بدعت کی تعریف سے پہلے سنت کی تعریف ضروری ہے کیونکہ سنت کا تعلق فعل اور عمل سے ہے اور بدعت کا تعلق ترک سے ہے اور فعل ترک پر مقدم ہوتا ہے ,نیز سنت کی تعریف سے بدعت کی تعریف بھی بدیہی طور پر معلوم ہوجائے گی .
سنت کیا ہے : سنت كے معنی لغت میں "طریقہ متبعہ "(وہ طریقہ جس کی پیروی کی جائے) اس کی جمع "سنن" ہے اور شریعت میں سنت سے مراد وہ اچھے طریقے ہیں جن کو رسول صلي الله عليه وسلمنے اپنی امّت کے لئے اللہ کے حکم سے مشروع فرمائے ہیں . نیز وہ آداب وفضائل جن کی آپ نے ترغیب دی ہے تاکہ ان سے آراستہ ہوکر کمالات وسعادت حاصل ہو, پس اگر وہ سنت ایسی ہے کہ آپ نے اس کے انجام دینے اور اس کی پابندی کا حکم فرمایا ہے تو وہ ان سنن واجبہ میں سے ہے جن کا ترک کرنا مسلمان کو جائز نہیں ہے , ورنہ تو وہ سنن مستحبہ ہیں جن کے کرنے والے کو ثواب ہوگا اور اس کے ترک کرنے والے کو عقاب نہ ہوگا
یہ بھی جان لینا چاہئے کہ جس طرح نبی کریم صلي الله عليه وسلمکے قول سے سنت کا ثبوت ہوتا ہے , اسی طرح آپ کے فعل اورتقریر( یعنی آپ کے سامنے کسی نے کوئی فعل کیا اور آپ اس پر خاموش رہے )سے بھی ثابت ہوجاتی ہے , نبی کریم صلي الله عليه وسلمنے جب کوئی فعل کیا اور پابندی کے ساتہ اس کو بار بار آپ کرتے رہے تو وہ فعل امت کے لئے سنت ہو جائیگا مگر یہ کہ کسی کو دلیل سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ فعل آپ کی خصوصیات میں سے ہے , مثلاً آپ کا متواتر روزے رکھنا , اور اگر آپ نے صحابہ کے درمیان کوئی چیز دیکھی یا سُنی اور وہ چیز کئی مرتبہ ہوئی اور آپ نے اس کی نکیر نہیں فرمائی تو وہ بھی سنت ہوجائے گی , کیونکہ آپ نے اس کی تقریر اورتثبیت فرمادی , لیکن اگریہ فعل اور دیکھنا اورسننا باربار نہ ہو تو یہ سنت نہ ہوگا کیونکہ "سنت"کا لفظ تکرار سے مشتق ہے اور غالباً وہ "سنّ السکّین" (یعنی چھری کو دھاربنانے والے اوزار پر باربار رکھا یہاں تک کہ وہ دھار والی ہوگئی ) سے ماخوذ ہے .جو کام آپ صلي الله عليه وسلمنے ایک بار کیا اور پھر دوبارہ اسکو نہیں کیا اوروہ فعل سنت نہیں ہوا اسکی مثال یہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی عذر سفر یا مرض یا بارش کے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نماز کو جمع کرکے پڑھا ,اسی لئے یہ تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل اتباع سنت نہیں ہے , جو کام آپ کے سامنے ایک مرتبہ کیا گیا اورآپ اس پر خاموش رہے اوراس کو برقرار رکھا , جس کی وجہ سے وہ ایسی سنت نہ قرارپائی جس پر مسلمان عمل کریں , اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ:" ایک عورت نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالی نے رسول صلي الله عليه وسلمکو سفر سے سلامتی کے ساتہ واپس لایا تو وہ اس خوشی میں اپنے سرپر دف رکھ کر بجائے گی –چنانچہ اس عورت نے ایسا ہی کیا" (ابوداودوترمذی)اور رسول صلي الله عليه وسلمنے اسکو نہ روک کراس کو برقرار رکھا لیکن یہ ایک ہی بار ہوا اس لئے یہ عمل سنت نہیں قرار پایا , کیونکہ یہ باربار نہیں ہوا-
اور اسکی مثال کہ جو رسول صلي الله عليه وسلمنے باربار کیا ہو اوروہ بلاکسی نکیر کے سنت بن گیا جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں وہ فرض نماز کے بعد صف کے سامنے آپ صلي الله عليه وسلمکا اپنا چہرہ کرکے بیٹھنا ہے , آپ صلي الله عليه وسلمنے بیٹھنے کی اس ہیئت کا حکم نہیں فرمایا , لیکن آپ نے اسکو کیا اور سینکڑوں بار کیا , اسلئے یہ ہر امام جو لوگوں کونمازپڑھائے اس کے لئے سنت بن گیا .
اوراسکی مثال کہ جس کو آپ نے باربار دیکھا اور سنا , اوراس کو برقرار رکھا اس لئے وہ عمل سنت ہوگیا , جنازہ کے آگے اور اس کے پیچھے چلنا ہے , کیونکہ آپ صلي الله عليه وسلمصحابہ کو دیکھتے تھے کہ بعض حضرات جنازہ کے پیچھے چل رہے ہیں اور بعض اس کے آگے , اور آپ نے یہ بارباردیکھا , اور خاموش رہے , اس طرح اس عمل کو برقرار رکھا , اس لئے جنازہ کے پیچھے اوراس کے آگے چلنا ایک سنت بن گیا جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے .
میرے بھائی !جیساکہ بیان ہواکہ یہی سنت ہے اس کو ہمیشہ یا د رکھو اوراسی کے ساتہ چاروں خلفائے راشدین , حضرت ابوبکر ,حضرت عمر ,حضرت عثمان,حضرت علی رضی اللہ عنہم أجمعین کی سنت کو بھی ملالو ,کیونکہ رسول صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ہےک(فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ)(ابوداود ترمذی) "تمہارے اوپر میری سنت اورمیرے بعد خلفائے راشدین کی لازم ہے اس کو دانت سے پکڑلویعنی مضبوطی سے "
بدعت :اب رہی بدعت تو یہ سنت کی نقیض اور ضد ہے جو (ابتدع الشیء ) "بغیر کسی پہلی مثال کے کوئی نئی چیز نکا لنا"سے مشتق ہے اور شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز کو بدعت کہتے ہیں جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلي الله عليه وسلمکی زبان سے مشروع نہ فرمایاہو , خواہ وہ عقیدہ ہو یا قول یا فعل ہو اورآسان عبارت میں یوں کہ سکتے ہیں کہ بدعت ہروہ چیز ہے جو رسول صلي الله عليه وسلماورآپ کے صحابہ کے زمانہ میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو کہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت اوراسکا قرب حاصل کیا جاتا ہو , خواہ عقیدہ ہویاقول وعمل اورخواہ اس کو کتنا ہی تقدس دینی اور قربت وطاعت کا رنگ دیا گیا ہو .
اب ہم بدعت اعتقادی ,بدعت قولی , اوربدعت عملی میں سے ہر ایک کی مثال دے کر بدعت کی حقیقت واضح کریں گے . واللہ یہدی من یشاء إلی صراط مستقیم.
بدعت اعتقادی: بہت سے مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ اولیاء اللہ کا بھی اس دنیا سے متعلق ایک انتظامی نظام ہے جو "خفیہ حکومت" سے بہت زیادہ مشابہ ہے جس کے ذریعہ معزولی وتقرری ,عطا ومنع , ضررونفع کے کام انجام پاتے ہیں اوریہ لوگ اقطاب وابدال کہلاتے ہیں اوربہت مرتبہ ہم نے لوگوں کو اس طرح فریاد کرتے سنا کہ اے انتظام عالم سے تعلق رکھنے والے مردان خدا! اوراے اصحاب تصرف!
اسی طرح یہ اعتقاد کہ اولیاء کی ارواح اپنی قبروں میں ان لوگوں کی شفاعت کرتی ہیں اوران کی ضروریات پوری کرتی ہیں جو ان کی زیارت کو جاتے ہیں , اسی واسطے وہ لوگ ان کے پاس اپنے مریضوں کو لے جاتے ہیں تاکہ ان سے شفاعت کروائیں , وہ لوگ کہتے ہیں کہ " جو شخص اپنے معا ملات سے تنگ اور عاجز آگیا ہوتو اس کو اصحاب قبور کے پاس آنا چاہئے "(موضوع حدیث) اسی طرح یہ عقیدہ کہ اولیاء اللہ غیب کی باتیں جانتے ہیں اورلوح محفوظ میں دیکھ لیتے ہیں اور ایک قسم کا تصرف کیا کرتے ہیں , خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ اسی لئے وہ ان کے لئے محفلیں قائم کرتے ہیں ’ اورنذرونیاز پیش کرتے ہیں اورخاص خاص رسومات کے ساتہ ان کا عرس مناتے ہیں –
یہ اوراس طرح کی بہت سی اعتقادی بدعتیں ہیں , جو رسول صلي الله عليه وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھیں , اورنہ صحابہ کے زمانہ میں , اورنہ ان تینوں زمانوں میں جس کے صلاح وخیرکی رسول صلي الله عليه وسلمکی اس حدیث میں شہادت آئی ہے (خیر القرون قرنی ثم اللذین یلونہم ثم اللذین یلونہم )(بخاری و مسلم) "یعنی بہترین زمانہ میرازمانہ ہے ,پھر ان لوگوں کا جو ان سے متصل ہیں پھر ان کا جو ان سے متصل ہیں"
بدعت قولی:اس کی مثال اللہ تعالی سے اس طرح سوال کرنا ہے کہ اے اللہ! بجاہ فلاں اوربحق فلاں ہماری دعا قبول فرمالے , اس طرح دعا کرنے کی عام عادت ہوگئی ہے , جس میں چھوٹے ,بڑے اول وآخر اورجاہل وعالم سب مبتلا ہیں , اس کو لوگ بہت بڑا وسیلہ سمجھتے ہیں , کہ اس پر اللہ تعالی وہ چیزیں عطا فرماتے ہیں , جو دوسرے طریقہ سے نہیں عطافرماتے , اس وسیلہ کے انکار کی کوئی کوشش جرأت بھی نہیں کرسکتا , کیونکہ ایسا شخص دین سے خارج اوراولیاء وصالحین کا دشمن سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ بدعت قولیہ جس کا نام وسیلہ ہے رسول صلي الله عليه وسلماورسلف صالح کےعہد میں موجود نہ تھی , اورنہ کتاب وسنت میں اس کا کوئی ذکر ہے,اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ درست بات یہ ہے کہ فرقہ باطنیہ کےغالی بددین لوگوں نے اس کو ایجاد کیا تاکہ اس طرح وہ مسلمانوں کو ان مفید اورنافع وسائل سے روک دیں جن سے مسلمانوں کی پریشانیاں دوراوران کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں , جیسے نماز وصدقہ , اور ادعیہ واذکار ماثورہ وغیرہ.
اسی بدعت قولی میں سے وہ بھی ہے جو اکثر متصوفین کے یہاں متعارف ہے , یعنی ذکر کے حلقے قائم کرنا , کبھی ھو , ھو,ھی, ھی, کےالفاظ سے اور کبھی اللہ ,اللہ کے الفاظ سے , اورکھڑے ہو کر اپنی پوری بلند آواز سےٍ , اسی طرح ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض بے ہوش ہو جاتےہیں اور یہاں تک کہ بعض خلاف شرع باتیں کرنے لگتے ہیں اورکفر بکنے لگتے ہیں, انہی میں سے ایک شخص نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا اوراسے یہ خبر نہ تھی کہ وہ چھری کہاں ماررہا ہے.
اسی طرح مد حیہ قصائد واشعار کا بے ریش لڑکوں اورداڑھی منڈوں کی آوازسے سننا اور عودومزامیر اور دف کا سننا ہے , یہ اور اس طرح کی قولی بدعات بہت ہیں , حالانکہ اللہ کی قسم!یہ ساری چیزیں رسول صلي الله عليه وسلمکےزمانہ میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہیں تھیں , بلکہ یہ سب زندیقوں , دین اسلام میں تخریب پیدا کرنے والوں اورامت محمدیہ میں فساد پیدا کرنے والوں کی ایجاد ہے تاکہ مسلمانوں کو مفید اورنافع شئے سے مضر چیز کی طرف اور حقیقت وسنجیدگی سے لہوولعب کی طرف متوجہ کردیں
بدعت فعلی: اس کی مثال قبروں پر عمارت بنانا ہے اور خاص طور سے ان لوگوں کی قبروں پر جن کی نیکی اور بزرگی کے معتقد ہیں اور ان کی قبروں پر گنبد بنانا اور ان کی زیارت کے لئے سفر کرنا اور وہاں مقیم ہونا, اور انکے پاس گائے اوربکری ذبح کرنا , اور وہاں کھانا کھلانا , یہ ساری چیزیں رسول صلي الله عليه وسلماورصحابہ رضی اللہ عنہم کے یہاں معروف نہ تھیں , اوراسی طرح ایک بدعت مسجد حرام اور مسجد نبوی سے الٹے پاؤں نکلنا ہے تاکہ خانہ کعبہ یا قبرنبوی کی طرف نکلتے وقت اس کی پشت نہ ہو , یہ بھی بدعت فعلی ہے , جو امت کے قرونِ اولى میں نہ تھی ,لیکن اس کو تشدد پسند لوگوں نے ایجاد کیا , اسی طرح اولیاء کی قبور کے اوپر لکڑی کے تابوت رکھنا اوراس کو لباس فاخرہ پہنانا اورخوشبو لگانا , اورچراغاں کرنا بھی بدعت ہے –
معززقارئین! یہ اعتقاد اور قول وعمل کی بدعات کی چند مثالیں ہیں جن پر عبادات کی چھاپ پڑگئی ہے , اسی طرح معاملات کے اندر بھی بدعات پیدا ہوگئی ہیں , مثلاً زانی کے اوپر زنا کی حد قائم کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا , اسی طرح چور کے اوپر چوری کی حد جاری کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا , اورمثلاً گھروں ,سڑکوں , اور بازاروں میں گانوں کا رواج دینا , کیونکہ اس طرح کی بیہودہ ,طرب انگیزیاں اور مدح خوانیاں اس امت کے قرون اولی میں نہ تھیں , اورانہی عملی بدعات میں سے سود کی منصوبہ کاری اور اسکا اعلان نیز اس کا انکار نہ کرنا ہے , اور اسی طرح عورتوں کا بے پردہ نکلنا اور عام وخاص مقامات میں گھومنا پھرنا اور مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط ہے , یہ ساری چیزیں بدترین بدعات ہیں اور امت اسلامیہ کو انحطاط وزوال کے خطرہ سے دوچار کرنے والی چیزیں ہیں , جس کے آثاربھی ظاہر ہوگئے ہیں جس کے لئے کسی دلیل وحجت کی ضرورت نہیں , ولا حول ولا قوۃ إلاباللہ.العظیم (1)