تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جس نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسے موسم بنائے ہیں جن میں وہ کثرت سے نیک اعمال کرتے ہیں اور ان کی عمروں کو لمبا کیا پس وہ صبح وشام خیر وبلائی چاہتے ہیں ، درُودوسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر وبعد....! قال صلی اللہ علیہ وسلم : ” اعمار امتی مابین الستین إلی السبعین “( ) ” لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض بہت سارے نیک اعمال بنا دیے جن سے عمر میں برکت ہوگئی گویا کہ ان اعمال سے لمبی عمر عطا ہوئی اور ان ( نیک اعمال میں سے لیلۃ القدر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :( ) ” “ : ( ) ” وَ یَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ فِی اَیَّامٍ مَّعلُومٰتٍ( ) ” ایک اور حدیث میں ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”“ ( ) ” اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”“ ( ) ” ( ) : ” ٶ استرجکم لیالی اعشر “ کیانة عن القراءة القیام “ ” ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں کہ عشرہ ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج اکٹھا ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ کسی اور عشرہ میں نہیں آتیںابن رجب رحمہ اللہ اپنی کتاب اللطائف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے دلوں میں اپنے گھر کو دیکھنے کا اشتیاق رکھا ہے لیکن ہر کوئی ہر سال اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ اہل استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض کیا جبکہ پیچھے رہنے والوں کے لیے عشرہ ذی الحجہ کا موسم مشترک بنادیا ۔ : اے مسلمان بھائی! ان گھڑیوں کو غنیمت جانیئے اور اوقات کی محافظت پر جلدی کیجیے کیونکہ تیری عمر کا تو ثمن بھی باقی نہیں ہے اپنے ضائع کئے ہوئے وقت پر اپنے اللہ سے توبہ کیجیے اور یہ بات بھی جان لیجیے کہ ان مبارک ایام میں عمل صالح کی حرص خیر کی تلاش اور تقویٰ کی دلیل ہےذٰلِکَ وَ مَن یُّعَظِّم شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِن تَقوَی القُلُوبِ” ان ایام میں مستحب امور : ( ) ” “
اے میرے مسلمان بھائی! جلد از جلد توبہ نصوحہ کرلے ، معاصی وذنوب سے دور رہ کر کثرت سے استغفار اور ذکر الٰہی کی مداومت کے ساتھ ان ایام کا استقبال کیجیے ، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک موت آجائے اور وہ اس دنیا سے کوچ کرجائے ۔ اعمالِ صالحہ کی کثرت : : ”“ ۔ نماز : : ” ﺇ بہا درجة وحط عنک بھا خطیئة“ ( رواہ مسلم ) ” کثرت سے سجدے کیا کر تو کوئی بھی ایسا سجدہ نہیں کرتا مگر اس سے اللہ تیرا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے ۔ “ اور یہ ہر وقت کے لیے عام ہے ۔ : : ”“ ( رواہ الامام احمد وابوداود والنسائی ) ” ”“ ( رواہ احمد وابوداود ) ” چار کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑے تھے دس محرم کا روزہ ، عشرہ ذی الحجہ کے روزے ، ہر ماہ تین روزے اور فجر کی دو سنتیں ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”“ ( متفق علیہ ) ” کوئی بھی بندہ جب اللہ کے راستے میں ایک روزہرکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال دور کردیتا ہے ۔ “ : ”“ ۔ ” : ”“ ( رواہ مسلم ) ” نو ذی الحجہ کا روزہ میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔ “ : : ”“ ( رواہ مسلم ) ” : ”“ ( رواہ البخاری ) ” جس نے اس گھر کا حج کیا نہ فحش گوئی کی اور نہ فسق وفجور کیا ایسے لوٹتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ : : ” فاکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید “ ۔ “ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ان دنوں بازار میں نکل جاتے یہ دونوں ( باآوازبلند ) تکبیرات کہتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیرات کہتے ۔ اور دوسری جگہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ کے اندر تکبیریں کہتے تو مسجد والے لوگ اس کی آواز سنتے جو وہ اور بازار والے لوگ مل کر تکبیرات کہتے یہاں تک کہ ( میدان ) منیٰ تکبیر کی آوازوں سے گونج اٹھتا تھا ۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ان دنوں میں نمازوں کے بعد ، اپنے بستر پر ، اپنے خیمے میں ، اپنی مجلس میں اور پیدل چلتے وقت بھی تکبیرات کہا کرتے تھے ۔ عمر بن خطاب ، ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کے عمل کے مطابق مردوں کے لیے اونچی آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے اورعورتیں بھی تکبیر کہیں مگر آہستہ آواز سے جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے : ”“ ( رواہ البخاری ومسلم ) ” “ ہم مسلمانوں کا فرض منصبی ہے کہ ہم اس سنت کو زندہ کریں جو ان دنوں متروک ہوچکی ہے اور قریب ہے کہ اس کو بھلا دیا جائے حتی کہ اہل خیر واصلاح بھی اس کو چھوڑے ہوئے ہیں جبکہ اسلاف اس پر عمل پیرا تھے ۔ تکبیر کی دو قسمیں ہیں ” مطلق اور مقید “ جیسا کہ فتویٰ اللجنة الدائمة میں ہے ۔ عید الاضحی کے موقع پر مطلق ومقید تکبیر کہنا شروع ہے عشرہ ذی الحجہ کے شروع سے لے کر ایام تشریق کے آخر تک تمام اوقات میں تکبیرات کہنا تکبیر مطلق ہے اور نو ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد سے ایام تشریق کی آخر عصر تک تمام فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہنا تکبیر مقید ہے ۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اجماع اور عمل صحابہ ہے ۔ فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین سے سوال کیا گیا کہ کیا تکبیرات کو نماز کے بعد مسنون اذکار استغفار پر مقدم کیا جا سکتا ہے ۔ تو انہوں نے جواب دیا ۔اور تکبیر کی بجائے نماز کے متصل بعد کہنا چاہیے کیونکہ استغفار مباشرۃ نماز کے بعد ہے تاکہ نمازی پر یہ لازم نہ آئے کہ اس نے نماز کو درست طور پر ادا نہیں کیا بلکہ اس سے لازمی طور پر خلل آئے گا ۔ : ( الف )( ب )( ج )عید الاضحی کے احکام وآداب ذٰلِکَ وَ مَن یُّعَظِّم شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِن تَقوَی القُلُوبِ” جو اللہ کی نشانیوں کی عزت وحرمت کرتا ہے یہ اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے ۔ : ” “ ( رواہ ابوداؤد والنسائی ) ” اور یوم القر قربانی کے دن کے ساتھ ملا ہوا دن یعنی گیارہ ذو الحجہ ہے ۔ “ نماز عید کی تیاری کے لیے جلدی اٹھنا : : ” “ ( البقرۃ 148 ) ” عید نیکیوں اور قربت کے افضل کاموں میں سے ہے ۔ “ امام بخاری رحمہ اللہ باب التکبیر الی العید عید کے لیے جلدی اٹھنے کا باب بیان کرتے ہیں کہ براءبن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث لے کر آئے ہیں فرماتے ہیں : ”“ ۔ ” سب سے پہلا کام جس سے ہم اپنے دل کی ابتدا کرتے ہیں وہ ہم نماز ادا کرتے ہیں ( فتح الباری : 350 ) ” التکبیر “ یعنی تکبیر کہنا : : ( البقرۃ : 203 ) : ” “ ( رواہ البخاری ومسلم ) ” جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ قربانی کرے ۔ “ : راستہ تبدیل کرنا : عید کی مبارکباد دینا : ( عید کے بعد ) تقبل اللّٰہ منا ومنکم کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ : بعض غلطیوں کی نشاندہی اجتماعی تکبیر : ایام عید میں حرام چیزوں سے کھیل تماشا کرنا : قربانی سے پہلے بال یا ناخن وغیرہ کاٹنا : فضول خرچی کرنا : : ( الانعام : 141 ) ” اور فضول خرچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کو پسند نہیں کرتا ۔ “بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عید کی رات جاگنا مشروع ہے اور اس بارے میں جو احادیث وہ نقل کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں ۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے جیسا کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا : ” “ ۔ ” عید الفطر اور قربانی کے دن ۔ “ : نیکی اور بھلائی کے کاموں کی حرص کر ، صلہ رحمی ، قریبی اعزہ کی زیارت ، بغض وحسد اور کراہیت کو چھوڑنا ، ان سے دل صاف کرنا ، فقراء ، مساکین اور یتیموں کے ساتھ نرمی کرنا ، ان کا خیال رکھنا اور ان پر خوشیوں کو لوٹانا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ساتھ قربانی کو مشروع قرار دیا ہے : ( الکوثر : 4 ) ” اپنے رب کے لیے نماز پڑھ ، اور قربانی کر ۔ “ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ سنت موکدہ ہے اور استطاعت کے باوجود اس کو چھوڑنا ناپسندیدہ عمل ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں کیا ہے ” “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوبصورت اور سینگوں والے دو مینڈھے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا بسم اللہ کہی اور تکبیر پڑھی ۔ “ : ” ( رواہ ابن ماجہ والترمذی ) ” قربانی کے دن اللہ کے ہاں ابن آدم کا سب سے پسندیدہ عمل خون بہانے سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے اور قربانی یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، کھریوں اور بالوں سمیت آئے گا اور قربانی کے جانور خون زمین پرگرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے ۔ پس ان کے ذریعے اپنے لیے سامان مسرت حاصل کرو ۔ |
|