شئي يجده احدكم من نفسه فلا يصدنكم ) (بخاري كتاب الإستسقاء2/522,ومسلم كتاب السلام 7/481,حديث(121) " حضرت معاويہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؟ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں –آپصلي الله عليه وسلمنے فرمایا تم لوگ کاہنوں کے پاس مت جاؤ انہوں نے عرض کیا ہم میں سے کچہ لوگ بدفالی لیتےہیں –صلي الله عليه وسلمنے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں مگراسکی وجہ سے کوئی کام کرنے سے تمہیں باز نہیں رہنا چاہئیے "- آگے چل کر شیخ الإسلام اپنے فتاوى میں فرماتے ہیں "جب رسولصلي الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ جس کام کا آدمی نے عزم کیا اس کا م کو بدفالی کے سبب کرنے سے بازنہیں آنا چاہئے –تو ,رات اوردن میں سے کسی کو منحوس سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بلکہ جمعرات اورسنیچر اوردوشنبہ کو سفر کرنا مستحب ہے اورتما م ایام میں کسی دن سفر کرنے یا کسی کام سے روکا نہیں گیاہے –البتہ جمعہ کے بارے میں اختلاف ہے اگرسفر کے سبب نماز جمعہ فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس دن جمعہ سے پہلے سفر کرنے سے بعض علماء منع کرتے ہیں , اور بعض علماء کرام جائز بتاتے ہیں لیکن کاروباراورجماع ووطی تو کبھی اورکسی دن مکروہ وممنوع نہیں واللہ أعلم –")(دیکھئیے خانہ ساز شریعت ص/174) ب –ماہ صفر کے آخری بدہ کی تاریخی حیثیت ماہ صفرکے آخری بدہ کے بارے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس روز رسولصلي الله عليه وسلمنے بیماری سے شفا پائی اور آپصلي الله عليه وسلمنے غسل صحت فرمایا اسی لئے بعض لوگ ما ہ صفر کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں ,اورسیروتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کی صحت یابی کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں – حالانکہ اس کا ثبوت نہ احادیث کی کتابوں سے اور نہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے ملتا ہے – بلکہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے چنانچہ اسد الغابہ( 1/41) میں ہے (بدأ برسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات منه يوم الأربعاء ليلتين بقيتا من صفر سنة احدى عشرة في بيت ميمونة ثم انتقل حين اشتد مرضه الى بيت عائشة وقبض يوم الأثنين ضحى في الوقت الذي دخل فيه المدينة لاثنتى عشرة من ربيع الأول ) رسولصلي الله عليه وسلمکی اس بیماری کا آغاز جس میں آپصلي الله عليه وسلماس دنیا سے تشریف لے گئے سن11ھ میں صفرکے مہینے کی جب دوراتیں باقی رہ گئی تھیں بدھ کے روز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ہوا پھر جب آپصلي الله عليه وسلم کی بیماری شدت اختیارکر گئی تو آپ صلي الله عليه وسلمحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے اور 12ربیع الأول سوموار کے دن چاشت کے وقت جس وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ کی روح اقدس کو قبض کرلیا گیا – یہی عبارت "الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب (1/20) میں بھی ہے اور تاریخ خمیس (2/161) میں ہے "ابتدأبہ صداع فی اواخرصفرلیلتین بقیتا منہ یوم الأربعاء فی بیت میمونۃ " یعنی رسولصلي الله عليه وسلمکی بیماری کی ابتداء بدہ کے روز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں صفرکے آخرمیں ہوئی. حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (8/164)ترجمۃ الباب "با ب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی شرح میں لکھا ہے کہ " بیماری کا آغازصفر کے آخر میں ہوا " اورطبقات ابن سعد (2/377) میں حضر ت على رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم 29 صفر سن 11ھ یو م چہار شنبہ کو بیمار ہوئے اور 12ربیع الأول سن 11ھ بروزدوشنبہ آپصلي الله عليه وسلم نے وفات پائی – اور( البدایہ والنہایۃ (5/224)ميں ہے :ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ الى اراہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر وفی أول شہر ربیع الأول " رسولصلي الله عليه وسلم کی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے –صفر کی چند راتیں باقی رہ گئی تھیں یا ربیع الأول کی ابتدا میں ہوا" تاریخ الکامل (2/215)میں ہے "ابتدأ برسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم مرضہ اواخرصفر"رسولصلي الله عليه وسلمکی اس بیماری کا آغاز صفر کے اواخر میں ہوا" سیرت ابن ہشام (5/224) میں ہے "ابتدأ ر سول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ الى ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر او فی شہر ربیع الأول " رسول صلي الله عليه وسلمکی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ تعالى نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئیں یار بیع الأول کی ابتداء ہو چکی تھی اسوقت ہوا "تاریخ ابن خلدون (2/61) ميں ہےکہ "بدأہ الوجع لیلتین بقیتا من صفر وتحاوى بہ وجعہ ""صفرکی دو راتیں باقی رہ گئیں تھیں آپ صلي الله عليه وسلم کی بیماری شروع ہوئی پھر آپ صلي الله عليه وسلم بیمار ہی رہے " تاریخ طبری (2/161) بدأ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وجعہ لیلتین بقیتا من صفر "رسولصلي الله عليه وسلم کی بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں "علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (سيرت النبي 2/172) لکھتے ہیں کہ "زياده تر روايات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلي الله عليه وسلم کل تیرہ دن بیمار رہے – اس بنا پر اگریہ تحقیقی طورپر متعین ہوجائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے –حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھربروایت صحیح آٹھ روز (دوشنبہ تک) بیمار رہے, وہیں وفات ہوئی, اسلئےایام علالت کی مدت آٹھ روزیقینی ہے عام روایت کے رو سے پانچ دن اور چاہئیں, اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے مدت علالت 13 دن صحیح ہے علالت کے پانچ دن آپ صلي الله عليه وسلم نے ازواج مطہرات کے حجروں میں بسر فرمائے – اس حساب سے علالت کا آغاز چہارشنبہ سے ہوتا ہے – بہرحال محققین کے نزدیک آپصلي الله عليه وسلم کی بیماری کا آغاز صفر میں آخری بدہ کو ہوا کچہ لوگوں نے دن اورتاریخ میں تھوڑا اختلاف کیا ہے – مگر یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ آ پ صلي الله عليه وسلم کی مرض الموت کی ابتدا صفر کی آخری تاریخوں میں ہوئی – پھر بتائیے کہ مسلمانوں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے نبی فداہ ابی وامی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں – زیب وزینت کرکے باغوں پارکوں اور سیر گاہوں میں تفریح کے لئے جائیں ,قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اورمیوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں , خصوصاً عورتیں عیدین سے بڑہ کر خوشیاں منائیں , اورخوب بن سنور کر سیر کے لئے نکلیں – ذرا غور کیجئے کیا آپ میں کوئی اپنے ماں باپ, بھائی بہن, رشتہ دار,یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا ؟ اچھے اچھے اورلذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گأ؟ گھر میں آپ کا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہوتو آپ سیروتفریح کو جائیں گے ؟ جب آپ اپنے ایک عزیز دوست اوررشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہین کرسکتے , تو حضرت محمدصلي الله عليه وسلم کی علالت کے آغاز کے دن کیسے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں فرمان نبوی صلي الله عليه وسلم ہے :لایؤمن أحدکم حتى أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین) فتح الباری ک/الإیمان باب حب الرسول صلى اللہ علیہ وسلم من الإیمان 1/80) "تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ سے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں" مستقل فتوى کمیٹی کا اس ماہ کے بدعات کے سلسلے میں جواب: :ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہ صفر کے آخری بدہ کو چاشت کے وقت ایک ہی سلام کے ذریعہ چاررکعت کے ساتہ پڑھی جاتی ہے جس میں ہررکعت کے اندر 17بار سورہ فاتحہ و کوثر ,50بارسورہ اخلاص اور ایک ایک بارمعوذتین (قل أعوذبرب الفلق وقل أعوذ برب الناس) پڑہی جاتی ہے اوریہ عمل ہررکعت میں کیا جاتا ہے اور سلام پھیر دیا جاتا ہے , پھر سلام کے فورابعد (اللہ غالب على أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون) کو 360بار پڑہا جاتا ہے ,اسکے بعد "جوہرالکمال" کو3بار پڑہا جاتا ہے اورپھر (سبحان ربک رب العزۃعما یصفون ,وسلام على المرسلین ,والحمد للہ رب العالمین ) کے ذریعہ نماز کو ختم کردی جاتی ہے . پھر فقراء ومسکین میں روٹی وغیرہ کا صدقہ کیا جاتا ہے , خاص کرکے اس مذکورہ آیت کا صدقہ ,یہ سب ماہ صفرکے آخری بدہ میںنازل ہونے والی مصیبت وپریشانی کو دورکرنے کے اعتقادسے کیاجاتا ہے . اوران کا کہنا کہ ہرسال 3لاکہ بیس ہزار آفتیں نازل ہوتی ہیں اورسب کے سب ماہ صفرکے آخری بدہ کو ہوتی ہیں تو اس اعتبارسے یہ دن سال کا سب سے مشکل دن ہوتا ہے توجوشخص مذکورہ نماز کو اسکے بیان کردہ کیفیت کے ساتہ پڑہےگا تواللہ تعالى اپنے فضل وکرم سے اس نمازکے ذریعہ اس دن کے تما م نازل ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا اور اس سال اس کے گرد کوئی بھی مصیبت وآفت چکّرنہیں لگائے گی 000 الخ؟ جواب : الله ورسول اورانكے آل وأصحاب پردرودوسلام کے بعد کمیٹی نے کہا کہ" سؤال میں مذکورنفل نماز کے بارے میں کتاب وسنت سے ہم کوئی أصل نہیں جانتے ,اورنہ ہی سلف صالحین اورخلف میں سے کسی سے یہ فعل ثابت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ بدعت ہے . اورنبیصلي الله عليه وسلمنے فرمایا ہے (من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) وقال( من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردّ)"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " اوردوسری روایت میں یوں فرمایا کہ" جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " اورجس نے اس نمازاوراسکے ساتہ جو کچہ ذکرکیا گیا ہےاسکی نسبت نبی صلي الله عليه وسلم یا کسی صحابہ کی طرف کی تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا ,اوراللہ کی طرف سے جھوٹے لوگوں کی سزا کا مستحق ہوگا .(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ2/354) اورشيخ محمد عبد السلام شقيري فرماتے ہیں کہ " جاہلوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ سلام کی آیتوں جیسے "سلام على نوح فی العالمین 000الخ"کوصفرکے آخری بدہ کو کرپانی کے برتن میں ڈا لتےہیں پھراس پانی کو پیتے, اوراس سے تبرک حاصل کرتے ہیں. اسی طرح ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دیتے ہیں ’اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے شراورمصیبتیں دورہوجاتی ہیں .جبکہ یہ فاسد اعتقاد اوربری نحوست ہے اور قبیح بدعت ہے جو شخص بھی کسی کویہ عمل کرتا دیکھےاسکے لئے اس سے روکنا ضروری ہے ..(السنن والمبتدعات :ص/111-112) ما ہ صفر میں واقع ہونے والے غزوات وسرایا اس ماہ میں غزوات وسرایا کی تعداد بہت زیادہ ہے جیساکہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ج3 میں اسکی جانب اشارہ کیا ہے جیسے غزوۃ ابواء ,بئرمعونۃ ,اورخیبر کا صفرہی میں فتح ہونا ,اسی طرح قبیلہ خثعم کی جانب صفر 9ھجری میں قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ کا بھیجنا وغیرہ. ماہ صفرسے متعلق کچہ ضعیف وموضوع حدیثیں 1- اس ماہ سے متعلق یہ حدیث مشہور ہے کہ نبیصلي الله عليه وسلمنے فرمایا ہے کہ "جوکوئی صفر کے مہینہ کے گزرنے کی خوشخبری دے,میں اسکو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سناتا ہوں" لیکن حدیث صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس ما ہ یا آخری بدہ کے نحوست کے سلسلے میں جتنی بھی حدیثیں ہیں سب ضعیف اورموضوع ہیں (دیکھئے :الموضوعات لابن الجوزي 3/73-74 )2-علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ضعیف وموضوع روایت کی معرفت کے اصول وقواعد کے ضمن میں لکھتےہیں : فصل : ان احادیث کے بارے میں جو آنے والی تاریخ سے متعلق ہیں اسی میں سے یہ کہ : حديث میں فلاں فلاں تاریخ کا ذکرہو جیسے انکا قول :جب فلاں فلاں سال ہوگا توایسا ایسا ہوگا اورفلاں مہینہ ہوگا تو یہ حادثہ واقع ہوگا اور اسی طرح سخت جھوٹے کا قول :جب محرّم میں چاند گرہن لگے گا تو مہنگائی ,قتل وغارتگری اوربادشاہ وحکمران کی مشغولیت بڑہ جائیگی اورجب صفر میں چاند گرہن لگے گا توایسا ایساہوگا , اس طرح اس کذاب نے سال کے ہرماہ کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی حدیث گڑھی . اور اس باب میں جتنی بھی حدیثیں بیا ن کی جاتی ہیں سب کے سب موضوع اور جھوٹی ہیں( دیکھئے المنارالمنیف ص/64) مذکورہ بالا کتاب وسنت اورعلمائے کرام کے اقوال وفتاوى کی روشنی میں یہ بات واضح اورواشگاف ہوگئ کہ دین اسلام میں کوئی دن اورمہینہ منحوس نہیں, نہ ہی ان ایام اور مہینوں کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیرہے اورنہ ہی انکا کسی کی وفات سے کوئی تعلق ہے لہذا ہم تما م راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ماہ صفر سے متعلق بدعات, اور نحو ست وبدشگونی سے توبہ کریں اورصحیح عقیدہ کو اپنا کررب کریم اوررسول صلي الله عليه وسلمکی رضا وخوشنودی کا مستحق بنیں اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ ہم سب کو ہر طرح کی بدعت ونحوست سے محفوظ رکھے اورسچا مومن بنائے آمین. وصلى اللہ على نبینا محمد وبارک وسلم |
|