سید الشہداءحضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب
طالب الہاشمی علامہ ابن سعد نے واقدی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلا عَلَم حضرت حمزہؓ کو عطا ہوا۔ رمضان 1 ہجری میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سوار حضرت حمزہ کی امارت میں ساحلی علاقہ کی طرف اس غرض سے روانہ کیے کہ وہ قریش کے اس قافلے کی مزاحمت کریں جو اُس زمانے میں شام سے مکہ آرہا تھا۔ اس قافلے میں تین سو آدمی تھے جن میں ابوجہل بھی تھا۔ فریقین آمنے سامنے ہوئے تو مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاﺅ کرکے لڑائی تک نوبت نہ پہنچنے دی اور حضرت حمزہؓ کسی کشت و خون کے بغیر مدینہ منورہ واپس آگئے۔ ابن سعدؒ نے اس مہم کا نام ”سرّیہ سیف البحر“ لکھا ہے لیکن فی الحقیقت صحیح بخاری کے مطابق ”سرّیہ سیف البحر“ 8 ہجری میں پیش آیا۔ اس وقت اسلامی لشکر کے امیر حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح تھے۔ بعض روایتوں میں اس مہم کو سرّیہ حمزہ کا نام دیا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ مہم کسی خاص قافلے کی مزاحمت کے لیے نہیں بھیجی گئی تھی بلکہ عمومی طور پر قریش کے قافلوں کے تجسس کے لیے روانہ کی گئی تھی اور محض اتفاق سے اس کی مڈبھیڑ ابوجہل کے قافلے سے ہوگئی تھی۔ صفر 2 ہجری میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ یا ستّر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ غزوہ ودّان یا غزوہ¿ ابواءکے لیے تشریف لے گئے۔ اس غزوہ میں بھی حضور نے حضرت حمزہؓ کو فوج کا قائد اور عَلَم بردار بنایا۔ اسلامی فوج کے ابواءپہنچنے سے پہلے ہی قریش کا قافلہ وہاں سے آگے بڑھ چکا تھا۔ اس لیے جنگ و جدال کا موقع پیش نہ آیا، تاہم بنو ضمرہ سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پا گیا جس کی رو سے وہ اس بات کے پابند ہوگئے کہ نہ قریش کی مدد کریں گے اور نہ مسلمانوں کی، بلکہ ہر حال میں غیر جانب دار رہیں گے۔ اسی سال جمادی الاخریٰ میں غزوہ ¿ ذوالعشیرہ پیش آیا جس میں رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سو پچاس صحابہ کرامؓ کی معیت میں قریشِ مکہ کی گوشمالی کے لیے مقام ذوالعشیرہ تشریف لے گئے۔ اس غزوہ میں بھی حضور نے مجاہدین کی عَلَم برداری کا شرف حضرت حمزہؓ کو بخشا، لیکن اس بار بھی کشت و خون تک نوبت نہ پہنچی کیونکہ قریش کا قافلہ چند دن پہلے ہی ذوالعشیرہ سے کوچ کرچکا تھا، البتہ بنو مدلج سے باہمی امداد کا ایک عہدنامہ طے پاگیا۔ رمضان 2 ہجری میں حق و باطل کا معرکہ ¿ اوّل ”غزوہ ¿ بدر الکبریٰ“ پیش آیا تو حضرت حمزہؓ اس میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ عام لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی صفوں سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تلواریں ہلاتے ہوئے نکلے اور مسلمانوں کو دعوت ِ مبارزت دی، لشکر اسلام سے تین انصار جانباز عوفؓ، معاذؓ اور معوذؓ پسرانِ عفرا یا بروایت ِدیگر عوفؓ، معاذؓ اور عبداللہؓ بن رواحہ ان کے مقابل ہوئے۔ قریش جنگجوﺅں کو جب معلوم ہوا کہ ان کے مقابل ہونے والے تینوں جانباز مدینہ کے باشندے ہیں تو انہوں نے ان سے نبرد آزما ہونے سے انکار کردیا اور عتبہ نے پکار کر کہا ”محمد یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں، ہماری قوم اور کفو کے لوگوں کو ہمارے مقابلے پر بھیجو“۔ اس پر حضور نے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ بن حارث المُطّلبی کو حکم دیا کہ ”جاﺅ ان لوگوں کا مقابلہ کرو“۔ یہ تینوں بہادر حضور کا حکم سنتے ہی نیزے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔ حضرت حمزہؓ کا مقابلہ شیبہ سی، حضرت علیؓ کا ولید سے اور حضرت عبیدہؓ کا مقابلہ عتبہ سے ہوا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو پہلے ہی وار میں اپنے اپنے حریف کو جہنم رسید کردیا، لیکن عتبہ اور عبیدہؓ دونوں دیر تک لڑتے رہے یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے۔ حضرت عبیدہؓ کا زخم نہایت شدید تھا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے عتبہ کو بھی ڈھیرکردیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت حمزہؓ کا مقابلہ عتبہ سے ہوا تھا۔ حضرت علیؓ کا شیبہ سی، حضرت عبیدہؓ کا ولید سے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ تو عتبہ اور شیبہ پر بہت جلد غالب آگئے لیکن نوجوان ولید نے بوڑھے عبیدہؓ کو سخت زخمی کردیا۔ اس پر حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ آگے بڑھے اور آناً فاناً ولید کو خاک و خون میں لوٹا دیا۔ عتبہ، شیبہ اور ولید کو ہلاک ہوتے دیکھ کر قریش کے ایک نامور جنگجو طعیمہ بن عدی کو سخت جوش آیا اور وہ ہنکارتا ہوا میدانِ جنگ میں اترا، حضرت حمزہؓ فوراً اس کی طرف بڑھے اور ایک ہی وار میں اس کو جہنم واصل کردیا۔ اب مشرکین نے مشتعل ہوکر عام ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کی تعداد کفار کی تعداد کی ایک تہائی سے بھی کم تھی لیکن انہوں نے اس پامردی اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا کہ کفار کا منہ پھر گیا۔ حضرت حمزہؓ اس شان سے لڑرہے تھے کہ دستار پر شترمرغ کی کلغی تھی اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہے تھے۔ جدھر جھک پڑتے تھے کفار کی صفیں الٹ جاتی تھیں۔ اس دن ان کے ہاتھ سے بہت سے مشرکین ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ان میں سے بنو مخزوم کا ایک جنگجو اسود بن عبدالاسد بن ہلال بھی تھا۔ یہ شخص نہایت کریہہ المنظر تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں آیا تو بآواز بلند قسم کھاکر کہاکہ آج میں مسلمانوں کے حوض کا پانی ضرور پیوں گا اور اسے خراب کرڈالوں گا۔ حضرت حمزہؓ اس کی ڈینگ سن کر غصہ سے بے تاب ہوگئے اور شیر کی طرح اس پر جھپٹے۔ ان کے پہلے ہی وار سے اسود کی ایک ٹانگ کٹ گئی اور وہ زمین پر گر پڑا، لیکن ہمت کرکے پھر اٹھا اور گھسٹتا ہوا مسلمانوں کے حوض تک جا پہنچا۔ حضرت حمزہؓ بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ اسود نے حوض میں چھلانگ لگادی لیکن حضرت حمزہؓ نے اس کو حوض میں ہی قتل کردیا۔ مسلمانوں نے چند ساعت کی لڑائی کے بعد کفار کو شکست ِفاش دی، ستّر مشرکین میدانِ جنگ میں کام آئے۔ ان میں عتبہ، شیبہ، ولید، ابوجہل، نصربن الحارث اور کئی دوسرے رﺅسائے قریش بھی شامل تھے۔ تقریباً اتنے ہی مشرکین کو مسلمانوں نے قیدی بنالیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حمزہؓ نے اسود بن عامر کو قیدی بنایا، اسے بعد میں طلحہ بن ابی طلحہ نے دو ہزار دینار بطورِ فدیہ ادا کرکے رہا کرایا۔ طبرانی نے حضرت حارث تیمی سے روایت کی ہے کہ حضرت حمزہؓ یوم بدر میں شتر مرغ کے پر کا نشان لگائے ہوئے تھے۔ (جنگ کے بعد) مشرکین میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس نے شتر مرغ کے پَر کی کلغی لگا رکھی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ یہ حمزہؓ بن عبدالمطلب ہیں۔ اس نے کہاکہ اس شخص نے آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ یہ استفسار اسیرانِ بدر میں سے بعض نے کیا تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ حمزہؓ تھے تو انہوں نے کہاکہ حمزہؓ نے آج لڑائی میں ہم پر بڑے ستم ڈھائے ہیں۔ ........٭٭٭........ شوال 2 ہجری میں غزوہ ¿ بنو قینقاع پیش آیا۔ یہودیانِ قینقاع بڑے متمول، طاقتور اور جنگجو لوگ تھے۔ آہن گری اور زرگری ان کا خاص پیشہ تھا اور انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے کئی قلعے بنا رکھے تھے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نزولِ اجلال فرمایا تو اہلِ حق اور بنو قینقاع کے درمیان یہ دوستانہ معاہدہ طے پا گیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور اگر باہر سے کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن یہ لوگ جلد ہی اپنے معاہدے سے منحرف ہوگئی، غزوہ ¿ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی ان کو ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی یاوہ گوئیاں کرکے اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑنے لگے۔ مسلمانوں کی فتح کی اہمیت وہ یہ کہہ کر گھٹاتے تھے کہ قریشِ مکہ فنِ حرب میں مہارت نہیں رکھتے تھی، مسلمانوں کا مقابلہ ہمارے ساتھ ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ جوانمرد کیسے لڑتے ہیں۔ شوال 2 ہجری میں ایک اتفاقی واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک مسلمان خاتون بنوقینقاع کے محلے میں کسی کام سے گئی۔ ایک یہودی نے اس کو چھیڑ کر بے حرمت کیا، یہ دیکھ کر ایک مسلمان غصہ سے بے قابو ہوگیا اور اس یہودی کو قتل کرڈالا۔ یہودیوں نے اس غیرت مند مسلمان کو شہید کرڈالا اور اعلانیہ سرکشی اور عہد شکنی پر آمادہ ہوگئے۔ مسلمانوں نے ان کو بہت سمجھایا لیکن ان کو اپنے ہتھیاروں اور قلعوں پر اتنا ناز تھا کہ کسی طرح اپنے مفسدانہ ارادوں سے باز نہ آئے۔ بالآخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف لڑائی کا اعلان کردیا اور ان کے محلے کا محاصرہ کرلیا۔ بنوقینقاع نے پندرہ دن تک قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا۔ اس کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ کریں گے وہ اس کی پابندی کریں گے۔ حضور نے خزرج کے بعض اکابر سے مشورہ کرکے حکم دیا کہ بنوقینقاع مدینہ کی سکونت ترک کرکے باہر چلے جائیں۔ چنانچہ یہ لوگ مدینہ سے نکل کر ملک شام کے ایک ضلع ازرُعات میں چلے گئے۔ ابن سعدؒ اور ابن ہشامؒ کا بیان ہے کہ غزوہ ¿ بنو قینقاع میں بھی سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہؓ کو اسلامی فوج کا عَلم مرحمت فرمایا۔ چنانچہ وہ شروع سے آخر تک نہایت شجاعت اور استقلال کے ساتھ عَلم برداری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 3 ہجری میں مشرکینِ مکہ نے بدر کا انتقام لینے کے لیے بڑے جوش و خروش سے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی۔ عَلم بردارانِ حق اور کفار 7 شوال کو کوہِ احد کے دامن میں ایک دوسرے کے مقابل ہوئے۔ اس وقت رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کُل سات سو جانباز تھے جن میں سو زرہ پوش اور چند سوار تھے۔ اُدھر مشرکین کی تعداد تین ہزار تھی جن میں دو سو سوار اور سات سو زرہ پوش تھے۔ مسلمانوں نے احد کا پہاڑ پیٹھ کے پیچھے رکھ کر اپنی صفیں درست کیں، حضور نے پچاس تیر اندازوں کا دستہ اس درہ پر بٹھادیا جدھر سے اندیشہ تھا کہ دشمن اس سے گزر کر عقب سے حملہ نہ کردے۔ اس موقع پر حضرت حمزہؓ فوج کے ایک دستے کے افسر مقرر ہوئے جس کا کوئی مجاہد زرہ پوش نہیں تھا۔ طبلِ جنگ بجا تو قریش کی عورتیں دف پر یہ رجزیہ اشعار پڑھ کر اپنے مردوں کو لڑائی پر ابھارنے لگیں: (ترجمہ) ہم نجمِ سحر کی بیٹیاں ہیں ہم زین پوش کے منقش اور خوبصورت کپڑوں پر چلتی ہیں ہنس کی چال سے جس کو دیکھ کرآنکھیں خیرہ ہوتی ہیں ہمارے سر مشک آلود ہیں اور گردن کے ہاروں میں موتی پروئے ہوئے ہیں اگر تم میدانِ جنگ میں آگے بڑھے تو ہم تم سے ہم آغوش ہوں گی اور زین پوش کے منقش اور خوبصورت کپڑے تمہارے واسطے بچھائیں گی اور اگر تم نے پشت پھیری تو ہمارا تمہارا فراق ہی ایسا فراق کہ جیسے ہم تم کبھی دوست ہی نہ تھے۔ سب سے پہلے قریش کا عَلم بردار طلحہ بن ابی طلحہ صف سے نکلا اور مسلمانوں سے مخاطب ہوکر للکارا: ”تم میں کوئی ہے جو میرے سامنے آئے۔“ حضرت علی المرتضیٰ ؓ اس کے مقابلے کے لیے بڑھے اور ایک ہی وار میں اس کو واصل جہنم کردیا۔ اس کے بعد عثمان بن ابی طلحہ رجز پڑھتے ہوئے آگے بڑھا، حضرت حمزہؓ اس پر جھپٹے اور شانہ پر اس زور سے تلوار ماری کہ کمر تک اتر آئی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے نعرہ مارا ”یہ لی، میں ساقی ¿ حجاج (عبدالمطلب) کا بیٹا ہوں“۔ علامہ شبلی نعمانی نے ”سیرة النبی“ میں عثمان کو طلحہ کا بیٹا بیان کیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے اہلِ سِیَر (ابن اثیرؒ ، حاکم ؒ اور حافظ ابن عبدالبرؒ وغیرہ) نے عثمانؓ بن طلحہ کو صحابہ کرامؓ میں شمار کیا ہے۔ وہ فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور نے انہیں کعبہ کی کلید برداری کے خاندانی منصب پر بحال رکھا۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ غزوہ ¿ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھ سے جو عثمان مارا گیا وہ ابی طلحہ کا بیٹا اور طلحہ کا بھائی تھا۔ قریش کا عَلم اٹھاکر نکلنے والے جب کچھ اور آدمی بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے یکے بعد دیگرے مارے گئے تو مشرکین نے عام ہلہ بول دیا۔ حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابو دجانہؓ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ بن معاذ، حضرت اسیدؓ بن حضیر اور بہت سے دوسرے سرفروش فوجوں کے دَل میں گھس گئے اور دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ کر رکھ دیں۔ حضرت حمزہؓ اس شان سے لڑرہے تھے کہ دو دستی (دونوں ہاتھوں سی) تلوار چلاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھی: میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔ اسی حالت میں مکہ کا ایک سربرآوردہ مشرک سباع بن عبدالعزیٰ ان کے سامنے آگیا۔ حضرت حمزہؓ نے اس سے مخاطب ہوکر غضب آلود لہجے میں فرمایا ”او ختّانة النسائ“ (عورتوں کا ختنہ کرنے والی) اُمِّ انمار کے بچی! کیا تُو خدا اور خدا کے رسول سے لڑنے آیا ہی؟“ یہ کہہ کر اس پر تلوار کا ایسا بھرپور وار کیا کہ وہ کٹ کر وہیں گرپڑا۔ اِدھر حضرت حمزہؓ اسی طرح لاشوں پر لاشیں گراتے جارہے تھی، اُدھر جبیر بن مطعم کا حبشی غلام وحشی ایک چٹان کے پیچھے گھات لگائے یہ انتظار کررہا تھا کہ کب حضرت حمزہ ؓ اس کی زد میں آئیں اور وہ اپنا ہتھیار ان پر پھینکے۔ وحشی کو جبیر بن مطعم نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی (مقتولِ بدر) کا انتقام لینے کے لیے حضرت حمزہؓ کے قتل پر مامور کیا تھا اور اس کام کے عوض اس کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ (جاری ہے) |
|